الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
The Book of Representation
6. بَابُ الْوَكَالَةِ فِي قَضَاءِ الدُّيُونِ:
6. باب: قرض ادا کرنے کے لیے کسی کو وکیل کرنا۔
(6) Chapter. To depute a person to repay debts.
حدیث نمبر: 2306
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة رضي الله عنه،" ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم يتقاضاه، فاغلظ فهم به اصحابه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دعوه فإن لصاحب الحق مقالا، ثم قال: اعطوه سنا مثل سنه، قالوا: يا رسول الله، لا نجد إلا امثل من سنه، فقال: اعطوه، فإن من خيركم احسنكم قضاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَاضَاهُ، فَأَغْلَظَ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا، ثُمَّ قَالَ: أَعْطُوهُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا نَجِدُ إِلَّا أَمْثَلَ مِنْ سِنِّهِ، فَقَالَ: أَعْطُوهُ، فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اپنے قرض کا) تقاضا کرنے آیا، اور سخت گفتگو کرنے لگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ (بات) کہنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔ (لیکن اس عمر کا نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو۔ کیونکہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کر دے۔

Narrated Abu Huraira: A man came to the Prophet demanding his debts and behaved rudely. The companions of the Prophet intended to harm him, but Allah's Apostle said (to them), "Leave him, for the creditor (i.e. owner of a right) has the right to speak." Allah's Apostle then said, "Give him a camel of the same age as that of his." The people said, "O Allah's Apostle! There is only a camel that is older than his." Allah's Apostle said, "Give (it to) him, for the best amongst you is he who pays the rights of others handsomely."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 502


   صحيح البخاري2606عبد الرحمن بن صخرلصاحب الحق مقالا وقال اشتروا له سنا فأعطوها إياه فقالوا إنا لا نجد سنا إلا سنا هي أفضل من سنه قال فاشتروها فأعطوها إياه من خيركم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2609عبد الرحمن بن صخرأفضلكم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2390عبد الرحمن بن صخرخيركم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2393عبد الرحمن بن صخرخياركم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2392عبد الرحمن بن صخرخيار الناس أحسنهم قضاء
   صحيح البخاري2306عبد الرحمن بن صخرخيركم أحسنكم قضاء
   صحيح البخاري2305عبد الرحمن بن صخرخياركم أحسنكم قضاء
   صحيح مسلم4111عبد الرحمن بن صخرخياركم محاسنكم قضاء
   صحيح مسلم4110عبد الرحمن بن صخرلصاحب الحق مقالا فقال لهم اشتروا له سنا فأعطوه إياه فقالوا إنا لا نجد إلا سنا هو خير من سنه قال فاشتروه فأعطوه إياه من خيركم أو خيركم أحسنكم قضاء
   صحيح مسلم4112عبد الرحمن بن صخرخيركم أحسنكم قضاء
   جامع الترمذي1317عبد الرحمن بن صخرلصاحب الحق مقالا ثم قال اشتروا له بعيرا فأعطوه إياه فطلبوه فلم يجدوا إلا سنا أفضل من سنه فقال اشتروه فأعطوه إياه خيركم أحسنكم قضاء
   جامع الترمذي1316عبد الرحمن بن صخرخياركم أحاسنكم قضاء
   سنن النسائى الصغرى4697عبد الرحمن بن صخرخياركم أحسنكم قضاء
   سنن النسائى الصغرى4622عبد الرحمن بن صخرخياركم أحسنكم قضاء
   سنن ابن ماجه2423عبد الرحمن بن صخرخيركم أحاسنكم قضاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2306  
2306. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔ پھرآپ نے فرمایا: اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔
اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب ؒ پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔
حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔
نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفهم۔
(وحیدی)
اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2306   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2306  
2306. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔ پھرآپ نے فرمایا: اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
(1)
حق طلب کرنے میں سخت رویہ اختیار کرنا اس وقت روا ہے جب فریق ثانی ٹال مٹول سے کام لے اور واجبات کی ادائیگی میں اچھا رویہ اختیار نہ کرے لیکن جو شخص انصاف پسند اور معاملات کا اچھا ہو اور اگر پاس نہ ہو تو معذرت کرے، ایسے شخص کے ساتھ سخت کلامی درست نہیں۔
(2)
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے قرض خواہ کی سخت کلامی کا مطلقاً کوئی اثر نہیں لیا بلکہ خندہ پیشانی سے قبل از وقت اس کا قرض ادا کردیا۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ اپنانے کی توفیق دے۔
(3)
حافظ ابن حجر ؓ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے اس عنوان کی فقاہت بایں الفاظ بیان کی ہے:
قرض کی ادائیگی بروقت کرنا ضروری ہے اس بنا پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں وکالت صحیح نہیں کیونکہ مؤکل کی طرف سے وکیل اختیارکرنے میں دیر ہوسکتی ہے،اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور یہ ممانعت ٹال مٹول کے قبیل سے نہیں ہے۔
(فتح الباري609/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2306   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.