الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جمعہ کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Friday
3. باب فِي الإِنْصَاتِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي الْخُطْبَةِ:
3. باب: جمعہ کے دن خطبہ میں خاموش رہنے کا بیان۔
Chapter: Listening attentively to the Khutbah on Friday
حدیث نمبر: 1965
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، ومحمد بن رمح بن المهاجر ، قال ابن رمح: اخبرنا الليث ، عن عقيل ، عن ابن شهاب ، اخبرني سعيد بن المسيب ، ان ابا هريرة اخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا قلت لصاحبك انصت يوم الجمعة، والإمام يخطب فقد لغوت ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، قَالَ ابْنُ رُمْحٍ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ أَنْصِتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ ".
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح بن مہاجر نے حدیث بیان کی، ابن رمح نے کہا: ہمیں لیث نے عقیل بن خالد سے خبر دی انھوں نے بن شہاب سے روایت کی انھوں نے کہا مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعے کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو (اس وقت) اگر تم نے اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو تو تم نے فضول گو ئی کی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی کو کہا، چپ رہ، جبکہ امام خطبہ دے رہا ہے، تو تو نے لغو (بے جا) کام کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 851

   صحيح البخاري934عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك يوم الجمعة أنصت والإمام يخطب فقد لغوت
   صحيح مسلم1968عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك أنصت يوم الجمعة والإمام يخطب فقد لغيت
   صحيح مسلم1965عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك أنصت يوم الجمعة والإمام يخطب فقد لغوت
   جامع الترمذي512عبد الرحمن بن صخرمن قال يوم الجمعة والإمام يخطب أنصت فقد لغا
   سنن أبي داود1112عبد الرحمن بن صخرإذا قلت أنصت والإمام يخطب فقد لغوت
   سنن النسائى الصغرى1403عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك أنصت يوم الجمعة والإمام يخطب فقد لغوت
   سنن النسائى الصغرى1578عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك أنصت والإمام يخطب فقد لغوت
   سنن النسائى الصغرى1402عبد الرحمن بن صخرمن قال لصاحبه يوم الجمعة والإمام يخطب أنصت فقد لغا
   سنن ابن ماجه1110عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك أنصت يوم الجمعة والإمام يخطب فقد لغوت
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم217عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك: انصت، والإمام يخطب، فقد لغوت
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم218عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك انصت فقد لغوت يعني بذلك والإمام يخطب يوم الجمعة
   بلوغ المرام363عبد الرحمن بن صخر من تكلم يوم الجمعة والإمام يخطب فهو كمثل الحمار يحمل أسفارا والذي يقول له : أنصت ليست له جمعة
   مسندالحميدي996عبد الرحمن بن صخرإذا قلت لصاحبك يوم الجمعة، والإمام يخطب أنصت فقد لغيت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 217  
´حالت خطبہ میں سامعین کا ایک دوسرے سے کلام کرنا جائز نہیں ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قلت لصاحبك: انصت، والإمام يخطب، فقد لغوت.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تو اپنے ساتھی کو کہے چپ ہو جا، اور امام (جمعے کا) خطبہ دے رہا ہو تو تُو نے لغو (باطل) کام کیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 217]

تخریج الحدیث:
[وله لون آخر فى الموطأ رواية أبى مصعب: 437، ● و أخرجه النسائي فى المجتبيٰ 188/3، ح 1578، من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم عن مالك، و أبوداود 1112، من حديث مالك به، ورواه البخاري 934، و مسلم 851، من حديث شهاب به]
تفقه:
➊ حالت خطبہ میں سامعین کا ایک دوسرے سے کلام کرنا جائز نہیں ہے لیکن امام سے ضروری بات کرنا جائز ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
➋ حالت خطبہ میں آنے والا دو رکعتیں ضرور پڑھے گا۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 931، 930، 1166، و صحيح مسلم 875]
