الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
The Book of Manumission (of Slaves)
8. بَابُ أُمِّ الْوَلَدِ:
8. باب: ام ولد کا بیان۔
(8) Chapter. Umm Al-Walad (i.e., a slave woman who begets a child for her master).
حدیث نمبر: Q2533
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابو هريرة: عن النبي صلى الله عليه وسلم، من اشراط الساعة ان تلد الامة ربها.قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّهَا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لونڈی اپنے مالک کو جنے۔

حدیث نمبر: 2533
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني عروة بن الزبير، ان عائشة رضي الله عنها، قالت:" إن عتبة بن ابي وقاص عهد إلى اخيه سعد بن ابي وقاص ان يقبض إليه ابن وليدة زمعة، قال عتبة: إنه ابني، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم زمن الفتح اخذ سعد ابن وليدة زمعة، فاقبل به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، واقبل معه بعبد بن زمعة، فقال سعد: يا رسول الله، هذا ابن اخي، عهد إلي انه ابنه، فقال عبد بن زمعة: يا رسول الله، هذا اخي ابن وليدة زمعة ولد على فراشه، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابن وليدة زمعة، فإذا هو اشبه الناس به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو لك يا عبد بن زمعة من اجل انه ولد على فراش ابيه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: احتجبي منه يا سودة بنت زمعة مما راى من شبهه بعتبة، وكانت سودة زوج النبي صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" إِنَّ عُتْبَةَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنْ يَقْبِضَ إِلَيْهِ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، قَالَ عُتْبَةُ: إِنَّهُ ابْنِي، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْفَتْحِ أَخَذَ سَعْدٌ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَأَقْبَلَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقْبَلَ مَعَهُ بِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا ابْنُ أَخِي، عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَخِي ابْنُ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ابْنِ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَإِذَا هُوَ أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِيهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتَ زَمْعَةَ مِمَّا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، وَكَانَتْ سَوْدَةُ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں۔ اس نے کہا تھا کہ وہ لڑکا میرا ہے۔ پھر جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ) تشریف لائے، تو سعد رضی اللہ عنہ نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبد بن زمعہ بھی ساتھ تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ انہیں کا لڑکا ہے۔ لیکن عبد بن زمعہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! یہ میرا بھائی ہے۔ جو زمعہ (میرے والد) کی باندی کا لڑکا ہے۔ انہیں کے فراش پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھا تو واقعی وہ عتبہ کی صورت پر تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے عبد بن زمعہ! یہ تمہاری پرورش میں رہے گا۔ کیونکہ بچہ تمہارے والد ہی کے فرش پر پیدا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اے سودہ بن زمعہ! اس سے پردہ کیا کر یہ ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے کی تھی کہ بچے میں عتبہ کی شباہت دیکھ لی تھی۔ سودہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں۔

Narrated `Aisha: `Utba bin Abi Waqqas authorized his brother Sa`d bin Abi Waqqas to take the son of the slave-girl of Zam`a into his custody, telling him that the boy was his own (illegal) son. When Allah's Apostle went (to Mecca) at the time of the Conquest, Sa`d took the son of the slave-girl of Zam`a to Allah's Apostle and also brought 'Abu bin Zam`a with him and said, "O Allah's Apostle! This is the son of my brother `Utba who authorized me to take him into my custody." 'Abu bin Zam`a said, "O Allah's Apostle! He is my brother, the son of Zam`a's slave-girl and he was born on his bed." Allah's Apostle looked at the son of the slave-girl of Zam`a and noticed much resemblance (to `Utba). Allah's Apostle said, "It is for you, O 'Abu bin Zam`a as he was born on the bed of your father." Allah's Apostle then told Sauda bint Zam`a to observe veil in the presence of the boy as he noticed the boy's resemblance to `Utba and Sauda was the wife of the Prophet .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 710


