الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قرآن کریم کے مناقب و فضائل
Chapters on The Virtues of the Qur'an
23. باب مَا جَاءَ كَيْفَ كَانَ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
23. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟
حدیث نمبر: 2924
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن معاوية بن صالح، عن عبد الله بن ابي قيس هو رجل بصري، قال: سالت عائشة عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف كان يوتر من اول الليل او من آخره؟ فقالت: " كل ذلك قد كان يصنع، ربما اوتر من اول الليل وربما اوتر من آخره، فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، فقلت: كيف كانت قراءته؟ اكان يسر بالقراءة ام يجهر؟ قالت: كل ذلك قد كان يفعل، قد كان ربما اسر وربما جهر، قال: فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قلت: فكيف كان يصنع في الجنابة؟ اكان يغتسل قبل ان ينام او ينام قبل ان يغتسل؟ قالت: كل ذلك قد كان يفعل، فربما اغتسل فنام وربما توضا فنام، قلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ هُوَ رَجُلٌ بَصْرِيٌّ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ كَانَ يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ أَوْ مِنْ آخِرِهِ؟ فَقَالَتْ: " كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَصْنَعُ، رُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَرُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ آخِرِهِ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، فَقُلْتُ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَتُهُ؟ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، قُلْتُ: فَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِي الْجَنَابَةِ؟ أَكَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ أَوْ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، فَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فَنَامَ وَرُبَّمَا تَوَضَّأَ فَنَامَ، قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن ابی قیس بصریٰ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں پوچھا کہ آپ وتر رات کے شروع حصے میں پڑھتے تھے یا آخری حصے میں؟ انہوں نے کہا: آپ دونوں ہی طرح سے کرتے تھے۔ کبھی تو آپ شروع رات میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں وتر پڑھتے تھے۔ میں نے کہا: الحمدللہ! تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کے معاملے میں وسعت و کشادگی رکھی، پھر میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ کیا آپ دھیرے پڑھتے تھے یا بلند آواز سے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کرتے تھے۔ کبھی تو دھیرے پڑھتے تھے اور کبھی آپ زور سے میں نے کہا: الحمدللہ، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت و کشادگی رکھی۔ پھر میں نے کہا: آپ جب جنبی ہو جاتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ کیا سونے سے پہلے غسل کر لیتے تھے یا غسل کیے بغیر سو جاتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمام ہی کرتے تھے، کبھی تو آپ غسل کر لیتے تھے پھر سوتے، اور کبھی وضو کر کے سو جاتے، میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دینی کام میں وسعت و کشادگی رکھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 449 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (222 - 1291)

   صحيح البخاري996عائشة بنت عبد اللهأوتر رسول الله وانتهى وتره إلى السحر
   صحيح مسلم1736عائشة بنت عبد اللهمن كل الليل قد أوتر رسول الله فانتهى وتره إلى السحر
   صحيح مسلم1737عائشة بنت عبد اللهمن كل الليل قد أوتر رسول الله من أول الليل وأوسطه وآخره فانتهى وتره إلى السحر
   صحيح مسلم1738عائشة بنت عبد اللهأوتر رسول الله فانتهى وتره إلى آخر الليل
   جامع الترمذي456عائشة بنت عبد اللهمن كل الليل قد أوتر أوله وأوسطه وآخره فانتهى وتره حين مات إلى السحر
   جامع الترمذي2924عائشة بنت عبد اللهربما أوتر من أول الليل وربما أوتر من آخره ربما أسر وربما جهر
   سنن أبي داود1437عائشة بنت عبد اللهأوتر أول الليل وربما أوتر من آخره ربما أسر وربما جهر وربما اغتسل فنام وربما توضأ فنام
   سنن أبي داود1435عائشة بنت عبد اللهأوتر أول الليل ووسطه وآخره ولكن انتهى وتره حين مات إلى السحر
   سنن النسائى الصغرى1682عائشة بنت عبد اللهأوتر رسول الله من أوله وآخره وأوسطه وانتهى وتره إلى السحر
   سنن ابن ماجه1185عائشة بنت عبد اللهمن كل الليل قد أوتر من أوله وأوسطه وانتهى وتره حين مات في السحر
   بلوغ المرام300عائشة بنت عبد اللهمن كل الليل قد اوتر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وانتهى وتره إلى السحر
   مسندالحميدي188عائشة بنت عبد اللهمن كل الليل قد أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم فانتهى وتره إلى السحر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1185  
´رات کے آخری حصے میں وتر پڑھنے کا بیان۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا، کبھی رات کے شروع حصے میں، کبھی درمیانی حصے میں، اور وفات کے قریبی ایام میں اپنا وتر صبح صادق کے قریب پڑھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1185]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وتر کا وقت تہجد کے بعد ہے۔