➌ حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان کے نزدیک جمع کے دن خطیب کے آنے کے بعد سلام اور اس کا جواب، چھینک پر الحمدللہ کہنا اور اس کا جواب دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 120/2 ح 5260 و سنده صحيح]
● اور ابراہیم نخعی کے قول کی روشنی میں اس حالت میں سلام کا جواب نہ دینا بھی جائز ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 121/2 ح 5268 وسنده صحيح]
➍ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [الموطأ حديث 333، و مسلم 851]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 13   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 218  
´دوران خطبہ انصاف کا حکم`
«. . . 333- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قلت لصاحبك أنصت فقد لغوت يعني بذلك والإمام يخطب يوم الجمعة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام جب جمعہ کے دن خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے ساتھی سے کہو کہ چپ ہو جا، تو تم نے لغو (باطل) کام کیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 218]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه أحمد 485/2، من حديث مالك به ورواه مسلم 851/12، من حديث ابي الزنادبه]
تفقه:
[مصنف ابن ابي شيبه 126/2 ح 5309] میں صحیح سند کے ساتھ اسماعیل بن ابی خالد (ثقہ) سے منقول ہے کہ میں نے ابراہیم النخعی رحمہ الله کو جمعہ کے دن ایک آدمی سے بات کرتے ہوئے دیکھا اور امام خطبہ دے رہا تھا۔
● ابراہیم نخعی کا یہ عمل حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے یا پھر انتہائی شدید اضطراری حالت پرمحمول ہے۔ واللہ اعلم
● ابوالہیثم المرادی (صدوق) سے روایت ہے کہ امام جمعہ کے دن خطبہ دے رہا تھا کہ میں نے ابراہیم (نخعی) کو سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 121/2 ح 5268 وسنده صحيح]
◄ معلوم ہوا کہ ابرا ہیم نخعی کا جمعے کے دن بات کرنے والا عمل منسوخ ہے۔
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو تو کوئی یہ کہے کہ چپ کر، تو اس شخص نے لغو (باطل) کام کیا۔ [ابن ابي شيبہ 126/2 ح 5308 وسنده صحيح]
➌ ثعلبہ بن الی ما لک القرظی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ (جمعے کا) خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوتے تو ہم خاموش ہوجاتے پھر ہم میں سے کوئی بھی بات نہیں کرتا تھا۔ [الموطأ 103/1 ح 229 وسندہ صحيح، الزهري صرح بالسماع]
➍ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے دیکھا کہ امام جمعہ کے دن خطبہ دے رہا تھا اور دو آدی باتیں کررہے تھے تو انہوں نے ان دونوں کو کنکریوں سے مارا تاکہ چپ ہو جائیں۔ [الموطأ 104/1 ح 231 وسندہ صحیح]
● معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لے بعض اوقات طاقت کے ساتھ سمجھانا بھی جائز ہے بشرطیکہ طاقت استعمال کرنے والا بذات خود صحیح العقیدہ عالم ہو اور اسے اصحاب اقتدار کی حمایت حاصل ہو۔
➎ جو شخص جمعہ کے دن امام کے نکلنے کے بعد مسجد میں داخل ہو تو اس کے بارے میں حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان نے کہا: وہ سلام کرے گا اور لوگ جواب دیں گے۔ اسے اگر چھینک آ جائے پھر وہ الحمدللہ کہے تو لوگ اس کا جواب (یرحمک اللہ) دیں گے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 120/2 ح 5620 وسنده صحيح، نحو المعنيٰ بتصرف يسير]
● بہتر یہی ہے کہ باہر سے آنے والا جمعہ کے دن حالت خطبہ میں سلام نہ کرے اور اگر لوگ جواب دیں تو اشارے سے دین۔ واللہ علم
➏ ایک آدمی نے جمعہ کے دن خطبے کی حالت میں چھینکنے والے کا جواب دیا تو سعید بن المسیب نے اسے آئندہ ایسا کرنے سے منع کردیا۔ [الموطأ رواية الي مصعب الزهري 171/1 ح 442 وسنده صحيح، مصنف ابن ابي شيبه121/2 ح 5266 وسنده صحيح]
➐ مزید فقہ الحدیث کے لئے دیکھئے [الموطأ حديث: 13، و أبوداود 1112،، ورواه البخاري 934، و مسلم 851]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 333   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1112  
´امام خطبہ دے رہا ہو تو بات چیت منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نے امام کے خطبہ دینے کی حالت میں (کسی سے) کہا: چپ رہو، تو تم نے لغو کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1112]
1112۔ اردو حاشیہ:
خطبہ کے دوران میں خطیب کو سننا چاہیے اور اس کے ذمے ہے کہ لوگوں پر نظر رکھے۔ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے، کسی کو خامو ش کرانا اگرچہ امر بالمعروف ہے مگر سامع کو اس کی بھی اجازت نہیں۔ الا یہ کہ خطیب کا اس طرف خیال نہ ہو یا غفلت کرے، تو اشارے سے اس کو خامو ش کرا دے اگر اشار ہ نہ سمجھتا ہو تو ازحد مختصر الفاظ سے منع کر دے۔ [كذا فى عون المعبود]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1112   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1110  
