الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
خرید و فروخت کے ابواب
72. باب في النَّهْيِ عَنِ الْمُخَابَرَةِ:
72. مخابرہ کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2652
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيينة، عن علي بن مسهر، عن ابي إسحاق الشيباني، عن عبد الله بن السائب، قال: سالت عبد الله بن معقل عن المزارعة، فقال: اخبرني ثابت بن الضحاك الانصاري: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"نهى عن المزارعة". قال لعبد الله: تقول به؟. قال: لا اقول بالاول.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْقِلٍ عَنِ الْمُزَارَعَةِ، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ الْأَنْصَارِيُّ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنِ الْمُزَارَعَةِ". قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ: تَقُولُ بِهِ؟. قَالَ: لَا أَقُولُ بِالْأَوَّلِ.
عبداللہ بن سائب نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مزارعت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: سیدنا ثابت بن ضحاک انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے (یعنی بٹائی پر زمین دینے سے) منع فرمایا۔ راوی نے امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: نہیں، میں پہلے قول کا قائل ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2658]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابواسحاق کا نام سلیمان بن ابی سلیمان ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1549]، [شرح معاني الآثار 107/4]، [البيهقي 133/6]، [ابن حزم فى المحلی 182/8]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2651)
یہ حدیث مزارعت کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے، اور بظاہر ان احادیث کے معارض و مخالف ہے جن میں اس کی اجازت دی گئی ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے، لیکن ابوداؤد میں سیدنا عروة رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ اشکال بھی رفع ہو جاتا ہے۔
چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: الله تعالیٰ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے۔
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس حدیث کا مجھے ان سے زیادہ علم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو انصاری آئے، دونوں جھگڑ رہے تھے، یہ صورتِ حال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری یہ حالت ہے تو پھر کھیتی باڑی ٹھیکے پر نہ دیا کرو۔
سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے حدیث کا پہلا حصہ نہیں سنا اور صرف «لا تكرو المزارع» سن لیا، اس لئے صحیح صورتِ حال ان کو سمجھ نہ آسکی، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع تو نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے کسی ایک کا اپنی زمین کو فائدہ اٹھانے کے لئے دینا اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کے بدلے میں معلوم و معین محصول لے، اور یہ بھی کہا گیا کہ اس حدیث میں جو نہی ہے وہ قبل از اسلام رائج طریقہ کی ہے، نیز یہ بھی کہا گیا کہ یہ نہی تنزیہی پر محمول ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آغازِ اسلام میں مہاجرین ضرورت مند تھے، ان کے پاس زمین نہیں تھی۔
انصار کے پاس زمینیں کافی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح ان کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اسی طرح انصار کو اپنے بے وطن مہاجرین کو بطورِ احسان زمین دلانے کے لئے حکمت کے طور پر مزارعہ سے منع فرمایا تاکہ بغیر کسی محصول کے اپنے بھائیوں کو زمین عطا کر دیں۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.