الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
حدیث نمبر: 2518
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ابو التياح ، عن موسى بن سلمة ، قال: حججت انا وسنان بن سلمة، ومع سنان بدنة، فازحفت عليه، فعي بشانها، فقلت: لئن قدمت مكة لاستبحثن عن هذا، قال: فلما قدمنا مكة، قلت: انطلق بنا إلى ابن عباس، فدخلنا عليه، وعنده جارية، فكان لي حاجتان , ولصاحبي حاجة، فقال: الا اخليك؟ قلت: لا , فقلت: كانت معي بدنة فازحفت علينا، فقلت: لئن قدمت مكة، لاستبحثن عن هذا , فقال ابن عباس : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبدن مع فلان، وامره فيها بامره، فلما قفا رجع، فقال: يا رسول الله، ما اصنع بما ازحف علي منها؟ قال:" انحرها واصبغ نعلها في دمها، واضربه على صفحتها، ولا تاكل منها انت، ولا احد من اهل رفقتك".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: فقلت له: اكون في هذه المغازي، فاغنم فاعتق عن امي، افيجزئ عنها ان اعتق؟ قال: فقلت له: اكون في هذه المغازي، فاغنم فاعتق عن امي، افيجزئ عنها ان اعتق؟ فقال ابن عباس : امرت امراة سنان بن عبد الله الجهني ان يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن امها توفيت ولم تحجج، ايجزئ عنها ان تحج عنها؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو كان على امها دين، فقضته عنها، اكان يجزئ عن امها؟" , قال: نعم , قال:" فلتحجج عن امها". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وساله عن ماء البحر، فقال:" ماء البحر طهور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو التَّيَّاحِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَجَجْتُ أَنَا وَسِنَانُ بْنُ سَلَمَةَ، وَمَعَ سِنَانٍ بَدَنَةٌ، فَأَزْحَفَتْ عَلَيْهِ، فَعَيَّ بِشَأْنِهَا، فَقُلْتُ: لَئِنْ قَدِمْتُ مَكَّةَ لَأَسْتَبْحِثَنَّ عَنْ هَذَا، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ، قُلْتُ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، وَعِنْدَهُ جَارِيَةٌ، فكَانَ لِي حَاجَتَانِ , وَلِصَاحِبِي حَاجَةٌ، فَقَالَ: أَلَا أُخْلِيكَ؟ قُلْتُ: لَا , فَقُلْتُ: كَانَتْ مَعِي بَدَنَةٌ فَأَزْحَفَتْ عَلَيْنَا، فَقُلْتُ: لَئِنْ قَدِمْتُ مَكَّةَ، لَأَسْتَبْحِثَنّ عَنْ هَذَا , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُدْنِ مَعَ فُلَانٍ، وَأَمَرَهُ فِيهَا بِأَمْرِهِ، فَلَمَّا قَفَّا رَجَعَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَصْنَعُ بِمَا أَزْحَفَ عَلَيَّ مِنْهَا؟ قَالَ:" انْحَرْهَا وَاصْبُغْ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا، وَاضْرِبْهُ عَلَى صَفْحَتِهَا، وَلَا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ، وَلَا أَحَدٌ مِنْ أهل رُفْقَتِكَ".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: أَكُونُ فِي هَذِهِ الْمَغَازِي، فَأُغْنَمُ فَأُعْتِقُ عَنْ أُمِّي، أَفَيُجْزِئُ عَنْهَا أَنْ أُعْتِقَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: أَكُونُ فِي هَذِهِ الْمَغَازِي، فَأُغْنَمُ فَأُعْتِقُ عَنْ أُمِّي، أَفَيُجْزِئُ عَنْهَا أَنْ أُعْتِقَ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : أَمَرَتْ امْرَأَةُ سنَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيَّ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أُمِّهَا تُوُفِّيَتْ وَلَمْ تَحْجُجْ، أَيُجْزِئُ عَنْهَا أَنْ تَحُجَّ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّهَا دَيْنٌ، فَقَضَتْهُ عَنْهَا، أَكَانَ يُجْزِئُ عَنْ أُمِّهَا؟" , قَالَ: نَعَمْ , قَالَ:" فَلْتَحْجُجْ عَنْ أُمِّهَا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَسَأَلَهُ عَنْ مَاءِ الْبَحْرِ، فَقَالَ:" مَاءُ الْبَحْرِ طَهُورٌ".
موسی بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور سنان بن سلمہ حج کے لئے روانہ ہوئے، سنان کے پاس ایک اونٹنی تھی، وہ راستے میں تھک گئی اور وہ اس کی وجہ سے عاجز آ گئے، میں نے سوچا کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر اس کے متعلق ضرور دریافت کروں گا، چنانچہ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو میں نے سنان سے کہا کہ آؤ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس چلتے ہیں، ہم وہاں چلے گئے، وہاں پہنچے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک بچی بیٹھی ہوئی تھی، مجھے ان سے دو کام تھے اور میرے ساتھی کو ایک، وہ کہنے لگا کہ میں باہر چلا جاتا ہوں، آپ تنہائی میں اپنی بات کر لیں؟ میں نے کہا ایسی کوئی بات ہی نہیں (جو تخلیہ میں پوچھنا ضروری ہو)۔ پھر میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ میرے پاس ایک اونٹنی تھی جو راستے میں تھک گئی، میں نے دل میں سوچا تھا کہ میں مکہ مکرمہ پہنچ کر اس کے متعلق ضرور دریافت کروں گا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ کچھ اونٹنیاں کہیں بھجوائیں اور جو حکم دینا تھا وہ دے دیا، جب وہ شخص جانے لگا تو پلٹ کر واپس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ان میں سے کوئی اونٹ تھک جائے تو کیا کروں؟ فرمایا: اسے ذبح کر کے اس کے نعل کو اس کے خون میں رنگ دینا اور اسے اس کی پیشانی پر لگا دینا، نہ خود اسے کھانا اور نہ تمہارا کوئی ساتھی اسے کھائے۔ میں نے دوسرا سوال یہ پوچھا کہ میں غزوات میں شرکت کرتا ہوں، مجھے اس میں مال غنیمت کا حصہ ملتا ہے، میں اپنی والدہ کی طرف سے کسی غلام یا باندی کو آزاد کر دیتا ہوں تو کیا میرا ان کی طرف سے کسی کو آزاد کرنا ان کے لئے کفایت کرے گا؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سنان بن عبداللہ جہنی کی اہلیہ نے ان سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھیں کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، وہ حج نہیں کر سکی تھیں، کیا ان کی طرف سے میرا حج کرنا ان کے لئے کفایت کر جائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اگر ان کی والدہ پر کوئی قرض ہوتا اور وہ اسے ادا کر دیتیں تو کیا وہ ادا ہوجاتا یا نہیں؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: پھر اسے اپنی والدہ کی طرف سے حج کر لینا چاہیے۔ انہوں نے سمندر کے پانی کے بارے بھی سوال کیا، تو فرمایا: سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1325


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.