الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
The Book of Conditions
13. بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْوَلاَءِ:
13. باب: ولاء میں شرط لگانا۔
(13) Chapter. Conditions for Wala.
حدیث نمبر: 2729
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثنا مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: جاءتني بريرة، فقالت: كاتبت اهلي على تسع اواق في كل عام اوقية، فاعينيني، فقالت: إن احبوا ان اعدها لهم ويكون ولاؤك لي، فعلت، فذهبت بريرة إلى اهلها، فقالت لهم، فابوا عليها، فجاءت من عندهم ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، فقالت: إني قد عرضت ذلك عليهم، فابوا إلا ان يكون الولاء لهم، فسمع النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرت عائشة النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: خذيها واشترطي لهم الولاء، فإنما الولاء لمن اعتق، ففعلت عائشة، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" ما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، وإن كان مائة شرط قضاء الله احق وشرط الله اوثق، وإنما الولاء لمن اعتق".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ، فَقَالَتْ: كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ: إِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي، فَعَلْتُ، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَقَالَتْ لَهُمْ، فَأَبَوْا عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكِ عَلَيْهِمْ، فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلَاءَ، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہو گا۔ آپ بھی میری مدد کیجئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دم انہیں اتنی قیمت ادا کر سکتی ہوں۔ لیکن تمہاری ولاء میری ہو گی۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے یہاں گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاء کے لیے انکار کیا۔ جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی، لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کی ہو گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات سنی اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو انہیں خرید لے اور انہیں ولاء کی شرط لگانے دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہو سکتی ہے جو آزاد کرے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہیں ہے ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاء تو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔

Narrated `Urwa: Aisha said, "Buraira came to me and said, 'My people (masters) have written the contract for my emancipation for nine Awaq ) of gold) to be paid in yearly installments, one Uqiyya per year; so help me." Aisha said (to her), "If your masters agree, I will pay them the whole sum provided the Wala will be for me." Buraira went to her masters and told them about it, but they refused the offer and she returned from them while Allah's Apostles was sitting. She said, "I presented the offer to them, but they refused unless the Wala' would be for them." When the Prophet heard that and `Aisha told him about It, he said to her, "Buy Buraira and let them stipulate that her Wala' will be for them, as the Wala' is for the manumitted." `Aisha did so. After that Allah's Apostle got up amidst the people, Glorified and Praised Allah and said, "What is wrong with some people who stipulate things which are not in Allah's Laws? Any condition which is not in Allah's Laws is invalid even if there were a hundred such conditions. Allah's Rules are the most valid and Allah's Conditions are the most solid. The Wala is for the manumitted."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 889


   صحيح البخاري456عائشة بنت عبد اللهما بال أقوام يشترطون شروطا ليست في كتاب الله من اشترط شرطا ليس في كتاب الله فليس له وإن اشترط مائة مرة
   صحيح البخاري2729عائشة بنت عبد اللهما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط قضاء الله أحق وشرط الله أوثق الولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري2563عائشة بنت عبد اللهما بال رجال منكم يشترطون شروطا ليست في كتاب الله فأيما شرط ليس في كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط فقضاء الله أحق وشرط الله أوثق ما بال رجال منكم الولاء لمن أعتق
   جامع الترمذي1154عائشة بنت عبد اللهخيرها رسول الله فاختارت نفسها ولو كان حرا لم يخيرها
   جامع الترمذي1155عائشة بنت عبد اللهزوج بريرة حرا فخيرها رسول الله
   سنن أبي داود2234عائشة بنت عبد اللهخيرها رسول الله وكان زوجها عبدا
   سنن أبي داود2233عائشة بنت عبد اللهخيرها رسول الله فاختارت نفسها ولو كان حرا لم يخيرها
   سنن أبي داود2236عائشة بنت عبد اللهقربك فلا خيار لك
   سنن النسائى الصغرى3482عائشة بنت عبد اللهزوج بريرة عبدا
   سنن ابن ماجه2521عائشة بنت عبد اللهما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله كل شرط ليس في كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط كتاب الله أحق وشرط الله أوثق الولاء لمن أعتق
   سنن ابن ماجه2074عائشة بنت عبد اللهخيرها رسول الله وكان لها زوج حر
   المعجم الصغير للطبراني531عائشة بنت عبد الله ألم أر عندكم لحما ؟ ، فقالوا : إنما هي شيء تصدق به على بريرة ، فقال : هو لبريرة صدقة ، ولنا هدية ، وإن بريرة جاءت إلى عائشة تستعينها فى كتابتها ، فقالت لها عائشة : إن شاء أهلك اشتريتك ، ونقدت ثمنك عنك مرة واحدة ، فذهبت بريرة إلى أهلها ، فقالت لهم ذلك ، فقالوا : ولنا ولاؤك ، فجاءت عائشة ، فقالت : إنهم يقولون : ولاؤك لنا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اشتريها فإنما الولاء لمن أعتق
   المعجم الصغير للطبراني547عائشة بنت عبد الله الولاء لمن أعتق