رات کے ہر حصے میں وتر پڑھنے سے رات کے ہر حصے میں تہجد پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا غالب معمول رات کے نصف آخر میں جاگنے کا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ ر ات کے پہلے حصے میں سوتے اور آخری حصے میں اُٹھ کرنماز پڑھتے تھے۔
پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے تھے۔
جب مؤذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوتے۔
۔
۔
، (صحیح البخاري، التھجد، باب من نام أول اللیل وأحیا آخرہ، حدیث: 1146)
 یہ صورت غالباً وہی ہے۔
جس کا ذکر اس حدیث مُبارک میں ہے۔
اللہ کو سب سے محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے۔
اوراللہ کو سب سے محبوب روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔
و ہ نصف رات سوتے (پھر)
تہائی رات قیام فرماتے (پھر)
رات کا چھٹا حصہ سوتے تھے۔
اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہیں رکھتے تھے۔
 (صحیح البخاري، التهجد، باب من نام عند السحر، حدیث: 1131)

(3)
رسول اللہ ﷺنے آخری عمر میں جو معمول اختیار فرمایا وہ صبح صادق تک نماز پڑھنے کا تھا تاہم فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیرلیٹ جاتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1185   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 300  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی انتہا سحر تک تھی۔ دونوں روایتوں کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 300»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوتر، باب ساعات الوتر، حديث:996، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل، حديث:745.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر رات کے شروع‘ درمیان اور آخری حصے میں بھی پڑھے ہیں۔
2. وتروں کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہو کر طلوع فجر تک رہتا ہے۔
جو لوگ نماز تہجد کے عادی ہوں انھیں وتر رات کے آخری حصے میں پڑھنے چاہییں اور جو سحری کے وقت اٹھ نہ سکتے ہوں وہ نماز عشاء کے بعد پڑھیں۔
3.کسی مجبوری اور عذر کی وجہ سے اگر وقت پر وتر نہ پڑھے جا سکیں تو فجر کی جماعت کھڑی ہونے تک انھیں پڑھ لے۔
ہاں‘ اگر سو جائے یا اسے یاد ہی نہ رہے تو جس وقت بیدار ہو یا جس وقت یاد آئے، پڑھ لے کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا ادا کرنا جائز ہے۔
ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر وتر اپنے وقت پر نہ پڑھے جا سکیں تو پھر انھیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ اس موقف کی تائید میں بھی بعض روایات آتی ہیں لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔
دیکھیے: (حاشیہ ترمذي‘ أحمد محمد شاکر:۲ /۳۳۳) نیز بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل بھی بیان ہوا ہے کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سے آپ کا قیام اللیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ (۱۲) رکعت پڑھتے۔
دیکھیے: (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۴۶) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جائیں تو وہ اس کی قضا جفت شکل میں دے‘ یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت اور تین وتر کی جگہ چار رکعات پڑھے۔
لیکن ہمارے خیال میں ایسا اس شخص کے لیے ضروری ہو گا جو نماز تہجد کا عادی ہو ‘ عام شخص کے لیے وتروں کی قضا ادا کرنا‘ وتر ہی کی صورت میں مناسب معلوم ہوتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 300   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 456  
´رات کے ابتدائی اور آخری دونوں حصوں میں وتر پڑھا جا سکتا ہے۔`
مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا وتر سحر تک پہنچ گیا تھا۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 456]
اردو حاشہ:
1؎:
ان دونوں حدیثوں اور اس باب میں مروی دیگر حدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پر منحصر ہے،
وہ جب آخری پہر رات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتا ہو تو عشاء کے بعد یا سونے سے پہلے ہی وتر نہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے،
اور اگر اس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے،
اس مسئلہ میں ہر طرح کی گنجائش ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 456   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1435  
´وتر کے وقت کا بیان۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کب پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: سبھی وقتوں میں آپ نے پڑھا ہے، شروع رات میں بھی پڑھا ہے، درمیان رات میں بھی اور آخری رات میں بھی لیکن جس وقت آپ کی وفات ہوئی آپ کی وتر صبح ہو چکنے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1435]
1435. اردو حاشیہ: نماز وتر کا وقت آدھی رات تک ہے۔ اور وتروں کا سحر (صبح صادق سے پہلے) تک۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1435   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.