الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
563. حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حدیث نمبر: 17833
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، قال: حدثنا هشام الدستوائي ، قال: حدثنا قتادة ، عن انس بن مالك ، عن مالك بن صعصعة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بينا انا عند البيت بين النائم واليقظان، إذ اقبل احد الثلاثة بين الرجلين، فاتيت بطست من ذهب ملآن حكمة وإيمانا، فشق من النحر إلى مراق البطن، فغسل القلب بماء زمزم، ثم ملئ حكمة وإيمانا، ثم اتيت بدابة دون البغل وفوق الحمار، ثم انطلقت مع جبريل عليه السلام فاتينا السماء الدنيا، قيل: من هذا؟ قال: جبريل. قيل: ومن معك؟ قال: محمد. قيل: وقد ارسل إليه؟ قال: نعم. قيل: مرحبا به، ونعم المجيء جاء. فاتيت على آدم عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من ابن ونبي. ثم اتينا السماء الثانية قيل: من هذا؟ قيل: جبريل. قيل: ومن معك؟ قال: محمد. فمثل ذلك، فاتيت على يحيى، وعيسى عليهما السلام فسلمت عليهما، فقالا: مرحبا بك من اخ ونبي. ثم اتينا السماء الثالثة، فمثل ذلك، فاتيت على يوسف عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي. ثم اتينا السماء الرابعة، فمثل ذلك، فاتيت على إدريس عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي. ثم اتينا السماء الخامسة، فمثل ذلك، فاتيت على هارون عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي. ثم اتينا السماء السادسة، فمثل ذلك، ثم اتيت على موسى عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي. فلما جاوزته بكى، قيل: ما ابكاك؟ قال: يا رب، هذا الغلام الذي بعثته بعدي يدخل من امته الجنة اكثر او افضل مما يدخل من امتي. ثم اتينا السماء السابعة، فمثل ذلك، فاتيت على إبراهيم عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من ابن ونبي. قال: ثم رفع لي البيت المعمور، فسالت جبريل عليه السلام، فقال: هذا البيت المعمور يصلي فيه كل يوم سبعون الف ملك، إذا خرجوا منه لم يعودوا فيه آخر ما عليهم. قال: ثم رفعت لي سدرة المنتهى، فإذا نبقها مثل قلال هجر، وإذا ورقها مثل آذان الفيلة، وإذا في اصلها اربعة انهار نهران باطنان، ونهران ظاهران، فسالت جبريل فقال: اما الباطنان ففي الجنة، واما الظاهران فالفرات، والنيل. قال: ثم فرضت علي خمسون صلاة، فاتيت على موسى عليه السلام، فقال: ما صنعت؟ قلت: فرضت علي خمسون صلاة. فقال: إني اعلم بالناس منك، إني عالجت بني إسرائيل اشد المعالجة، وإن امتك لن يطيقوا ذلك، فارجع إلى ربك فاساله ان يخفف عنك. قال: فرجعت إلى ربي عز وجل فسالته ان يخفف عني، فجعلها اربعين، ثم رجعت إلى موسى فاتيت عليه، فقال: ما صنعت؟ قلت: جعلها اربعين، فقال لي: مثل مقالته الاولى، فرجعت إلى ربي عز وجل، فجعلها ثلاثين، فاتيت موسى عليه السلام فاخبرته، فقال لي: مثل مقالته الاولى، فرجعت إلى ربي عز وجل، فجعلها عشرين، ثم عشرة، ثم خمسة، فاتيت على موسى فاخبرته، فقال لي: مثل مقالته الاولى، فقلت: إني استحيي من ربي عز وجل من كم ارجع إليه، فنودي ان قد امضيت فريضتي، وخففت عن عبادي، واجزي بالحسنة عشر امثالها" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، إِذْ أَقْبَلَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَلَآنٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ، فَغُسِلَ الْقَلْبُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ، وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ. فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ. ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قِيلَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يَحْيَى، وَعِيسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمَا، فَقَالَا: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ. ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ. ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ. ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى هَارُونَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ. ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّادِسَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ. فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَكَى، قِيلَ: مَا أَبْكَاكَ؟ قَالَ: يَا رَبِّ، هَذَا الْغُلَامُ الَّذِي بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَكْثَرُ أوَ أَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي. ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ. قَالَ: ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ. قَالَ: ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ، وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهَرَانِ بَاطِنَانِ، وَنَهَرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ فَقَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَفِي الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالْفُرَاتُ، وَالنِّيلُ. قَالَ: ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً. فَقَالَ: إِنِّي أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ، إِنِّي عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لَنْ يُطِيقُوا ذَلِكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكَ. قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنِّي، فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَتَيْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: جَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، فَقَالَ لِي: مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَجَعَلَهَا ثَلَاثِينَ، فَأَتَيْتُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ لِي: مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَجَعَلَهَا عِشْرِينَ، ثُمَّ عَشْرَةً، ثُمَّ خَمْسَةً، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ لِي: مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى، فَقُلْتُ: إِنِّي أَسْتَحِيي مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ مِنْ كَمْ أَرْجِعُ إِلَيْهِ، فَنُودِيَ أَنْ قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي، وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي، وَأَجْزِي بِالْحَسَنَةِ عَشْرَ أَمْثَالِهَا" ..
حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ میں بیت اللہ کے قریب سونے اور جاگنے کے درمیان تھا کہ تین میں سے ایک آدمی دو آدمیوں کے درمیان آگے آیا، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا، اس نے سینے سے لے کر پیٹ تک میرا جسم چاک کیا اور دل کو آب زم زم سے دھویا اور اسے حکمت و ایمان سے لبریز کردیا گیا، پھر میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ ہم آسمان دنیا پر پہنچے، پوچھا گیا کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جبریل! پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں! فرشتوں نے کہا خوش آمدید! ایک بہترین آنے والا آیا، وہاں میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا خوش آمدید ہو بیٹے کو اور نبی کو خوش آمدید، ایک بہترین آنے والا آیا۔ دوسرے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت یحییٰ و عیسی (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بیٹے کی بجائے بھائی کہا، تیسرے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بیٹے کی بجائے بھائی کہا، چوتھے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بھائی کہا، پانچویں آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت ہارون (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں بھی بھائی کہا، چھٹے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی بھائی کہا، جب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مل کر آگے بڑھا تو وہ رونے لگے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ پروردگار! یہ نوجوان جسے آپ نے میرے بعد مبعوث فرمایا: اس کی امت میری امت سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوگی، پھر ہم ساتویں آسمان پر پہنچے اور وہاں بھی یہی سوال جواب ہوئے، وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا خوش آمدید ہو بیٹے کو اور نبی کو۔ پھر میرے سامنے بیت المعمور کو پیش کیا گیا، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں بتایا کہ یہ بیت المعمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب ایک مرتبہ باہر آجاتے ہیں تو دوبارہ کبھی داخل ہونے کی نوبت نہیں آتی، پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہی کو پیش کیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور اس کی جڑ میں چار نہریں جاری تھیں جن میں دو نہریں باطنی اور دو ظاہری تھیں، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا باطنی نہریں تو جنت میں ہیں اور ظاہری نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ سے پچاس نمازیں فرض قرار دی گئیں، میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذرا تو وہ کہنے لگے کہ کیا معاملہ ہوا؟ میں نے بتایا کہ مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں لوگوں کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں، میں نے بنی اسرائیل کو خوب اچھی طرح آزمایا تھا، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، اس لئے آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور ان سے درخواست کیجئے کہ اس تعداد میں کمی کردیں، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا اور ان سے تخفیف کی درخواست کی تو پروردگار نے ان کی تعداد چالیس مقرر کردی، پھر دوبارہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذر ہوا تو یہی سوال جواب ہوئے اور دس نمازیں مزید کم ہوگئیں، اسی طرح دس دس کم ہوتے ہوتے آخری مرتبہ پانچ کم ہوئیں اور صرف پانچ نمازیں رہ گئیں، اس مرتبہ بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تخفیف کرانے کا مشورہ دیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے کہ کتنی مرتبہ اس کے پاس جاؤں، اسی اثناء میں آواز آئی کہ میں نے اپنا فریضہ مقرر کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا عطا کروں گا۔ 17988۔ حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے رموی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ میں بیت اللہ کے قریب سونے اور جاگنے کے درمیان تھا۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا ہم ساتویں آسمان پر پہنچے، پوچھا گیا کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جبریل! پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں! فرشتوں نے کہا خوش آمدید، ایک بہترین آنے والا آیا، وہاں میں حضرت ابراہیم (علیہ

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3207، م: 164


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.