الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ولاء اور ہبہ کے احکام و مسائل
Chapters On Wala' And Gifts
5. باب مَا جَاءَ فِي الْقَافَةِ
5. باب: نسب میں قیافہ شناسی کے حکم کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2129
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها مسرورا تبرق اسارير وجهه، فقال: " الم تري ان مجززا نظر آنفا إلى زيد بن حارثة، واسامة بن زيد، فقال: هذه الاقدام بعضها من بعض "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى ابن عيينة هذا الحديث، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، وزاد فيه: " الم تري ان مجززا مر على زيد بن حارثة، واسامة بن زيد قد غطيا رءوسهما وبدت اقدامهما، فقال: إن هذه الاقدام بعضها من بعض "، وهكذا حدثنا سعيد بن عبد الرحمن، وغير واحد، عن سفيان بن عيينة هذا الحديث، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، وهذا حديث حسن صحيح، وقد احتج بعض اهل العلم بهذا الحديث في إقامة امر القافة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، فَقَالَ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ آنِفًا إِلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَقَالَ: هَذِهِ الْأَقْدَامُ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَزَادَ فِيهِ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا مَرَّ عَلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ "، وَهَكَذَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ فِي إِقَامَةِ أَمْرِ الْقَافَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوشی خوشی ان کے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے دیکھا نہیں، ابھی ابھی مجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ قدم (یعنی ان کا رشتہ) ایک دوسرے سے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابن عیینہ نے یہ حدیث «عن الزهري عن عروة عن عائشة» کی سند سے روایت کی ہے۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ مجزز، زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی الله عنہ کے پاس سے گزرا، اس وقت وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا: ان قدموں (کا رشتہ) ایک دوسرے سے ہیں،
۳- اسی طرح ہم سے سعید بن عبدالرحمٰن اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن سفيان بن عيينة هذا الحديث عن الزهري عن عروة عن عائشة» کی سند سے بیان کی ہے، یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۴- بعض اہل علم نے اس حدیث سے قیافہ کے معتبر ہونے پر استدلال کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3555)، وفضائل الصحابة 17 (3731)، والفرائض 31 (6770)، صحیح مسلم/الرضاع 11 (1459)، سنن ابی داود/ الطلاق 31 (2267، 2268)، سنن النسائی/الطلاق 51 (3523، 3524)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 21 (2349) (تحفة الأشراف: 16581)، مسند احمد (6/22682) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اہل جاہلیت زید اور ان کے بیٹے اسامہ کے نسب میں طعنہ زنی کرتے تھے کیونکہ زید گورے تھے جب کہ اسامہ کالے اور سیاہ رنگ کے تھے، جب مجزز جیسے قیافہ شناس نے دونوں کے پیر دیکھ کر کہہ دیا کہ ان کا آپس میں نسب ثابت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے، کیونکہ طعنہ زنی کرنے والوں کی جن کے نزدیک قیافہ شناسی معتبر تھی اس قیافہ شناس کی بات سے تکذیب ہو گئی، اور ان دونوں کے نسب کی تصدیق ہو گئی، یہ صرف مشرکین کے عرف سے اس طعنہ کی تردید کی وجہ سے تھا، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ وحی اس حقیقت سے واقف تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2349)

