الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز تراویح پڑھنے کا بیان
The Book of Tarawih Prayers.
1. بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:
1. باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔
(1) Chapter. The superiority of praying (Nawafil) at night in Ramadan.
حدیث نمبر: 2013
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن سعيد المقبري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، انه سال عائشة رضي الله عنها:" كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ فقالت: ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي اربعا، فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي اربعا، فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، فقلت: يا رسول الله، اتنام قبل ان توتر، قال: يا عائشة، إن عيني تنامان ولا ينام قلبي".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

Narrated Abu Salama bin `Abdur Rahman: that he asked `Aisha "How was the prayer of Allah's Apostle in Ramadan?" She replied, "He did not pray more than eleven rak`at in Ramadan or in any other month. He used to pray four rak`at ---- let alone their beauty and length----and then he would pray four ----let alone their beauty and length ---- and then he would pray three rak`at (witr)." She added, "I asked, 'O Allah's Apostle! Do you sleep before praying the witr?' He replied, 'O `Aisha! My eyes sleep but my heart does not sleep."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 32, Number 230


   صحيح البخاري3569عائشة بنت عبد اللهتنام عيني ولا ينام قلبي
   صحيح البخاري1147عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   صحيح البخاري2013عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   صحيح مسلم1723عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   جامع الترمذي439عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   سنن النسائى الصغرى1698عائشة بنت عبد اللهعيني تنام ولا ينام قلبي
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم159عائشة بنت عبد الله إن عيني تنامان ولا ينام قلبي
   بلوغ المرام298عائشة بنت عبد الله يا عائشة إن عيني تنامان ولا ينام قلبي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2013  
´رمضان غیر رمضان گیارہ رکعات پڑھنا `
«. . . كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً . . .»
۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔ [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ: 2013]

فوائد و مسائل:
اعتراض: اور اگر کوئی کہے کہ یہاں تہجد مراد ہے نہ کہ تراویح۔
جواب: تو کہا جائے گا کہ قدیمی اصطلاح میں قیام رمضان تراویح ہی کو کہا جاتا تھا۔ [ملاحظه هو كتب فقه مثلاً هدايه وغيره]
اور یہاں جو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام رمضان کے متعلق دریافت کیا گیا تھا، اس سے مراد تراویح ہی ہے، جس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ آپ گیارہ ہی پڑھتے تھے اور غیر رمضان کی قید لگانے سے یہ بات ظاہر کر دی گئی کہ جو آپ کا غیر رمضان میں تہجد تھا، وہی آپ کی رمضان میں تراویح تھیں۔

نیز صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں بھی ایک حدیث شریف مروی ہے جس سے بالکل واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ تراویح آٹھ ہی پڑھتے تھے۔ [صحيح ابن حبان 920، صحيح ابن خزيمه 1070، ابن منذر الاوسط 2606، طبراني جامع صغير: 1901] گو اس حدیث شریف کی سند میں ایک راوی بنام عیسٰی بن جاریہ واقع ہے اور اس کے متعلق کچھ جرحیں منقول ہیں لیکن حافظ ذہبی جو «من اهل استقراء التام في نقد الرجال» ہیں، انہوں نے اس حدیث شریف کے حق میں فرمایا ہے کہ «اسناده وسط» ۔ [ميزان الاعتدال 311/3]

باقی رہی وہ حدیث جو مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے وہ بالکل ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے اور اس کے متعلق:
◈ شیخ ابن ہمام حنفی نے یوں لکھا ہے کہ:
«واما ما روي ابن ابي شيبة والطبراني وعند البيهقي من حديث ابن عباس انه عليه الصلوة والسلام كان يصلي فى رمضان عشرين ركعة سوي الوتر فضعيف بابي شيبة ابراهيم بن عثمان متفق على ضعفه مع مالفته للصحيح» [فتح القدير: 467/1، علامه زيلعي نصب الرايه:153/2]
ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور طبرانی نے اور بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے وہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان واقع ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے۔
↰ علاوہ ازیں یہ حدیث باوجود ضعیف ہونے کے صحیح حدیث (یعنی بخاری شریف کی مذکورہ حدیث شریف) کے مخالف بھی ہے۔

