الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
حدیث نمبر: 2113
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا سفيان بن حسين ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن ابن عباس ، قال: راى رجل رؤيا، فجاء للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني رايت كان ظلة تنطف عسلا وسمنا، فكان الناس ياخذون منها، فبين مستكثر , وبين مستقل , وبين ذلك، وكان سببا متصلا إلى السماء، وقال يزيد مرة: وكان سببا دلي من السماء , فجئت، فاخذت به، فعلوت فاعلاك الله، ثم جاء رجل من بعدك، فاخذ به فعلا، فاعلاه الله، ثم جاء رجل من بعدكما، فاخذ به فعلا، فاعلاه الله، ثم جاء رجل من بعدكم، فاخذ به فقطع به، ثم وصل له فعلا، فاعلاه الله , قال ابو بكر: ائذن لي يا رسول الله، فاعبرها , فاذن له، فقال: اما الظلة: فالإسلام، واما العسل والسمن: فحلاوة القرآن , فبين مستكثر، وبين مستقل، وبين ذلك، واما السبب: فما انت عليه، تعلو فيعليك الله، ثم يكون من بعدك رجل على منهاجك، فيعلو ويعليه الله، ثم يكون من بعدكما رجل، فياخذ باخذكما، فيعلو فيعليه الله، ثم يكون من بعدكم رجل يقطع به، ثم يوصل له، فيعلو فيعليه الله، قال: اصبت يا رسول الله؟ قال:" اصبت , واخطات" , قال: اقسمت يا رسول الله لتخبرني , فقال:" لا تقسم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: رَأَى رَجُلٌ رُؤْيَا، فَجَاءَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَال: إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ ظُلَّةً تَنْطِفُ عَسَلًا وَسَمْنًا، فَكاَنَّ النَّاسَ يَأْخُذُونَ مِنْهَا، فَبَيْنَ مُسْتَكْثِرٍ , وَبَيْنَ مُسْتَقِلٍّ , وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَكَأَنَّ سَبَبًا مُتَّصِلًا إِلَى السَّمَاءِ، وقَالَ يَزِيدُ مَرَّةً: وَكَأَنَّ سَبَبًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَاءِ , فَجِئْتَ، فَأَخَذْتَ بِهِ، فَعَلَوْتَ فأَعَلَّاكَ اللَّهُ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ، فَأَخَذَ بِهِ فَعَلَا، فأَعَلَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكُمَا، فَأَخَذَ بِهِ فَعَلَا، فَأَعْلَاهُ اللَّهُ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكُم، فَأَخَذَ بِهِ فَقُطِعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا، فَأَعْلَاهُ اللَّهُ , قَالَ أَبُو بَكْرٍ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّه، فَأَعْبُرُهَا , فَأَذِنَ لَهُ، فَقَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ: فَالْإِسْلَامُ، وَأَمَّا الْعَسَلُ وَالسَّمْنُ: فَحَلَاوَةُ الْقُرْآنِ , فَبَيْنَ مُسْتَكْثِرٍ، وَبَيْنَ مُسْتَقِلٍّ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَأَمَّا السَّبَبُ: فَمَا أَنْتَ عَلَيْهِ، تَعْلُو فَيُعْلِيكَ اللَّهُ، ثُمَّ يَكُونُ مِنْ بَعْدِكَ رَجُلٌ عَلَى مِنْهَاجِكَ، فَيَعْلُو وَيُعْلِيهِ اللَّهُ، ثُمَّ يَكُونُ مِنْ بَعْدِكُمَا رَجُلٌ، فيَأْخُذُ بِأَخْذِكُمَا، فَيَعْلُو فَيُعْلِيهِ اللَّهُ، ثُمَّ يَكُونُ مِنْ بَعْدِكُمْ رَجُلٌ يُقْطَعُ بِهِ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ، فَيَعْلُو فَيُعْلِيهِ اللَّهُ، قَالَ: أَصَبْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَصَبْتَ , وَأَخْطَأْتَ" , قَالَ: أَقْسَمْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُخْبِرَنِّي , فَقَالَ:" لَا تُقْسِمْ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے خواب دیکھا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے خواب میں ایک سائبان دیکھا جس سے شہد اور گھی ٹپک رہے ہیں اور لوگ آکر ان چیزوں کو اٹھا رہے ہیں، کوئی کم، کوئی زیادہ اور کوئی درمیانہ، پھر مجھے محسوس ہوا کہ ایک رسی ہے جو آسمان تک چلی گئی ہے، آپ تشریف لائے اور اسے پکڑ کر اوپر چڑھ گئے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو بلندیوں پر پہنچا دیا، پھر ایک دوسرا آدمی آیا، اس نے بھی وہ رسی پکڑی اور اوپر چڑھ گیا یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے اسے بھی بلندی پر پہنچا دیا، پھر آپ دونوں کے بعد ایک اور آدمی آیا، اس نے بھی وہ رسی تھام کر اوپر چڑھنا شروع کیا اور اللہ نے اسے بھی اوپر تک پہنچا دیا، اس کے بعد جو آدمی آیا اور اس نے رسی پکڑ کر اوپر چڑھنا شروع کیا تو وہ رسی کٹ گئی، تھوڑی دیر بعد وہ رسی جڑ گئی اور اس آدمی نے بھی اس کے ذریعے اوپر چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ اللہ نے اسے بھی اوپر پہنچا دیا۔ یہ خواب سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ اجازت دیں تو اس خواب کی تعبیر میں بیان کروں؟ اور اجازت ملنے پر کہنے لگے کہ سائبان سے مراد تو اسلام ہے، شہد اور گھی سے مراد قرآن کی حلاوت ہے جو کسی کو کم، کسی کو زیادہ اور کسی کو درمیانی حاصل ہوتی ہے، باقی رہی رسی تو اس سے مراد وہ راستہ ہے جس پر آپ ہیں، جس کی بنا پر اللہ آپ کو اونچائی تک پہنچاتا ہے، آپ کے بعد ایک شخص آتا ہے وہ بھی آپ کے طریقے اور راستے پر چلتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے بھی اوپر پہنچا دیتا ہے، تیسرے آدمی کا بھی یہی حال ہوتا ہے اور چوتھا آدمی آتا ہے تو اس کا راستہ منقطع ہو جاتا ہے، بعد میں جوڑ دیا جاتا ہے اور اللہ اسے بھی اوپر پہنچا دیتا ہے، یا رسول اللہ! کیا میں نے صحیح تعبیر بیان کی؟ فرمایا: کچھ صحیح بیان کی اور کچھ میں غلطی ہوئی، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ مجھے ضرور مطلع فرمائیے (کہ میں نے کیا غلطی کی؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم نہ دو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 7046، م: 2269. سفيان بن حسين ضعيف وفي روايته عن الزهري، قد توبع.


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.