   صحيح البخاري2533عائشة بنت عبد اللهإن عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن يقبض إليه ابن وليدة زمعة قال عتبة إنه ابني فلما قدم رسول الله زمن الفتح أخذ سعد ابن وليدة زمعة فأقبل به إلى رسول الله وأقبل معه بعبد بن زمعة فقال سعد يا رسول الله
   صحيح البخاري2218عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة فلم تره سودة قط
   صحيح البخاري2421عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري6749عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري2745عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه
   صحيح البخاري6765عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري6817عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري7182عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه لما رأى من شبهه بعتبة فما رآها حتى لقي الله
   صحيح البخاري2053عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح مسلم3613عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن أبي داود2273عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي عنه يا سودة
   سنن النسائى الصغرى3514عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن النسائى الصغرى3517عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   سنن ابن ماجه2004عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي عنه يا سودة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم360عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش وللعاهر الحجر
   مسندالحميدي240عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش واحتجبي منه يا سودة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 360  
´بچہ صاحب بستر کا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش وللعاهر الحجر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارے سپرد ہے، اولاد اسی کی شمار ہو گی جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لئے پتھر (سنگسار کرنا) ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 360]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6749، من حديث مالك به ورواه مسلم 1457 من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی ہوئی پھر اس کے (نو مہینے) بعد اس عورت کا بچہ یا بچی پیدا ہوئی۔ یہ بچہ یا بچی اس آدمی کے بستر پر پیدا ہوئی ہے لہٰذا اس حدیث کی رو سے ثابت ہوا کہ یہ اسی آدمی کا بچہ یا بچی ہے الا یہ کہ باپ اس کا انکار کر دے یا کوئی شرعی قرینہ پایا جائے۔
● بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں آدمی کا بیٹا ہے، اس کا ثبوت تقلید کرنے سے ہی ملتا ہے۔‏‏‏‏ ان لوگوں کا یہ قول باطل ہے کیونکہ بیٹے یا بیٹی کا ثبوت اس صحیح حدیث (اور دوسری احادیث) سے ملتا ہے۔ جب نکاح ثابت ہو جائے تو اولاد خود بخود ثابت ہو جاتی ہے جو اس نکاح کے بعد باپ کے بستر پر پیدا ہوئی ہے۔ باپ کے بستر سے مراد یہ ہے کہ وہ فلاں عورت کا شوہر ہے۔
➋ احتیاط کرنا اور مشتبہ اشیاء سے بچنا افضل ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ» جس چیز کے بارے میں تمہیں شک و شبہ ہو تو اسے چھوڑ دو اور جس چیز کے بارے میں شک و شبہ نہ ہو (یقین ہو) اسے لے لو۔ [سنن الترمذي: 2518 وسنده صحيح، وقال الترمذي: هٰذا حديث صحيح و صححه ابن خزيمة: 2348 وابن حبان، الموارد:512 والحاكم 13/2 والذهبي]
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں امہات المومنین اور صحابہ کرام ہر وقت پیش پیش اور مستعد رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ بغیر کسی شری قرینے کے تمام نصوص شرعیہ کے ظاہر پر عمل ہو گا۔
➎ زنا کی سزا رجم (سنگسار / پتھر مار مار کر مار دینا) ہے بشرطیکہ زنا کرنے والا شادی شدہ ہو۔ «الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار المتناثره فى الاخبار المتواتره 82 و نظم المتناثر من الحديث المتواتر 181]
● اسی طرح یہ بھی متواتر ہے کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو زنا کی وجہ سے سنگسار کیا گیا تھا۔ دیکھئے: [قطف الازهار 83 ولفظ الآلي المتناثره فى الأحاديث المتواتره 47 ونظم المتناثر 182]
◄ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ شادی شدہ زانی کو سزائے رجم دینا متواتر، قطعی اور یقینی احادیث سے ثابت ہے۔ بعض منکرین حدیث کا سزائے رجم کا انکار کرنا باطل اور مردود ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 54، البخاري: 6633, 6634]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 41   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2004  
´بچے کا حقدار بستر والا (شوہر) ہے اور پتھر کا مستحق زانی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد رضی اللہ عنہما دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا: عبد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2004]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دور جاہلیت میں کسی کی لونڈی سے ناجائز تعلق قائم کرنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اسلام میں صرف اپنی بیوی اور اپنی مملوکہ سے صنفی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔
باقی ہر قسم کا صنفی تعلق قابل سزا جرم ہے۔ (دیکھئے: سورۃ مومنون، آیت: 5، 6، 7)
جس طرح بیوی سے پیدا ہونے والا لڑکا مرد کا بیٹا ہوتا ہے، اسی طرح اپنی مملوکہ لونڈی سے پیدا ہونے والا لڑکا بھی مرد کا آزاد بیٹا ہوتاہے، غلام نہیں۔

(3)
جاہلیت میں ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ اسی شخص کا بیٹا سمجھا جاتا تھا جس کے تعلقات کے نتیجے میں وہ پیدا ہوا۔
جاہلیت کے اسی رواج کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص، زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہونےوالے بچے کو اپنے بھا ئی کا بچہ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی کفالت میں رکھنا چاہتے تھے۔

