الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
932. حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا
حدیث نمبر: 21110
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا محمد بن بشر العبدي ، حدثنا مسعر ، عن مصعب بن شيبة ، عن ابي حبيب بن يعلى بن امية ، عن ابن عباس ، قال: جاء رجل إلى عمر، قال مسعر يعني السنة، قال: فساله عمر ممن انت؟ فما زال ينسبه حتى عرفه، فإذا هو موسر، فقال عمر: " لو ان لامرئ واديا او واديين، لابتغى إليهما ثالثا"، فقال ابن عباس:" ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ثم يتوب الله على من تاب"، فقال عمر لابن عباس ممن سمعت هذا؟ قال من ابي . قال: فإذا كان بالغداة، فاغد علي، قال: فرجع إلى ام الفضل، فذكر ذلك لها، فقالت: وما لك وللكلام عند عمر! وخشي ابن عباس ان يكون ابي نسي، فقالت امه إن ابيا عسى ان لا يكون نسي، فغدا إلى عمر ومعه الدرة، فانطلقنا إلى ابي، فخرج ابي عليهما وقد توضا، فقال: إنه اصابني مذي، فغسلت ذكري او فرجي، مسعر شك، فقال عمر: اويجزئ ذلك؟ قال: نعم، قال: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: وساله عما قال ابن عباس، فصدقه .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَبِي حَبِيبِ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ، قَالَ مِسْعَرٌ يَعْنِي السَّنَةَ، قَالَ: فَسَأَلَهُ عُمَرُ مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَمَا زَالَ يَنْسُبُهُ حَتَّى عَرَفَهُ، فَإِذَا هُوَ مُوسَر، فَقَالَ عُمَرُ: " لَوْ أَنَّ لِامْرِئٍ وَادِيًا أَوْ وَادِيَيْنِ، لَابْتَغَى إِلَيْهِمَا ثَالِثًا"، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ"، فَقَالَ عُمَرُ لِابْنِ عَبَّاسٍ مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا؟ قَالَ مِنْ أُبَيٍّ . قَالَ: فَإِذَا كَانَ بِالْغَدَاةِ، فَاغْدُ عَلَيَّ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَى أُمِّ الْفَضْلِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: وَمَا لَكَ وَلِلْكَلَامِ عِنْدَ عُمَرَ! وَخَشِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنْ يَكُونَ أُبَيٌّ نَسِيَ، فَقَالَتْ أُمُّهُ إِنَّ أُبَيًّا عَسَى أَنْ لَا يَكُونَ نَسِيَ، فَغَدَا إِلَى عُمَرَ وَمَعَهُ الدِّرَّةُ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى أُبَيٍّ، فَخَرَجَ أُبَيٌّ عَلَيْهِمَا وَقَدْ تَوَضَّأَ، فَقَالَ: إِنَّهُ أَصَابَنِي مَذْيٌ، فَغَسَلْتُ ذَكَرِي أَوْ فَرْجِي، مِسْعَرٌ شَكَّ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَيُجْزِئُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَصَدَّقَهُ .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہمیں قحط سالی نے کھالیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل اس کے نسب نامے کو کریدتے رہے یہاں تک کہ اسے شناخت کرلیا اور پتہ یہ چلا کہ وہ تو مالی طور پر وسعت رکھتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر کسی شخص کے پاس (مال و دولت کی ایک دو وادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری کی تلاش میں ہوگا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ اضافہ کردیا کہ ابن آدم کا پیٹ تو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے پھر اللہ اس پر متوجہ ہوجاتا ہے جو توبہ کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کس سے سنا؟ انہوں نے بتایا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کل میرے پاس آنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنی والدہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ تمہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بولنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں حضرت ابی رضی اللہ عنہ اسے بھول ہی نہ گئے ہوں لیکن ان کی والدہ نے انہیں تسلی دی کہ امید ہے کہ وہ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے۔ چنانچہ اگلے دن جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ان کے پاس کوڑا پڑا ہوا تھا ہم دونوں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑے حضرت ابی رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے تو انہوں نے تازہ وضو کیا ہوا تھا وہ کہنے لگے کہ مجھے " مذی " لاحق ہوگئی تھی اس لئے میں نے فقط شرمگاہ کو دھولیا (اور وضو کرلیا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ جائز ہے؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا آپ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی بھی تصدیق کی۔

حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل مصعب بن شيبة ، وأبو حبيب بن يعلي مجهول، لكنهما قد توبعا


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.