اور لیجئیے فاروق اعظم عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
چنانچہ موطا امام مالک میں سائب بن یزید سے مروی ہے کہ:
«أمر عمر بن الخطاب أبي بن كعب وتميما الداري أن يقوما للناس بإحدى عشرة ركعة» [موطا امام مالك: 98]
عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان شریف میں گیارہ رکعت پڑھائیں۔
معلوم ہوا کہ مسنون آٹھ ہی رکعتیں ہیں نہ اس سے کم نہ اس سے بیش۔
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 46   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 2013  
´رمضان غیر رمضان گیارہ رکعات پڑھنا `
«. . . كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً . . .»
۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔ [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ: 2013]

فقہ الحدیث
ہمارے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
دلیل نمبر
❀ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
«كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ الخ [صحيح مسلم: 254/1 ح 1718]

دلیل نمبر
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: «ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة» إلخ رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ الخ۔ [صحيح بخاري: 229/1 ح 2013، عمدة القاري: 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
ایک اعتراض:
اس حدیث کا تعلق تہجد کے ساتھ ہے؟
جواب: تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً:
● صحیح بخاری، «كتاب الصوم» (روزے کی کتاب) «كتاب صلوة التراويح» (تراویح کی کتاب) «باب فضل من قام رمضان» (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی: [ص 141]، باب «قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل»
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے:
«قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح»
یعنی: قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] «باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان» ۔
دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً:
◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه: 153/2]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه: 203/1]
◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير: 467/1، طبع دار الفكر]
◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري: 128/11]
◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف: ص 64 باختلاف يسير]
دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ:
تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں، ان کا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 رکعات تراویح [3، 20] پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد [3، 8] پڑھی۔ (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے)
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا وتران فى ليلة» ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔ [ترمذي: 107/1 ح 470، ابوداود: 1439، نسائي: 1678، صحيح ابن خزيمه: 1101، صحيح ابن حبان: 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا:
«هذا حديث حسن غريب»
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے: [فیض الباری 420/2]، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کے لئے دیکھئے: [فیض الباری 420/2]
دلیل ⑨ متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نماز تراویح پڑھ لی ہو۔ [قيام الليل للمروزي: بحواله فيض الباري: 420/2]
↰ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔
دلیل ⑩ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی روایت: «صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات والوتر» الخ بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آ رہا ہے، لہٰذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔
«وتلك عشرة كاملة» ۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ 5، حدیث\صفحہ نمبر: 28   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 159  
´تعداد رکعات قیام رمضان`
«. . . 417- وعن سعيد بن أبى سعيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن أنه أخبره أنه سأل عائشة أم المؤمنين: كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان؟ فقالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدى عشرة ركعة يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، قالت عائشة: فقلت: يا رسول الله أتنام قبل أن توتر؟ فقال: يا عائشة، إن عيني تنامان ولا ينام قلبي. . . .»
. . . ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے مگر ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں نہ پوچھو۔ پھر چار پڑھتے مگر ان کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ وتر سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 159]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2013، ومسلم 738، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ رمضان میں تراویح کی نماز گیارہ رکعتیں ہے اور یہی نماز غیر رمضان میں تہجد کہلاتی ہے۔ اس حدیث سے درج ذیل علماء نے تراویح مسئلہ ثابت کیا ہے:
◄ بخاری [صحيح بخاري مع عمدة القاري ج11 ص128 ح2013]
◄ بیہقی [2/495، 496]
◄ زیلعی [نصب الرايه 2/153،]
◄ ابن حجر العسقلانی [الدرايه 1/203]
◄ عینی [عمدة القاري 11/128]
◄ سیوطی [الحاوي للفتاوي 1/348] اور ابن ہمام [فتح القدير 1/467]
◄ ابوالعباس أحمد بن ابراہیم القرطبی (متوفی 656ھ) فرماتے ہیں: اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں، انہوں نے اس (مسئلے) میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی حدیث سابق سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم ج2 ص390]
➋ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب تعداد رکعاتِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ اور الموطا احادیث ِ سابقہ: 36، 417
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 417   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 2013  
´گیارہ رکعت تراویح `
. . . انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ/ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:/ ح: 2013]

فوائد و مسائل
اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں:
اہل سنت بیس تراویح سے کم کے قائل نہیں۔
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۴]
7 تبصرہ: 7
قاضی ابوبکر بن العربی المالکی (متوفی ۵۴۳؁ھ) فرماتے ہیں:
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں۔
[عارضة الاحوذي ۴/۱۹ ح ۸۰۶، تعداد ركعاتِ قيام ر مضان كا تحقيقي جائزه ص ۸۶]
کیا قاضی صاحب اہل سنت سے خارج تھے؟