(4)
حضرت عبد بن زمعہ کا موقف یہ تھا کہ وہ بچہ قانونی طور پر ان کا بھائی ہے کیونکہ ان کے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا حقیقی باپ کوئی بھی ہو۔

(5)
  بچے کی ظاہری شکل و شباہت سے یہی ثابت ہورہا تھا کہ وہ حضرت سعد کے بھائی سے پیدا ہوا ہے لیکن قانونی طور پر وہ حضرت عبد بن زمعہ کا بھائی قرار پایا۔

(6)
چونکہ واضح ہورہاتھا کہ وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اصل میں بھائی نہیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔

(7)
  بعض اوقات ایک مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے دو مختلف حکم مرتب ہوتےہیں۔
ایک معاملے میں ایک پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں دوسرے پہلو کو، جیسے اس لڑکے کو زمعہ کا بیٹا قرار دیے جانے کے باوجود اس کی بہن حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2004   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2273  
´بچہ صاحب فراش کا ہو گا (یعنی جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی بچہ اسی کو ملے گا)۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2273]
فوائد ومسائل:

چونکہ یہ معاملات جاہلیت کے تھے اور وہ لوگ اس انداز کے اعمال میں ملوث تھے تو ان بچوں سے بھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے یہ قائدہ قانون دیا ہے۔
کہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بچے کی شکل سے نمایاں تھا کہ یہ ولد الزنا ہےاور عتبہ کا لڑکا ہے مگر قاعدہ اور اصول کو ترجیح دی گئی اور اسے صاحب فراش کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔
قانونئ اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت سودہ کا بھائی بنا مگر دعوی اور شکل وصورت زانی کے ساتھ ملتی تھی اس لیے اس کا نسب مشتبہ ٹھرا۔
تو نبی ﷺ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کا بھائی ہونا مشکوک تھا۔
اگرچہ قاعدے کی رو سے ان کے خاندان کا فرد بنا دیا گیا تھا۔


(وللعاهرِ الحجرُ) کا ایک ترجمہ زانی کے لیے محرومی ہے اس صورت میں جیم پر زبر کے بجائے سکون یعنی جزم آئے گی۔
مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہوگا کہ اولاد کا مستحق زانی نہیں ہوگا بلکہ اس کے حصے میں سزا آئے گی۔
حد رجم یا سو کوڑے اور بچے سے وہ محروم ہی رہے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2273   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2533  
2533. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا اپنے قبضے میں لے لے، عتبہ نے کہا: بلاشبہ وہ میرا بیٹا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حضرت سعد ؓ نے زمعہ کی لونڈی کا بیٹا پکڑ لیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ ان کے ہمراہ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھتیجا ہے۔ بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کابیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھائی اور زمعہ کا بیٹا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھا تو وہ سب لوگوں میں عتبہ کے زیادہ مشابہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ!یہ تیرا (بھائی) ہے کیونکہ وہ ان کے والد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2533]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ام ولد کا ذکر ہے۔
یہاں یہ حدیث لانے کا یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2533   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2533  
2533. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا اپنے قبضے میں لے لے، عتبہ نے کہا: بلاشبہ وہ میرا بیٹا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حضرت سعد ؓ نے زمعہ کی لونڈی کا بیٹا پکڑ لیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ ان کے ہمراہ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھتیجا ہے۔ بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کابیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھائی اور زمعہ کا بیٹا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھا تو وہ سب لوگوں میں عتبہ کے زیادہ مشابہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ!یہ تیرا (بھائی) ہے کیونکہ وہ ان کے والد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2533]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا کہ مذکورہ لڑکا عبد بن زمعہ کا بھائی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس لڑکے کی ماں، یعنی زمعہ کی لونڈی ام ولد ہے۔
اس واقعے میں ام ولد کی آزادی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اسے زمعہ کا فراش قرار دیا گیا ہے۔
اس اعتبار سے وہ اور زمعہ کی بیوی دونوں برابر ہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ اگر لونڈی بچے کو جنم دے تو وہ صاحب فراش کا نہیں ہو گا جب تک مالک اس کا اقرار نہ کرے۔
یہ موقف اس حدیث کے خلاف ہے۔
چونکہ اس لڑکے کی مشابہت عتبہ سے ملتی جلتی تھی، اس لیے احتیاط کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا بصورت دیگر بھائی سے پردہ کرنا چہ معنی دارد؟
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2533   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.