الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
39. بَابُ : طَاعَةِ الإِمَامِ
39. باب: امام کی اطاعت و فرماں برداری کا بیان۔
حدیث نمبر: 2859
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اطاعني فقد اطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن اطاع الإمام فقد اطاعني، ومن عصى الإمام فقد عصاني".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ الْإِمَامَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى الْإِمَامَ فَقَدْ عَصَانِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری بات مانی اس نے اللہ کی بات مانی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، (اسی طرح) جس نے امام کی بات مانی اس نے میری بات مانی، اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (3) (تحفة الأشراف: 12477) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امام کی اطاعت فرض ہے اور اس کی نافرمانی رسول کی نافرمانی ہے مگر یہ جب تک ہے کہ امام کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، اگر مسئلہ اختلافی ہو اور امام ایک قول پر چلنے کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرنی چاہئے، لیکن جو بات صریح اور بالاتفاق شریعت کے خلاف ہو اس میں اطاعت نہ کرنی چاہئے، دوسری حدیث میں ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري2957عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن قال بغيره فإن عليه منه
   صحيح البخاري7137عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع أميري فقد أطاعني ومن عصى أميري فقد عصاني
   صحيح مسلم4747عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن يعصني فقد عصى الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني
   صحيح مسلم4749عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع أميري فقد أطاعني ومن عصى أميري فقد عصاني
   سنن النسائى الصغرى4198عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع أميري فقد أطاعني ومن عصى أميري فقد عصاني
   سنن ابن ماجه2859عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع الإمام فقد أطاعني ومن عصى الإمام فقد عصاني
   سنن ابن ماجه3عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله
   صحيفة همام بن منبه22عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن يعصني فقد عصى الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2859  
´امام کی اطاعت و فرماں برداری کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری بات مانی اس نے اللہ کی بات مانی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، (اسی طرح) جس نے امام کی بات مانی اس نے میری بات مانی، اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2859]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت فرض ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اصل میں اللہ کی اطاعت ہے۔
رسول اللہ ﷺ اپنی مرضی سے حکم نہیں دیتے بلکہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے احکام کو نافذ کرتے ہیں یا اللہ کی اجازت سے انتقامی احکام جاری کرتے ہیں۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی حرام ہے کیونکہ یہ اصل میں اللہ کی نافرمانی ہے۔

(3)
امام سے مراد مسلمانوں کا مرکزی حکمران یعنی خلیفہ اور امیرالمومنین بھی ہوسکتا ہے اور خلیفہ کا مقرر کردہ کوئی گورنر جج امیر لشکر وغیرہ بھی۔
رسول اللہ ﷺ مرکزی حکمران کی حیثیت سے ان عہدوں پر اہلیت رکھنے والے افراد کو فائز فرماتے تھے۔

(4)
مسلمان حکمرانوں کے جو احکام صراحتاً شرعی احکام کے منافی ہوں انھیں تسلیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ خلیفہ یا اس کے مقرر کردہ افسر کو شرعی حکم کی طرف توجہ دلانی چاہیے تاکہ وہ اپنےحکم میں تبدیلی کرلے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2859   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3  
´اتباع سنت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 3]
اردو حاشہ:
(1)
یہ مسئلہ قرآن مجید میں بھی ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
﴿مَّن يُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾  (النساء: 80)
جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے (اصل میں) اللہ کی اطاعت کی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کے احکام اپنی رائے اور پسند کے مطابق نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے مطابق بیان فرماتے تھے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ،  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ (النجم: 4,3)
 وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے، بلکہ وہ تو وحی ہے جو (ان پر) نازل کی جاتی ہے۔
  یہی وجہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان احکام پر اسی طرح عمل کرتے تھے۔
جس طرح دوسرے مومنین، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو عام مومنوں سے کہیں زیادہ تقویٰ اور عمل صالح کا اسوہ حسنہ پیش فرماتے تھے۔

(2)
قرآن مجید، فرامین نبوی اور صحابہ و تابعین کرام کے اقوال، سنت نبوی کی پیروی اور اتباع کو لازم ٹھہراتے ہیں۔
اس سلسلے میں چند فرامین درج ذیل ہیں:

(ا)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لوگو! اصحاب الرائے سے بچو، کیونکہ وہ سنت کے دشمن ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو حفظ کرنے سے عاجز آ گئے تو انہوں نے اپنی رائے سے مسائل بیان کرنے شروع کر دیے۔
اس طرح خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
دیکھئے: (مفتاح الجنة في الإحتجاج بالسنة، ص: 47)

(ب)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کو عصر کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:
مت پڑھا کرو۔
وہ کہنے لگے:
میں تو پڑھوں گا۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نماز سے منع کیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ تمہیں ان دو رکعتوں پر ثواب کی بجائے سزا ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ﴾ (الأحزاب: 36)
کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ (سنن الدارمي، المقدمة، باب ما يتقي من تفسير حديث النبي صلي الله عليه وسلم وقول غيره عند قوله صلي الله عليه وسلم، حديث: 438)

(ج)
حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب تو کسی شخص کو سنت نبوی کی تعلیم دے اور وہ کہے:
سنت نبوی کو چھوڑیے قرآن سے تعلیم دیں۔
تو جان لو ایسا شخص گمراہ ہے۔ دیکھیے: (مفتاح الجنة، ص: 35)

