الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
1171. تتمة مسند عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
حدیث نمبر: 24945
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن يزيد بن خمير ، قال: سمعت عبد الله بن ابي موسى ، قال: ارسلني مدرك او ابن مدرك إلى عائشة اسالها عن اشياء. قال: فاتيتها، فإذا هي تصلي الضحى، فقلت: اقعد حتى تفرغ، فقالوا: هيهات، فقلت: لآذنها كيف استاذن عليها؟ فقال: قل السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، السلام على امهات المؤمنين او ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، السلام عليكم. قال: فدخلت عليها، فسالتها، فقالت: اخو عازب، نعم اهل البيت. فسالتها عن الوصال؟ فقالت: لما كان يوم احد واصل رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه، فشق عليهم، فلما راوا الهلال اخبروا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" لو زاد لزدت". فقيل له: إنك تفعل ذاك او شيئا نحوه؟ قال: " إني لست مثلكم، إني ابيت يطعمني ربي ويسقيني" . وسالتها عن الركعتين بعد العصر؟ فقالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث رجلا على الصدقة، قالت: فجاءته عند الظهر، " فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر، وشغل في قسمته حتى صلى العصر، ثم صلاها"، وقالت:" عليكم بقيام الليل، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يدعه، فإن مرض قرا وهو قاعد" ، وقد عرفت ان احدكم , يقول: بحسبي ان اقيم ما كتب لي، وانى له ذلك. وسالتها عن اليوم الذي يختلف فيه من رمضان؟ فقالت: " لان اصوم يوما من شعبان احب إلي من ان افطر يوما من رمضان" ، قال: فخرجت، فسالت ابن عمر وابا هريرة، فكل واحد منهما، قال: ازواج النبي صلى الله عليه وسلم اعلم بذاك منا. سمعت ابي يقول: يزيد بن خمير، صالح الحديث. قال ابي: عبد الله بن ابي موسى هو خطا، اخطا فيه شعبة، هو عبد الله بن ابي قيس.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَرْسَلَنِي مُدْرِكٌ أَوْ ابْنُ مُدْرِكٍ إِلَى عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ أَشْيَاءَ. قَالَ: فَأَتَيْتُهَا، فَإِذَا هِيَ تُصَلِّي الضُّحَى، فَقُلْتُ: أَقْعُدُ حَتَّى تَفْرُغَ، فَقَالُوا: هَيْهَاتَ، فَقُلْتُ: لِآذِنِهَا كَيْفَ أَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا؟ فَقَالَ: قُلْ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، السَّلَامُ عَلَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ. قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا، فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: أَخُو عَازِبٍ، نِعْمَ أَهْلُ الْبَيْتِ. فَسَأَلْتُهَا عَنِ الْوِصَالِ؟ فَقَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَاصَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْا الْهِلَالَ أَخْبَرُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَوْ زَادَ لَزِدْتُ". فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ تَفْعَلُ ذَاكَ أَوْ شَيْئًا نَحْوَهُ؟ قَالَ: " إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي" . وَسَأَلْتُهَا عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ؟ فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى الصَّدَقَةِ، قَالَتْ: فَجَاءَتْهُ عِنْدَ الظُّهْرِ، " فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، وَشُغِلَ فِي قِسْمَتِهِ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ صَلَّاهَا"، وَقَالَتْ:" عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُهُ، فَإِنْ مَرِضَ قَرَأَ وَهُوَ قَاعِدٌ" ، وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ أَحَدَكُمْ , يَقُولُ: بِحَسْبِي أَنْ أُقِيمَ مَا كُتِبَ لِي، وَأَنَّى لَهُ ذَلِكَ. وَسَأَلْتُهَا عَنِ الْيَوْمِ الَّذِي يُخْتَلَفُ فِيهِ مِنْ رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: " لَأَنْ أَصُومَ يَوْمًا مِنْ شَعْبَانَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُفْطِرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ" ، قَالَ: فَخَرَجْتُ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ وَأَبَا هُرَيْرَةَ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، قَالَ: أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ بِذَاكَ مِنَّا. سَمِعْت أَبِي يَقُولُ: يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ، صَالِحُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبِي: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُوسَى هُوَ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ شُعْبَةُ، هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَيْسٍ.
عبداللہ بن ابی موسیٰ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے مد رک یا ابن مدرک نے کچھ سوالات پوچھنے کے لئے حضرت عائشہ کے پاس بھیجا، میں ان کے پاس پہنچا تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے سوچا کہ ان کے فارغ ہونے تک بیٹھ کر انتظار کرلیتا ہوں لیکن لوگوں نے بتایا کہ انہیں بہت دیر لگے گی، میں نے انہیں اطلاع دینے والے سے پوچھا کہ میں ان سے کس طرح اجازت طلب کروں؟ اس نے کہا کہ یوں کہو: السَلَا مُ عَلَیکَ اَ یُھَا النَبِیُ وَرَحمَتُ اللہِ وَ بَرَ کَاتُہ، السَلَامُ عَلَینا وَ عَلَی عِبَادِ اللہِ الصَالِحِینَ السَلاَ مُ عَلیَ اُمَھِاتِ المُومِنِینَ میں اس طرح سلام کرکے اندر داخل ہوا اور ان سے سوالات پوچھنے لگا، انہوں نے فرمایا عازب کے بھائی ہو، وہ کتنا اچھا گھرانہ ہے۔ پھر میں نے ان سے مسلسل روزے " جن میں افطاری نہ ہو " رکھنے کے متعلق سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے اس طرح روزے رکھے تھے لیکن صحابہ کرام مشقت میں پڑگئے تھے اس لئے چاند دیکھتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ مہینہ مزید آگے چلتا تو میں بھی روزے رکھتا رہتا (اس پر نکیر فرمائی) کسی نے کہا کہ آپ خود بھی تو اس طرح کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری طرح نہیں ہوں، میں تو اس حال میں رات گذارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے۔ پھر میں نے ان سے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا، زکوٰۃ کا وہ مال ظہر کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی اور نماز عصر تک اسے تقسیم کرنے میں مشغول رہے، اس دن عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعتیں پڑھی تھیں، پھر انہوں نے فرمایا کہ تم اپنے اوپر قیام اللیل کو لازم کرلو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی ترک نہیں فرماتے تھے، اگر بیمار ہوتے تو بیٹھ کر پڑھ لیتے، میں جانتی ہوں کہ تم میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں فرض نمازیں پڑھ لوں، یہی کافی ہے لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر میں نے ان سے اس دن کے متعلق پوچھا جس کے رمضان ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہوجائے تو انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک شعبان کا ایک روزہ رکھ لینا رمضان کا ایک روزہ چھوڑنے سے زیادہ محبوب ہے، اس کے بعد میں وہاں سے نکل آیا اور یہی سوالات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھے، تو ان میں سے ہر ایک نے یہی جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہم سے زیادہ یہ باتیں جانتی ہیں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قولها: لأن أصوم من شعبان.....من رمضان وهذا إسناد ضعيف


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.