´خطبہ جمعہ کو خاموشی کے ساتھ غور سے سننے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے دوران خطبہ کہا کہ چپ رہو، تو تم نے لغو کام کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1110]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خطبہ مکمل خاموشی سے سننا چاہیے۔

(2)
خطبے کے دوران میں کسی سے بات کرنا یا اس کی بات کا جواب دینا منع ہے۔

(3)
خطبے کے دوران میں حاضرین میں سے کوئی شخص اگر امام سے کوئی ضروری بات کہنا چاہتا ہو تو اجازت ہے۔
جیسے ایک شخص نے خطبے کے دوران میں آ کر رسول اللہﷺ سے بارش کےلئے دعا کی درخواست کی اور اگلے جمعے خطبے کے دوران میں بارش بند ہونے کی دعا کےلئے درخواست کی گئی۔ (صحیح البخاري، الجمعة، باب الإستسقاء فی الخطبة یوم الجمعة، حدیث: 933)
 اسی طرح رسول اللہ ﷺنے حضرت سلیک غطفانی سے کلام فرمایا۔
جیسے کہ اگلے باب میں آ رہا ہے۔
البتہ سامعین کو متوجہ رکھنے کے لئے ان سے بار بار کوئی سوال کرنا اور ان کا باآواز بلند اجتماعی طور پر جواب دینا یا نعرے لگانا درست نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1110   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 363  
´نماز جمعہ کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے جمعہ کے روز اس وقت بات کی جب امام منبر پر خطبہ جمعہ دے رہا ہو تو وہ شخص اس گدھے کی طرح ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اور اس کا بھی جمعہ نہیں جس نے اسے کہا کہ خاموش رہ۔ اسے احمد نے ایسی سند سے روایت کیا جس کے متعلق، «لا بأس به» کہا گیا ہے۔ اور یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں مروی حدیث کی تفسیر ہے جب امام خطبہ دے رہا ہو اور تو نے اپنے ساتھی سے کہا کہ چپ رہ تو تو نے بھی لغو بات کی۔ «بلوغ المرام/حدیث: 363»
تخریج:
«أخرجه أحمد:1 /230.* مجالد بن سعيد ضعيف من جهة سوء حفظه وحديث ((إذا قلت لصاحبك أنصت....)) أخرجه البخاري، الجمعة، حديث:934، ومسلم، الجمعة، حديث:851.»
تشریح:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم دیگر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازیوں کو خطبۂجمعہ پورے سکون و اطمینان اور انہماک و توجہ سے سننا چاہیے۔
کسی قسم کی ناروا حرکت نہیں کرنی چاہیے حتی کہ اگر کوئی آدمی بولنے اور گفتگو کرنے کی حماقت کرتا بھی ہے تو اسے منع نہیں کرنا چاہیے۔
پورا دھیان خطبے کے مضامین کی طرف ہونا لازمی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 363   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 512  
´امام کے خطبہ دینے کی حالت میں گفتگو کرنے کی کراہت۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران کسی سے کہا: چپ رہو تو اس نے لغو بات کی یا اس نے اپنا جمعہ لغو کر لیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 512]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اسے جمعہ کی فضیلت نہیں ملی بلکہ اس سے محروم رہا،
یہ معنی نہیں کہ اس کی نماز ہی نہیں ہوئی کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس کی نمازِ جمعہ ادا ہو جائے گی،
البتہ وہ جمعہ کی فضیلت سے محروم رہے گا،
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ پورے انہماک اور توجہ سے سننا چاہئے،
اور خطبہ کے دوران کوئی ناروا حرکت نہیں کرنی چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 512   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1965  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لغوت:
باب ناقص ہے اور نَصَر ہے،
اور دوسری حدیث میں لغيتَ ہے یہ لغي يلغي (س)
ہے معنی دونوں کا ایک ہے،
بے جا،
باطل اور مردود بات کرنا یا بے مقصد،
فضول کام کرنا۔
فوائد ومسائل:
امام کی آمد پر جب اذان کے بعد خطبہ شروع ہوجاتا ہے تو اس کو غور وتوجہ کے ساتھ سننا ضروری ہے۔
حتیٰ کہ اگر کوئی انسان اس کی مخالفت کرتے ہوئے گفتگو کررہا ہوتو اس کو روکنا بھی درست نہیں ہے۔
یہ بھی غلط اقدام ہے ائمہ اربعہ کا یہی موقف ہے پس اگر انسان کو خطبہ کی آواز نہ پہنچ رہی ہو تو جمہور کے نزدیک پھر بھی خاموشی ضروری ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کی رو سے ایسی صورت میں خاموشی ضروری نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1965   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.