   مسندالحميدي243عائشة بنت عبد اللهاشتريها وأعتقيها، فإنما الولاء لمن أعتق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2074  
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دے دیا، (کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہیں یا اس سے جدا ہو جائیں) اور ان کے شوہر آزاد تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بات درست نہیں کہ اس کا خاوند آزاد تھا۔
غالباً اس لیے ہمارے فاضل محقق نے اسے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دوسرے محققین حضرات نے اس ٹکڑے کے علاوہ باقی حصے کو صحیح کہا ہے۔
صحیح یہ ہے کہ وہ غلام تھا جیسے کہ اگلی دو حدیثوں (2075، 2076)
میں آرہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2074   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1154  
´عورت جو آزاد کر دی جائے اور وہ شوہر والی ہو۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو اختیار دیا، تو انہوں نے خود کو اختیار کیا، (عروہ کہتے ہیں) اگر بریرہ کے شوہر آزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1154]
اردو حاشہ:
وضاخت: 1 ؎:
نسائی نے سنن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ آخری فقرہ حدیث میں مدرج ہے،
یہ عروہ کا قول ہے،
اور ابو داؤد نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1154   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2233  
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہ اس کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو (آزاد ہونے کے بعد) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے (بریرہ کو) اختیار نہ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2233]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی ؒ کہتے ہیں کہ حدیث میں آخری جملہ: اگر شوہر آزاد ہوتا۔
۔
۔
۔
مدرج ہے جو کہ عروہ کا قول ہے۔
(صحیح سنن أبي داود للألباني، حدیث:2233) تاہم مسئلے کی نوعیت یہی ہے کہ اگر شوہر آزاد ہو تو پھر لونڈی کو اختیار حاصل نہیں ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2233   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2729  
2729. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے پاس حضرت بریرہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی کہ میں نے نو اوقیے چاندی کی ادائیگی کے عوض اپنے مالکان سے عقد کتابت کر لیاہے کہ ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہو گا، لہٰذا آپ میرا تعاون کریں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگرمالکان پسند کریں تو میں یکمشت ان کو تیرا بدل کتابت ادا کردیتی ہوں۔ البتہ تیری ولا میرے لیے ہو گی، اگر انھیں منظور ہو تو میں ایسا کر سکتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ اپنے مالکان کے پاس گئی، ان سے کہا تو انھوں نے اس طرح کرنے سے انکار کردیا۔ جب وہ ان کے پاس سے واپس آئی تو رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فر تھے۔ اس نے کہا: میں نے مالکان پر یہ معاملہ پیش کیا ہے لیکن وہ لوگ ولا کے بغیر معاملہ کرنے سے منکر ہیں۔ نبی ﷺ نے بھی یہ سن لیا اور حضرت عائشہ ؓ نے بھی نبی ﷺ کو اس واقعے کی خبر دی۔ آپ نے فرمایا: تم بریرہ ؓ کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2729]
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ کہ ولاء میں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب اللہ سے نہ ہو۔
ہاں جائز شرطیں جو فریقین طے کرلیں وہ تسلیم ہوں گی۔
اس روایت میں نو اوقیہ کا ذکر ہے۔
دوسری روایت میں پانچ کا جس کی تطبیق یوں دی گئی ہے کہ شاید نواوقیہ پر معاملہ ہو اور پانچ باقی رہ گئے ہوں جن کے لیے بریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کے پاس آنا پڑا ممکن ہے نو کے لئے راوی کا وہم ہو اور پانچ ہی صحیح ہو۔
روایات سے پہلے خیال کو ترجیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ فتح الباری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2729   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2729  
2729. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے پاس حضرت بریرہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی کہ میں نے نو اوقیے چاندی کی ادائیگی کے عوض اپنے مالکان سے عقد کتابت کر لیاہے کہ ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہو گا، لہٰذا آپ میرا تعاون کریں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگرمالکان پسند کریں تو میں یکمشت ان کو تیرا بدل کتابت ادا کردیتی ہوں۔ البتہ تیری ولا میرے لیے ہو گی، اگر انھیں منظور ہو تو میں ایسا کر سکتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ اپنے مالکان کے پاس گئی، ان سے کہا تو انھوں نے اس طرح کرنے سے انکار کردیا۔ جب وہ ان کے پاس سے واپس آئی تو رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فر تھے۔ اس نے کہا: میں نے مالکان پر یہ معاملہ پیش کیا ہے لیکن وہ لوگ ولا کے بغیر معاملہ کرنے سے منکر ہیں۔ نبی ﷺ نے بھی یہ سن لیا اور حضرت عائشہ ؓ نے بھی نبی ﷺ کو اس واقعے کی خبر دی۔ آپ نے فرمایا: تم بریرہ ؓ کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2729]
حدیث حاشیہ:
(1)
ولا ایک حق ہے جو آزاد کرنے والے کو اپنے آزاد کردہ غلام لونڈی پر حاصل ہوتا ہے۔
اگر آزاد کردہ مر جائے تو آزاد کرنے والا بھی اس کا ایک وارث ہوتا ہے۔
عرب لوگ اس حق کو فروخت کر دیتے اور ہبہ میں دے دیتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
(2)
اس حدیث کے مطابق ولا میں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا ثبوت کتاب اللہ میں نہ ہو، جائز شرطیں جو فریقین طے کر لیں وہ تسلیم ہوں گی، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ولا کی شرط لگائی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:
تم ان سے ولا کی شرط کر لو لیکن وضاحت کر دی کہ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے، غلط شرط کا کوئی اعتبار نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2729   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.