الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
The Book of Conditions
17. بَابُ الْمُكَاتَبِ، وَمَا لاَ يَحِلُّ مِنَ الشُّرُوطِ الَّتِي تُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ:
17. باب: مکاتب کا بیان اور جو شرطیں ناجائز اور کتاب اللہ کے مخالف ہیں ان کا بیان۔
(17) Chapter. Al-Mukatab (i.e., the slave who is given the writing of emancipation for a certain sum) and about the invalidity of those conditions which contradict Allah’s Laws.
حدیث نمبر: Q2735
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال جابر بن عبد الله رضي الله عنهما في المكاتب: شروطهم بينهم، وقال ابن عمر، او عمر: كل شرط خالف كتاب الله فهو باطل، وإن اشترط مائة شرط، قال ابو عبد الله: ويقال عن كليهما، عن عمر، وابن عمر.وَقَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي الْمُكَاتَبِ: شُرُوطُهُمْ بَيْنَهُمْ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، أَوْ عُمَرُ: كُلُّ شَرْطٍ خَالَفَ كِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَيُقَالُ عَنْ كِلَيْهِمَا، عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عُمَرَ.
اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مکاتب کے بارے میں کہا کہ ان کی (یعنی مکاتب اور اس کے مالک کی) جو شرطیں ہوں وہ معتبر ہوں گی اور ابن عمر یا عمر رضی اللہ عنہ نے (راوی کو شبہ ہے) کہا کہ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ کے مخالف ہو وہ باطل ہے خواہ ایسی سو شرطیں بھی لگائی جائیں۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ قول مروی ہے۔

حدیث نمبر: 2735
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن يحيى، عن عمرة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: اتتها بريرة تسالها في كتابتها، فقالت: إن شئت اعطيت اهلك ويكون الولاء لي، فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرته ذلك، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ابتاعيها فاعتقيها، فإنما الولاء لمن اعتق، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، فقال:" ما بال اقوام يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، من اشترط شرطا ليس في كتاب الله فليس له وإن اشترط مائة شرط".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: أَتَتْهَا بَرِيرَةُ تَسْأَلُهَا فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتُ أَهْلَكِ وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَّرْتُهُ ذَلِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْتَاعِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا۔ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ یحییٰ بن سعید انصاری سے ‘ ان سے عمرہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مکاتبت کے سلسلے میں ان سے مدد مانگنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہارے مالکوں کو (پوری قیمت) دے دوں اور تمہاری ولاء میرے ہو گی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں تو خرید لے اور آزاد کر دے۔ ولاء تو بہرحال اسی کی ہو گی جو آزاد کر دے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ (دلیل، سند) کتاب اللہ میں نہیں ہے ‘ جس نے بھی کوئی ایسی شرط لگائی جس کا پتہ (دلیل، سند) کتاب اللہ میں نہ ہو تو خواہ ایسی سو شرطیں لگا لے ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھائے گا۔

Narrated `Amra: Aisha said that Buraira came to seek her help in the writing of her emancipation. `Aisha said to her, "If you wish, I will pay your masters (your price) and the wala' will be for me." When Allah's Apostle came, she told him about it. The Prophet said to her, "Buy her (i.e. Buraira) and manumit her, for the Wala is for the one who manumits." Then Allah's Apostle ascended the pulpit and said, "What about those people who stipulate conditions which are not in Allah's Laws? Whoever stipulates such conditions as are not in Allah's Laws, then those conditions are invalid even if he stipulated a hundred such conditions."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 893



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2735  
2735. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ان کے پاس حضرت بریرہ ؓ آئیں اور ان سے بدل کتابت کے متعلق تعاون کا سوال کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکان کو بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں۔ لیکن ولا میرے لیے ہو گی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے خرید کر آزاد کردو۔ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ جو ایسی شرطیں عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں؟ آگاہ رہو! جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی بنیاد کتاب اللہ میں نہیں، وہ (شرط) قابل اعتبار ہی نہیں اگرچہ ایسی سو شرطیں لگائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2735]
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓکے آقا آزادی کے بعد ان کی ولاءکو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے اور اسی شرط پر وہ بریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کی پیشکش کے مطابق آزاد کرنا چاہتے تھے۔
ان کی یہ شرط باطل تھی کیونکہ ایسے لونڈی غلاموں کی ولاءان کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو اپنا روپیہ خرچ کرکے ان کے آزاد کرانے والے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص کوئی غلط شرط لگائے تو لگاتارہے شرعاً وہ شرط باطل ہوگی اور قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2735   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2735  
2735. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ان کے پاس حضرت بریرہ ؓ آئیں اور ان سے بدل کتابت کے متعلق تعاون کا سوال کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکان کو بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں۔ لیکن ولا میرے لیے ہو گی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے خرید کر آزاد کردو۔ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ جو ایسی شرطیں عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں؟ آگاہ رہو! جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی بنیاد کتاب اللہ میں نہیں، وہ (شرط) قابل اعتبار ہی نہیں اگرچہ ایسی سو شرطیں لگائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2735]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے ایک عنوان قائم کیا تھا:
(ما يجوز من شروط المكاتب، ومن اشترط شرطا ليس في كتاب الله)
مکاتب کے لیے کون کون سی شرائط جائز ہیں اور جو شخص ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے (صحیح البخاري،المکاتب،باب: 2)
اس مقام پر آپ اس کی تفسیر اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ شرائط جو کتاب اللہ کے مخالف ہوں ناقابل اعتبار ہیں۔
اور کتاب اللہ سے مراد اس کا حکم ہے جو کبھی نص سے ثابت ہوتا ہے اور کبھی اس سے استنباط کیا جاتا ہے۔
جو حکم اس طرح کا نہ ہو وہ کتاب اللہ کے مخالف ہے، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے آقا آزادی کے بعد اس کی ولا اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اور اس شرط کے ساتھ وہ حضرت عائشہ ؓ کی پیشکش کے مطابق اسے آزاد کرنا چاہتے تھے۔
چونکہ یہ شرط کتاب اللہ کے مخالف تھی اس بنا پر اسے باطل قرار دیا گیا۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص غلط شرط لگاتا ہے تو وہ شرعاً باطل ہے۔
قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2735   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.