علامہ قرطبی (متوفی ۶۵۶؁ھ) لکھتے ہیں:
اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں۔
[المفهم من تلخيص كتاب مسلم ۲/۳۹۰، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۶]

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے …
[مختصر قيام الليل للمروزي ص ۲۰۲، ۲۰۳، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۵]
کیا یہ سب اہل سنت سے خارج تھے؟
   مذید تشریحات، حدیث\صفحہ نمبر: 0   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 298  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں ایسی حسن اور خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کا کیا کہنا۔ پھر چار رکعات ادا فرماتے بس ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں کیا پوچھتے ہو پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ وتر ادا کئے بغیر سو جاتے ہیں۔ فرمایا عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 298»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب قيام النبي صلي الله عليه وسلم بالليل في رمضان وغيره، حديث:1147، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل، حديث:738.»
تشریح:
1.اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوتے ہیں: 1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نہیں سوتا تھا‘ صرف آنکھیں سوتی تھیں۔
اور یہ آپ کی خصوصیت تھی بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: تمام انبیاء کے دل جاگتے اور آنکھیں سوتی ہیں۔
(صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم تنام عینہ ولاینام قلبہ‘ حدیث: ۳۵۷۰) 2. گہری نیند جس میں دل غافل ہو جائے‘ ناقض وضو ہے۔
3. نماز تہجد عمدہ طریقے سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہیے۔
4.ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح گیارہ رکعت ہی پڑھی ہے۔
اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت قابل ترجیح ہے‘ اس لیے کہ آپ یہ نماز گھر ہی میں ادا فرمایا کرتے تھے۔
آپ کے وہ اعمال جو آپ عموماً گھر میں سرانجام دیتے تھے بالخصوص رات کے اعمال ‘ ان کی صحیح خبر اہل خانہ ہی کو ہو سکتی ہے۔
بیس رکعت تراویح کے متعلق ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔
عبد بن حمید اور طبرانی نے ابوشیبہ‘ ابراہیم بن عثمان‘ عن الحکم‘ عن مقسم‘ عن ابن عباس کے طریق سے جو روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت تراویح پڑھی‘ وہ سخت ضعیف ہے کیونکہ ابوشیبہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام احمد‘ ابن معین‘ امام بخاری‘ امام مسلم‘ ابوداود‘ ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ سبھی کی یہ رائے ہے کہ یہ شخص ضعیف ہے۔
امام شعبہ رحمہ اللہ نے تو اسے کذاب قرار دیا ہے۔
اس کے مقابل صحیح مرفوع روایات میں آٹھ رکعت تراویح کا ذکر ہے‘ اس لیے تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے۔
علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں یہی کہا ہے کہ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ رکعات ہے اور اس سے زائد مستحب اور نفل ہیں۔
اسی طرح علامہ محمد انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے عرف الشذی میں کہا ہے کہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح آٹھ رکعت ہی پڑھی ہے اور کسی روایت سے یہ بھی ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں۔
5. اس حدیث کے آخری حصے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد کی دس رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور آخر میں ایک وتر پڑھا۔
یوں یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔
6. نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے کبھی تیرہ رکعت بھی پڑھیں ہیں۔
جس میں آٹھ نفل اور پانچ وتر ہوتے یا پھر فجر کی دو سنتیں ملا کر ۱۳ رکعتیں ہوتیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 298   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 439  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کا بیان۔`
ابوسلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کیسی ہوتی تھی؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد رمضان میں اور غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎، آپ (دو دو کر کے) چار رکعتیں اس حسن خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کو نہ پوچھو، پھر مزید چار رکعتیں (دو، دو کر کے) پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کو بھی نہ پوچھو ۲؎، پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 439]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ تراویح گیارہ رکعت ہے،
اور تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی چیز ہے۔