   صحيح البخاري3555عائشة بنت عبد اللهبعض هذه الأقدام من بعض
   صحيح البخاري3731عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض
   صحيح البخاري6771عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض
   صحيح البخاري6770عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض
   صحيح مسلم3619عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض فسر بذلك النبي وأعجبه وأخبر به عائشة
   صحيح مسلم3618عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض
   صحيح مسلم3617عائشة بنت عبد اللهبعض هذه الأقدام لمن بعض
   جامع الترمذي2129عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض
   سنن أبي داود2267عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض
   سنن النسائى الصغرى3523عائشة بنت عبد اللهبعض هذه الأقدام لمن بعض
   سنن النسائى الصغرى3524عائشة بنت عبد اللههذه أقدام بعضها من بعض
   سنن ابن ماجه2349عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض
   بلوغ المرام1219عائشة بنت عبد اللههذه الأقدام بعضها من بعض
   مسندالحميدي241عائشة بنت عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3731  
´زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے فضائل`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" دَخَلَ عَلَيَّ قَائِفٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاهِدٌ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ مُضْطَجِعَانِ"، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ، قَالَ: فَسُرَّ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَعْجَبَهُ فَأَخْبَرَ بِهِ عَائِشَةَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک قیافہ شناس میرے یہاں آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وہیں تشریف رکھتے تھے اور اسامہ بن زید اور زید بن حارثہ (ایک چادر میں) لیٹے ہوئے تھے۔ (منہ اور جسم کا سارا حصہ قدموں کے سوا چھپا ہوا تھا) اس قیافہ شناس نے کہا کہ یہ پاؤں بعض، بعض سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ (یعنی باپ بیٹے کے ہیں) قیافہ شناس نے پھر بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اس اندازہ پر بہت خوش ہوئے اور پھر آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہ واقعہ بیان فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة: 3731]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ مَنَاقِبُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:»
ترجمۃ الباب اور حدیث میں ظاہری مناسبت معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ حدیث میں بظاہر کوئی بھی ایسے الفاظ نہیں ہیں، جو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر دلالت کرتے ہوں۔۔۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو حدیث میں قیافہ شناس جو بات اسامہ بن زید اور ان کے والد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے لیے کہی کہ یہ پاؤں بعض بعض سے نکلے ہوئے ہیں، اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی ظاہر ہوئی، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر خوش ہونا یہ ان کی فضیلت پر دلیل ہے۔
صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں جو اسی حدیث کا دوسرا طرق ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خوش ہونا اس میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے، لہٰذا ایسا ہوا کہ یہ قیافہ شناس نے جب پاؤں دیکھے اور کہا کہ یہ ملتے جلتے پاؤں ہیں ان دونوں کے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بہت ہی خوشی خوشی داخل ہوئے، خوشی اور مسرت سے پیشانی مبارک کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ [صحيح البخاري: 3555]
صحیح بخاری کی اس حدیث نے مزید واضح کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےانتہا خوش تھے، جبکہ اس شخص نے (اس کا نام ابن الاعور بن جعدہ بن معاذ بن عتوراۃ بن عمرومولج الکنانی تھا) زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی تعریف کی، دراصل بعض منافقین نے یہ شبہ پیدا کرنے کی کوشش میں لگے تھے کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی اولاد نہیں ہیں، کیونکہ زید رضی اللہ عنہ گورے تھے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سیاہ فام تھے۔
لہٰذا مدلجی نے حق بات کہی، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی بات سے راضی ہونا اور آپ علیہ السلام کا اسامہ بن زید اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کی تعریف سن کر خوش ہونا یہ ان کے مناقب کی دلیل ہے، جسے امام بخاری رحمہ اللہ ترجمہ الباب کے ذریعہ ثابت فرمایا ہے، لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسب قائم ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 46   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2349  
´قیافہ شناسوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش تشریف لائے، آپ فرما رہے تھے: عائشہ! کیا تم نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا، اس نے اسامہ اور زید بن حارثہ کو ایک چادر میں سویا ہوا دیکھا، وہ دونوں اپنے سر چھپائے ہوئے تھے، اور دونوں کے پیر کھلے تھے، تو کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2349]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  قیافہ شناس انہیں کہتے ہیں جو چہرے مہرے اور ظاہری جسمانی کیفیات سے بعض چیزوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں خاص طور پر دوافراد کے درمیان نسبتی تعلق کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں چور کی تلاش میں پاؤں کے نشان سے مدد لے کر مشکوک آدمی کو پہچان لینے والے کھوجی بھی انھی میں شامل ہیں۔

(2)
جاہلیت میں جب کسی بچے کےبارے میں اختلاف ہو جاتا تھا کہ یہ کس مرد کا ہے تو قیافہ شناسوں سے فیصلہ کرایا جاتا تھا۔
اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ اب بھی بعض معاملات میں ان سےمدد لی جا سکتی ہے۔

