الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
The Book of Manumission (of Slaves)
11. بَابُ إِذَا أُسِرَ أَخُو الرَّجُلِ أَوْ عَمُّهُ هَلْ يُفَادَى إِذَا كَانَ مُشْرِكًا:
11. باب: اگر کسی مسلمان کا مشرک بھائی یا چچا قید ہو کر آئے تو کیا (ان کو چھڑانے کے لیے) اس کی طرف سے فدیہ دیا جا سکتا ہے؟
(11) Chapter. If the brother or the uncle of somebody was taken as a war prisoner, then can he ransom him if he is a Mushrik?
حدیث نمبر: Q2537
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال انس: قال العباس للنبي صلى الله عليه وسلم: فاديت نفسي، وفاديت عقيلا، وكان علي له نصيب في تلك الغنيمة التي اصاب من اخيه عقيل، وعمه عباس.وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ الْعَبَّاسُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَادَيْتُ نَفْسِي، وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، وَكَانَ عَلِيٌّ لَهُ نَصِيبٌ فِي تِلْكَ الْغَنِيمَةِ الَّتِي أَصَابَ مِنْ أَخِيهِ عَقِيلٍ، وَعَمِّهِ عَبَّاسٍ.
انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے (جنگ بدر کے بعد قید سے آزاد ہونے کے لیے) اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی حالانکہ اس غنیمت میں علی رضی اللہ عنہ کا بھی حصہ تھا جو ان کے بھائی عقیل رضی اللہ عنہ اور چچا عباس رضی اللہ عنہ سے ملی تھی۔

حدیث نمبر: 2537
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عبد الله، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة، عن موسى بن عقبة، عن ابن شهاب، قال: حدثني انس رضي الله عنه،" ان رجالا من الانصار استاذنوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ائذن لنا، فلنترك لابن اختنا عباس فداءه، فقال: لا تدعون منه درهما".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ائْذَنْ لَنَا، فَلْنَتْرُكْ لِابْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَاءَهُ، فَقَالَ: لَا تَدَعُونَ مِنْهُ دِرْهَمًا".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار کے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اجازت چاہی اور آ کر عرض کیا کہ آپ ہمیں اس کی اجازت دے دیجئیے کہ ہم اپنے بھانجے عباس کا فدیہ معاف کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔

Narrated Anas: Some men of the Ansar asked for the permission of Allah's Apostle and said, "Allow us to give up the ransom from our nephew Al-`Abbas. The Prophet said (to them), "Do not leave (even) a Dirham (of his ransom).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 714


   صحيح البخاري2537أنس بن مالكائذن فلنترك لابن أختنا عباس فداءه فقال لا تدعون منه درهما
   صحيح البخاري4018أنس بن مالكائذن لنا فلنترك لابن أختنا عباس فداءه قال والله لا تذرون منه درهما
   صحيح البخاري3048أنس بن مالكائذن فلنترك لابن أختنا عباس فداءه فقال لا تدعون منها درهما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2537  
2537. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی، عرض کرنے لگے: آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنے بھانجے عباس کافدیہ چھوڑ دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2537]
حدیث حاشیہ:
حضرت عباس کے والد عبدالمطلب کی والدہ سلمی انصار میں سے تھیں، بنی نجار کے قبیلے کی۔
اس لیے ان کو اپنا بھانجا کہا۔
سبحان اللہ! انصار کا ادب! یوں نہیں عرض کیا، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے چچا کا فدیہ معاف کردیں۔
کیوں کہ ایسا کہنے سے گویا آنحضرت ﷺ پر احسان رکھنا ہوتا۔
آنحضرت ﷺ خوب جانتے تھے کہ حضرت عباس مالدار ہیں۔
اس لیے فرمایا کہ ایک روپیہ بھی ان کو نہ چھوڑو۔
ایسا عدل و انصاف کہ اپنے سگے چچا تک کو بھی رعایت نہ کی پیغمبری کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔
سمجھدار آدمی کو پیغمبری کے ثبوت کے لیے کسی بڑے معجزے کی ضرورت نہیں۔
آپ کی ایک ایک خصلت ہزار ہزار معجزوں کے برابر تھی۔
انصاف ایسا، عدل ایسا، سخاوت ایسی، شجاعت ایسی، صبر ایسا، استقلال ایسا کہ سارا ملک مخالف ہر کوئی جان کا دشمن، مگر اعلانیہ توحید کا وعظ فرماتے رہے، بتوں کی ہجو کرتے رہے۔
آخر میں عربوں جیسے سخت لوگوں کی کایا پلٹ دی۔
ہزاروں برس کی عادت بت پرستی کی چھڑا کر ان ہی کے ہاتھوں ان بتوں کو تڑوایا۔
پھرآج تیرہ سو برس گزرچکے، آپ کا دین شرقاً و غرباً پھیل رہا ہے۔
کیا کوئی جھوٹا آدمی ایسا کرسکتا ہے یا جھوٹے آدمی کا نام نیک اس طرح پر قائم رہ سکتا ہے۔
(وحیدی)
عینی فرماتے ہیں:
واختلف في علة المنع فقیل إنه کان مشرکا و قیل منعهم خشیة أن یقع في قلوب بعض المسلمین شيئ۔
یعنی آپ ﷺ نے کیوں منع فرمایا اس کی علت میں اختلاف ہے۔
بعض نے کہا اس لیے کہ اس وقت حضرت عباس مشرک تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس لیے منع فرمایا کہ کسی مسلمان کے دل میں کوئی بدگمانی نہ ہو کہ آپ ﷺ نے اپنے چچا کے ساتھ ناروا رعایت کا برتاؤ کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2537   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2537  
2537. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی، عرض کرنے لگے: آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنے بھانجے عباس کافدیہ چھوڑ دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2537]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اس سلسلے میں ذوالارحام اور عصبات، یعنی دور اور قریب کے رشتے داروں میں کوئی فرق نہیں۔
جس طرح دور کا رشتے دار ملکیت میں آ جانے کے بعد آزادی دیے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا اسی طرح قربی رشتے دار بھی صرف ملکیت میں آ جانے سے آزاد نہیں ہو جاتا۔
نبی اکرم ﷺ کا حضرت عباس اور عقیل سے فدیہ لینا اس کی واضح دلیل ہے۔
(2)
کیونکہ حضرت عباس اور عقیل صرف قیدی بنے تھے ملکیت میں نہیں آئے تھے، اس لیے امام بخاری ؒ کا یہ مقصد نہیں کہ ملکیت سے فوراً آزادی حاصل نہیں ہوتی بلکہ مسلمان اور کافر کے بارے میں مطلق باب قائم کرنے اور پھر یہ روایات لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مشرک رشتے دار کا مالک بنے گا تو وہ ازخود آزاد نہیں ہو گا، تاہم اگر مسلمان رشتے دار کا مالک بنے گا تو وہ ازخود آزاد ہو جائے گا۔
(فتح الباري: 208/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2537   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.