2؎:
یہاں نہی (ممانعت) مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔

3؎:
دل نہیں سوتا کا مطلب ہے کہ آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا،
کیونکہ دل بیدار رہتا تھا،
یہ نبی اکرم ﷺ کے خصائص میں سے ہے،
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں اپنے اٹھ جانے کا یقین ہو اسے چاہئے کہ وتر عشاء کے ساتھ نہ پڑھے،
تہجد کے آخر میں پڑھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 439   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2013  
2013. حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے، انھوں نے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی رمضان میں نماز کیسے ہوتی تھی؟انھوں نے جواب دیا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے ان کےخوبصورت اور طویل ہونے کے متعلق مت سوال کرو۔ پھر چار رکعات ادا کرتے، ان کے بھی خوبصورت اور لمبی ہونے کے بارے میں مت پوچھو۔ پھر تین رکعات (وتر)پڑھتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ وتر پڑھنےسے پہلےسوجاتے ہیں؟آپ نے فرمایا: عائشہ ؓ!میری آنکھیں سوتی ہیں البتہ میرا دل بیدار رہتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2013]
حدیث حاشیہ:
وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّةُ الْوَاحِدَةُ مِنَ الرَّاحَةِ كَتَسْلِيمَةٍ مِنَ السَّلَامِ سُمِّيَتِ الصَّلَاةُ فِي الْجَمَاعَةِ فِي لَيَالِي رَمَضَانَ التَّرَاوِيحَ لِأَنَّهُمْ أَوَّلَ مَا اجْتَمَعُوا عَلَيْهَا كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ بَيْنَ كُلِّ تَسْلِيمَتَيْنِ وَقَدْ عَقَدَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ بَابَيْنِ لِمَنِ اسْتَحَبَّ التَّطَوُّعَ لِنَفْسِهِ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ وَلِمَنْ كَرِهَ ذَلِكَ وَحَكَى فِيهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ عَنِ اللَّيْثِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ قَدْرَ مَا يُصَلِّي الرَّجُلُ كَذَا كَذَا رَكْعَة۔
خلاصہ مطلب یہ ہے کہ تراویح ترویحة کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔
رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح کہا گیا، اس لیے کہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔
علامہ محمدبن نصر نے قیام اللیل میں دوباب منعقد کئے ہیں۔
ایک ان کے متعلق جو اس راحت کو مستحب گردانتے ہیں۔
اورایک ان کے متعلق جو اس راحت کو اچھا نہیں جانتے۔
اور اس بارے میں یحییٰ بن بکیر نے لیث سے نقل کیا ہے کہ وہ اتنی اتنی رکعات کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیرآرام کیا کرتے تھے۔
اسی لیے اسے نمازتراویح سے موسوم کیا گیا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس بارے میں پہلے اس نماز کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت لائے، پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کی دوسری روایت کے ساتھ حضرت ابن شہاب کی تشریح لائے جس میں اس نماز کا باجماعت ادا کیا جانا اوراس بارے میں حضرت عمر ؓ کا اقدام مذکور ہے۔
پھر حضرت امام ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی احادیث سے یہ ثابت فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے خود اس نماز کو تین راتوں تک باجماعت ادا فرماکر اس امت کے لیے مسنون قرار دیا۔
اس کے بعد اس کی تعداد کے بارے میں خود حضرت عائشہ ؓ کی زبان مبارک سے یہ نقل فرمایا کہ نبی کریم ﷺ رمضان یا غیررمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعتوں کی تعداد میں پڑھا کرتے تھے۔
رمضان میں یہی نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیررمضان میں تہجد کے نام سے، اور اس میں آٹھ رکعت سنت اور تین وتر۔
اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوا کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ ؓ کی زبان مبارک سے یہ ایسی قطعی وضاحت ہے جس کی کوئی بھی تاویل یاتردید نہیں کی جاسکتی، اسی کی بناپر جماعت اہل حدیث کے نزدیک تراویح کی آٹھ رکعات سنت تسلیم کی گئی ہیں، جس کی تفصیل پارہ سوم میں ملاحظہ ہو۔
عجیب دلیری:
حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث اورموطا امام مالک میں یہ وضاحت کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ کی اقتدا ءمیں مسلمانوں کی جماعت قائم فرمائی اورانھوں نے سنت نبوی کے مطابق یہ نماز گیارہ رکعتوں میں ادا فرمائی تھی۔
اس کے باوجود علمائے احناف کی دلیری اورجرات قابل داد ہے، جوآٹھ رکعات تراویح کے نہ صرف منکر بلکہ اسے ناجائز اوربدعت قراردینے سے بھی نہیں چوکتے۔
اورتقریباً ہرسال ان کی طرف سے آٹھ رکعات تراویح والوں کے خلاف اشتہارات، پوسٹر، کتابچے شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے سامنے دیوبند سے شائع شدہ بخاری شریف کا ترجمہ تفہیم البخاری کے نام سے رکھا ہواہے۔
اس کے مترجم وشارح صاحب بڑی دلیری کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں:
جولوگ صرف آٹھ رکعات تراویح پراکتفا کرتے اور سنت پرعمل کا دعویٰ کرتے ہیں وہ درحقیقت سواداعظم سے شذوذ اختیار کرتے ہیں اور ساری امت پر بدعت کا الزام لگاکر خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔
(تفہیم البخاری، پ8، ص: 30)
یہاں علامہ مترجم صاحب دعویٰ فرمارہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح سواد اعظم کا عمل ہے۔
آٹھ رکعات پر اکتفا کرنے والوں کا دعویٰ سنت غلط ہے۔
جذبہ حمایت میں انسان کتنا بہک سکتاہے یہاں یہ نمونہ نظر آرہاہے۔
یہی حضرت آگے خود اپنی اسی کتاب میں خود اپنے ہی قلم سے خود اپنی ہی تردید فرمارہے ہیں۔
چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعات پڑھتے تھے، اوروتر اس کے علاوہ ہوتے تھے۔
عائشہ ؓ کی حدیث اس سے مختلف ہے بہرحال دونوں احادیث پر ائمہ کا عمل ہے۔
امام ابوحنیفہ ؒ کا مسلک بیس رکعات تراویح کا ہے اورامام شافعی ؒ کا گیارہ رکعات والی روایت پر عمل ہے۔
(تفہیم البخاری، پ8، ص: 31)
اس بیان سے موصوف کے پیچھے کے بیان کی تردید جن واضح لفظوں میں ہورہی ہے وہ سورج کی طرح عیاں ہے جس سے معلوم ہوا کہ آٹھ رکعات پڑھنے والے بھی حق بجانب ہیں اور بیس رکعات پر سواداعظم کے عمل کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
حدیث ابن عباس ؓ جس کی طرف مترجم صاحب نے اشارہ فرمایاہے یہ حدیث سنن کبریٰ بیہقی ص496، جلد2 پر بایں الفاظ مروی ہے:
عن ابن عباس قال کان النبيُ صلی اللہ علیه وسلم یُصلِي في شهر رمضانَ في غیرجماعة بعشرین رکعة والوتر۔
تفردبه أبوشبیة إبراهیم بن عثمان العبسي الکوفي وهوضعیف۔
یعنی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعات اوروتر پڑھا کرتے تھے۔
اس بیان میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی تنہا ہے اوروہ ضعیف ہے۔
لہٰذا یہ روایت حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے مقابلہ پر ہرگز قابل حجت نہیں ہے۔
امام سیوطی ؒ اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
هذا الحدیث ضعیف جدا لاتقوم به الحجة۔
(المصابیح للسیوطي)
آگے علامہ سیوطی ؒ ابوشیبہ مذکورپر محدثین کبار کی جرحیں نقل فرماکر لکھتے ہیں:
ومن اتفق هولاء الأئمة علی تضعیفه لایحل الاحتجاج بحدیثه۔
یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ تمام ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے۔
علامہ ابن حجر ؒ نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔
علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:
وهومعلول بأبي شیبة إبراهیم بن عثمان جدا لإمام أبي بکر بن أبي شیبة و هومتفق علی ضعفه ولینه ابن عدي في الکامل ثم إنه مخالف للحدیث الصحیح عن أبي سلمة بن عبدالرحمن أنه سأل عائشة الحدیث (نصب الرایة، ص493)
یعنی ابوشیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول ضعیف ہے۔
اوراس کے ضعف پر سب محدثین کرام کا اتفاق ہے۔
اورابن عدی نے اسے لین کہاہے۔
اوریہ حدیث حضرت عائشہ ؓ کی حدیث جو صحیح ہے، اس کے بھی خلاف ہے۔
لہٰذا یہ قابل قبول نہیں ہے۔
علامہ ابن ہمام حنفی ؒ نے فتح القدیر جلداول، ص333 طبع مصر پر بھی ایسا ہی لکھاہے۔
اورعلامہ عینی ؒ حنفی نے عمدۃ القاری، طبع مصر، ص359، جلد5 پر بھی یہی لکھاہے۔
علامہ سندھی حنفی نے بھی اپنی شرح ترمذی، ص: 423، جلداوّل میں یہی لکھاہے۔
اسی لیے مولانا انورشاہ صاحب کشمیری ؒ فرماتے ہیں:
وأما النبي صلی اللہ علیه وسلم فصح عنه ثمان رکعات وأماعشرون رکعة فهوعنه بسند ضعیف وعلی ضعفه اتفاق۔
(العرف الشذي)