(3)
اب اس قسم کا معاملہ اس انداز سے صرف اس صورت میں حل کیا جاسکتا ہے جب کسی غیر مسلم یا بدکار عورت سے ایک سے زیادہ مردوں نے تعلق قائم کیا ہو اور اس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہو جائے اس کے بعد وہ سب مسلمان ہو جائیں یا توبہ کرکے پاک دامنی کی زندگی گزارنا شروع کر دیں تو ان کا فیصلہ قیافہ یا قرعہ سے کیا جا سکتا ہے۔
عام حالات میں زانی سے نسب کا تعلق ثابت نہیں ہوتا۔
ارشاد نبوی ہے:
بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ (سنن ابن ماجۃ، حدیث: 2006)
یعنی بچے کی نسبت عورت کے خاوند کی طرف کی جائے گی وہ اس کا قانونی والد ہو گا۔
وراثت وغیرہ کا تعلق اس قانونی والد سے ہوگا ناجائز تعلق والے اس شخص سے نہیں جس سے اصل میں بچہ پیدا ہوا ہے۔

(4)
حضرت زید جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا ان کا رنگ گورا تھا ان کے بیٹے اسامہ کا رنگ سانولا تھا اس پر بعض منافقوں نے نامناسب باتیں کیں۔
جب قیافہ شناس نے کہا کہ ان دوافراد کا آپس میں نسبتی تعلق ہے یعنی وہ باپ بیٹا ہیں تو منافقین کا پروپیگنڈا دم توڑ گیا اس لیے رسول اللہ ﷺ کو بہت خوشی ہوئی۔

(5۔
مجزز مدلجی نے اپنے فن میں مہارت کا اظہار کرنے کے لیے یہ بات کہی تھی کہ اگرچہ یہ دونوں شخص بظاہر مختلف رنگ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے اجنبی محسوس ہوتے ہیں لیکن میں اپنے تجربے کی روشنی میں کہتا ہوں کہ یہ باپ بیٹا ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کو اس سے خوشی ہوئی کہ اب تو ایسی گواہی مل گئی ہے جس کو یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں اس طرح صحابی سے وہ طعن دور ہو گیا جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو پریشان کرتےتھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2349   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1219  
´دعویٰ اور دلائل کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش و خرم میرے ہاں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور چمک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ مجزز مدلجی نے ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہم) کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ پاؤں ایک دوسرے کا جز ہیں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1219»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الفرائض، باب القائف، حديث:6770، 3555، ومسلم، الرضاع، باب العمل بإلحاق القائف الولد، حديث:1459.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ثبوت نسب کے سلسلے میں قیافہ شناسی سے کام لیا جا سکتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور عدالت اسے تسلیم کرسکتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1219   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2129  
´نسب میں قیافہ شناسی کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوشی خوشی ان کے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے دیکھا نہیں، ابھی ابھی مجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ قدم (یعنی ان کا رشتہ) ایک دوسرے سے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2129]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اہل جاہلیت زید اور ان کے بیٹے اسامہ کے نسب میں طعنہ زنی کرتے تھے کیوں کہ زید گورے تھے جب کہ اسامہ کالے اور سیاہ رنگ کے تھے،
جب مجزز جیسے قیافہ شناس نے دونوں کے پیر دیکھ کر کہہ دیا کہ ان کا آپس میں نسب ثابت ہے تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے،
کیوں کہ طعنہ زنی کرنے والوں کی جن کے نزدیک قیافہ شناسی معتبر تھی اس قیافہ شناس کی بات سے تکذیب ہوگئی،
اور ان دونوں کے نسب کی تصدیق ہوگئی،
یہ صرف مشرکین کے عرف سے اس طعنہ کی تردید کی وجہ سے تھا،
ورنہ آپ ﷺ بذریعہ وحی اس حقیقت سے واقف تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2129   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2267  
´قیافہ جاننے والوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس (مسدد اور ابن سرح کی روایت میں ہے) ایک دن خوش و خرم تشریف لائے (اور عثمان کی روایت میں ہے آپ کے چہرے پر خوشی کی لکیریں ۱؎ محسوس کی جا رہی تھیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! کیا تو نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو اس حال میں دیکھا کہ وہ دونوں اپنے سر چادر سے ڈھانکے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوئے تھے تو کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسامہ کالے تھے اور زید گورے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2267]
فوائد ومسائل:
انسان کے اعضاء اور شکل و مشابہت دیکھ کر اس کے نسب وعادات کا اندازہ لگانا قیافہ کہلاتا ہے۔
(ابجد العلوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2267   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.