(د)
امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو فرمان نبوی سنایا تو وہ کہنے لگا:
فلاں فلاں شخص تو ایسے ایسے کہتے ہیں۔
امام صاحب کہتے ہیں:
میں تجھے فرمان نبوی سناتا ہوں اور تو مجھے لوگوں کی آراء سناتا ہے؟ جا! آج کے بعد میں تیرے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ دیکھیے: (إيقاظ الهمة لإتباع نبي الأمة، ص: 123)
اسلاف کے اس طرز عمل سے ثابت ہوا کہ ائمہ کی تقلید اور لوگوں کی آراء کی پیروی قطعاً درست اور جائز نہیں۔

(3)
علامہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَالتَّقْلِيْدُ قَبُولُ قَوْلِ الْغَيْرِ بِلَا دَلِيْلٍ فَكَأَنَّه لِقَبُولِهِ جَعَلَهُ قلَادَةً فِي عُنُقِهِ) (شرح قصيدة أمالي، ص: 34)
کسی دوسرے کی بات بغیر دلیل کے قبول کرنا تقلید ہے۔
گویا کہ مقلد شخص نے امام کے قول کو قبول کر کے گلے کا ہار بنا لیا ہے۔

(4)
تقلید کی ابتدا خیرالقروں کے بعد چوتھی صدی ہجری میں ہوئی۔
اس سے پہلے یہ بدعت موجود نہ تھی بلکہ صحابہ کرام، تابعین کرام اور ان کے شاگرد قرآن و سنت کی پیروی ہی کو واجب سمجھتے تھے۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(إِعْلَمْ اَنَّ النَّاسّ كَانُوا قَبْلَ الْمِائَةِ الرَّابِعَةِ غَيْرُ مُجْمَعِيْنَ عَلَي التَّقْلِيدِ الْخَالِصِ لِمَذْهَبٍ وَّاحِدٍ)
 جان لو کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی ایک خالص مذہب کی تقلید پر متفق نہ تھے. (حجة الله البالغة، ص: 157)

(5)
تقلید کے رد میں صحابہ کرام اور ائمہ مذاہب کے فرامین ملاحظہ ہوں:

(ا)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی روح قبض کی نہ ان سے وحی منقطع کی حتیٰ کہ ان کی امت کو لوگوں کی آراء سے بے پروا فرما دیا۔ دیکھیے (حقیقة الفقة، ص: 75)

(ب)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں آتا کہ وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے یا تمہیں زمین میں دھنسا دے، تم کہتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا تھا اور فلاں شخص نے یوں فرمایا ہے، یعنی فرمان نبوی کے مقابلے میں کسی شخص کی رائے کو پیش کرنا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔ (حقیقة الفقة، ص: 76)

(ج)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
تم میں سے کوئی شخص دین کے بارے میں کسی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ (متبوع) مومن رہا تو اس کا مومن بھی مقلد رہے گا اور اگر وہ کافر ہوا تو اس کا مقلد بھی کافر ہو جائے گا۔
اس اعتبار سے یہ تقلید بلاشبہ برائی میں اُسوہ ہے۔ (الإِیْقَاظُ لهمم أُولِي الأَبْصَارِ)  أَعَاذَنَااللهُ مِنْهُ.
(د)
حضرت عبداللہ بن معتمر کہتے ہیں:
(لَا فَرقَ بَيْنَ بَهِيْمَةٍ تَنْقَادُ وُإنْسَانٍ يُقَلِّدُ)
مقلد شخص اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ (حقیقة الفقة، ص: 78)

(ہ)
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(لَا تُقَلِّدْنِي وَلَا تُقَلِّدَنَّ مَالِكاً وَّلَا غَيْرَهُ وَخُذِالَأحْكَامَ مِنْ حَيْثُ أَخَذُوْا مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ) (حقيقة الفقة‘ ص: 90)
 میری تقلید نہ کرنا، نہ مالک کی، نہ کسی اور کی تقلید کرنا۔
احکام کو وہاں سے حاصل کرو جہاں سے انہوں نے حاصل کیے ہیں یعنی کتاب و سنت سے۔
نیز فرمایا:
کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ میری دلیل سے واقف ہوئے بغیر میرے کلام کا فتویٰ دے۔ (حقیقة الفقة، ص: 88)

(ر)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے (وہ واجب الإتباع ہے۔)

(ز)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب تم دیکھو کہ میرا قول حدیث نبوی کے خلاف ہے تو حدیث نبوی پر عمل کرو اور میرے قول کو دیوار پر دے مارو۔
نیز فرمایا:
(إِذَا صَحَّ الْحَدِيْثُ فَهُوَ مَذْهَبِي) (عِقْدُ الْجِيْدِ وَ حُجَّةُ اللهِ الْبَالِغَة: 1؍157)
 جب صحیح حدیث مل جائے تو میرا مذہب وہی ہے۔

(ح)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کسی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کلام کی گنجائش نہیں۔ (کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔)

(ط)
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(هَل يُقَلِّدُ اِلَّا عَصِيٌّ)
تقلید نافرمان ہی کرتا ہے۔

(ی)
علامہ جاراللہ حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(إِنْ كَانَ لِضَلاَلٍ اُمٌّ فَالتَّقْلِيْدُ اُمُّهُ)
 اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو وہ تقلید ہی ہوتی۔ (حقیقة الفقة، ص: 58، 51)
ائمہ سلف کے مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ گمراہی کا اصل اور اس کی جڑ تقلید ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے اور تقلید سے نجات دے۔
آمین
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.