یعنی نبی ﷺ سے تراویح کی آٹھ ہی رکعات صحیح سند سے ثابت ہیں۔
بیس رکعات والی روایت کی سند ضعیف ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔
اوجزالمسالک، جلداول، ص: 3 پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں:
لاشك في أن تحدیدالتراویح في عشرین رکعة لم یثبت مرفوعاً عن النبي صلی اللہ علیه وسلم بطریق صحیح علی أصول المحدثین وماورد فیه من روایة ابن عباس فمتکلم فیها علی أصولهم انتهی۔
یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید تعیین نبی کریم ﷺ سے اصول محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے۔
اورجو روایت ابن عباس ؓ سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اورضعیف ہے۔
یہ تفصیل اس لیے دی گئی تاکہ علمائے احناف کے دعویٰ بیس رکعات تراویح کی سنّیت کی حقیقت خود علمائے محققین احناف ہی کی قلم سے ظاہر ہوجائے۔
باقی تفصیل مزید کے لیے ہمارے استاذ العلماءحضرت مولانانذیراحمد صاحب رحمانی ؒ کی کتاب مستطاب انوارالمصابیح کا مطالعہ کیا جائے جو اس موضوع کے ماله وماعلیه پر اس قدر جامع مدلل کتاب ہے کہ اب اس کی نظیر ممکن نہیں۔
جزی اللہ عناخیر الجزاء وغفراللہ له آمین۔
مزیدتفصیلات پ3 میں دی جاچکی ہیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2013   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2013  
2013. حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے، انھوں نے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی رمضان میں نماز کیسے ہوتی تھی؟انھوں نے جواب دیا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے ان کےخوبصورت اور طویل ہونے کے متعلق مت سوال کرو۔ پھر چار رکعات ادا کرتے، ان کے بھی خوبصورت اور لمبی ہونے کے بارے میں مت پوچھو۔ پھر تین رکعات (وتر)پڑھتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ وتر پڑھنےسے پہلےسوجاتے ہیں؟آپ نے فرمایا: عائشہ ؓ!میری آنکھیں سوتی ہیں البتہ میرا دل بیدار رہتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2013]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے تراویح کی تعداد کو ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں کس قدر نماز تراویح پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے، چنانچہ سائل نے حضرت عائشہ ؓ سے رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی نماز تراویح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت ادا کرتے تھے اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرتے تھے، آخر میں ایک وتر ادا کرتے۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1718(736)
حضرت جابر ؓ کی روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے تھے۔
(صحیح ابن خزیمة: 138/2)
اسی طرح حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ آج رات میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔
آپ نے دریافت فرمایا:
وہ واقعہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا:
ہم قرآن نہیں پڑھتیں، اس لیے تمہاری اقتدا میں نماز ادا کریں گی تو میں نے انہیں آٹھ رکعت پڑھائیں، اس کے بعد وتر ادا کیے۔
آپ خاموش رہے، اس پر کسی قسم کا تبصرہ نہ کیا، گویا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا۔
(مسند أبي یعلیٰ: 236/3)
حضرت عمر ؓ نے بھی اس سنت کا احیاء کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھائیں۔
(الموطأ للإمام مالك مع تنویرالحوالك: 105/1)
اس روایت کو بیان کرنے والے صرف امام مالک ہی نہیں بلکہ یحییٰ بن سعید القطان نے بھی اسے بیان کیا ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔
اسی طرح امام عبدالعزیز بن محمد نے بھی محمد بن یوسف سے اس روایت کو بیان کیا ہے، ان کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔
(2)
الغرض امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نماز تراویح کی مسنون تعداد گیارہ رکعت ہیں۔
واضح رہے کہ اس تعداد کے خلاف بیس رکعات تراویح کے اثبات میں پیش کی جانے والی تمام روایات کمزور اور ناقابل حجت ہیں۔
(تحفةالأحوذي: 612/3،616)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2013   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.