الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
29. بَابُ : الرَّمَلِ حَوْلَ الْبَيْتِ
29. باب: بیت اللہ کے طواف میں رمل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2953
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن ابن خثيم ، عن ابي الطفيل ، عن ابن عباس ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه حين ارادوا دخول مكة في عمرته بعد الحديبية:" إن قومكم غدا سيرونكم فليرونكم جلدا"، فلما دخلوا المسجد استلموا الركن، ورملوا والنبي صلى الله عليه وسلم معهم، حتى إذا بلغوا الركن اليماني، مشوا إلى الركن الاسود، ثم رملوا، حتى بلغوا الركن اليماني، ثم مشوا إلى الركن الاسود، ففعل ذلك ثلاث مرات ثم مشى الاربع.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ حِينَ أَرَادُوا دُخُولَ مَكَّةَ فِي عُمْرَتِهِ بَعْدَ الْحُدَيْبِيَةِ:" إِنَّ قَوْمَكُمْ غَدًا سَيَرَوْنَكُمْ فَلَيَرَوُنَّكُمْ جُلْدًا"، فَلَمَّا دَخَلُوا الْمَسْجِدَ اسْتَلَمُوا الرُّكْنَ، وَرَمَلُوا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ، حَتَّى إِذَا بَلَغُوا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ، مَشَوْا إِلَى الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ، ثُمَّ رَمَلُوا، حَتَّى بَلَغُوا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ، ثُمَّ مَشَوْا إِلَى الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ، فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ مَشَى الْأَرْبَعَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے بعد دوسرے سال عمرہ کی غرض سے مکہ میں داخل ہونا چاہا، تو اپنے صحابہ سے فرمایا: کل تم کو تمہاری قوم کے لوگ دیکھیں گے لہٰذا چاہیئے کہ وہ تمہیں توانا اور مضبوط دیکھیں، چنانچہ جب یہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا استلام کیا، اور رمل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ رکن یمانی کے پاس پہنچے، تو وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، وہاں سے رکن یمانی تک پھر رمل کیا، اور پھر وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار کیا، پھر چار مرتبہ عام چال چلے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 51 (1890)، سنن الترمذی/الحج 39 (863)، سنن النسائی/الحج 176 (2982)، (تحفة الأشراف: 5777)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 80 (1649)، المغازي 43 (4257)، صحیح مسلم/الحج 39 (1266)، مسند احمد (1/221، 255، 306، 310، 311، 373) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   صحيح مسلم3057عامر بن واثلةرمل بالبيت وبين الصفا والمروة وهي سنة
   صحيح مسلم3055عامر بن واثلةيرملوا ثلاثا ويمشوا أربعا أخبرني عن الطواف بين الصفا والمروة راكبا أسنة هو فإن قومك يزعمون أنه سنة قال
   سنن أبي داود1889عامر بن واثلةاضطبع فاستلم وكبر ثم رمل ثلاثة أطواف وكانوا إذا بلغوا الركن اليماني وتغيبوا من قريش مشوا ثم يطلعون عليهم يرملون تقول قريش كأنهم الغزلان
   سنن أبي داود1885عامر بن واثلةارملوا بالبيت ثلاثا وليس بسنة قل
   سنن ابن ماجه2953عامر بن واثلةاستلموا الركن ورملوا والنبي معهم حتى إذا بلغوا الركن اليماني مشوا إلى الركن الأسود ثم رملوا حتى بلغوا الركن اليماني ثم مشوا إلى الركن الأسود ففعل ذلك ثلاث مرات ثم مشى الأربع
   مسندالحميدي505عامر بن واثلةإنما سعى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبيت وبين الصفا والمروة؛ ليري المشركين قوته
   مسندالحميدي521عامر بن واثلةأن رسول الله صلى الله عليه وسلم رمل بالبيت وبين الصفا والمروة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2953  
´بیت اللہ کے طواف میں رمل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے بعد دوسرے سال عمرہ کی غرض سے مکہ میں داخل ہونا چاہا، تو اپنے صحابہ سے فرمایا: کل تم کو تمہاری قوم کے لوگ دیکھیں گے لہٰذا چاہیئے کہ وہ تمہیں توانا اور مضبوط دیکھیں، چنانچہ جب یہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا استلام کیا، اور رمل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ رکن یمانی کے پاس پہنچے، تو وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، وہاں سے رکن یمانی تک پھر رمل کیا، اور پھر وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، اس طرح آپ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2953]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
صلح حدیبیہ ذوالقعدہ 6ھ میں ہوئی۔
اس میں شرط یہ تھی کہ مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ واپس چلے جائیں۔
اگلے سال مسلمان عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور تین دن سے زیادہ مکے میں نہ ٹھریں۔

(2)
اس شرط کے مطابق دو ہزار مرد اور ان کے علاوہ کچھ عورتیں اور بچے بھی ذوالقعدہ 7ھ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عمرے کے لیے مکہ پہنچے۔ (فتح الباري: 627/7)

(3)
صحابہ کرام ؓنے طواف کے دوران میں بیت اللہ کے تین طرف رمل کیا اور چوتھی طرف عام رفتار سے چلے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین مکہ گھروں سے نکل کر کعبہ کے شمال میں جبل قعیقعان پر جا بیٹھے تھے۔
مسلمان کعبہ کے تین اطراف انھیں پھرتی سے دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے۔
چوتھی طرف مسلمان کعبہ شریف کی اوٹ میں ہوجانے کی وجہ سے نظر نہیں آتے تھے۔

(4)
مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں پر ہر لحاظ سے اپنا رعب قائم رکھیں تاکہ کافر ان پر ظلم کرنے کے بارے میں سوچ نہ سکیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2953   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1885  
´طواف میں رمل کا بیان۔`
ابوطفیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا اور یہ سنت ہے، انہوں نے کہا: لوگوں نے سچ کہا اور جھوٹ اور غلط بھی، میں نے دریافت کیا: لوگوں نے کیا سچ کہا اور کیا جھوٹ اور غلط؟ فرمایا: انہوں نے یہ سچ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا لیکن یہ جھوٹ اور غلط کہا کہ رمل سنت ہے (واقعہ یہ ہے) کہ قریش نے حدیبیہ کے موقع پر کہا کہ محمد اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑ دو وہ اونٹ کی موت خود ہی مر جائیں گے، پھر جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر مصالحت کر لی کہ آپ آئندہ سال آ کر حج کریں اور مکہ میں تین دن قیام کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور مشرکین بھی قعیقعان کی طرف سے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تین پھیروں میں رمل کرو، اور یہ سنت نہیں ہے ۱؎، میں نے کہا: آپ کی قوم سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی اور یہ سنت ہے، وہ بولے: انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ اور غلط بھی، میں نے دریافت کیا: کیا سچ کہا اور کیا جھوٹ؟ وہ بولے: یہ سچ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان اپنے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی لیکن یہ جھوٹ اور غلط ہے کہ یہ سنت ہے، دراصل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہ جا رہے تھے اور نہ سرک رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی تاکہ لوگ آپ کی بات سنیں اور لوگ آپ کو دیکھیں اور ان کے ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1885]
1885. اردو حاشیہ: -1طواف قدوم میں پہلے تین چکروں میں کندھے ہلا ہلاکر آہستہ آہستہ دوڑنارمل کہلاتا ہے۔اور یہ ثابت شدہ سنت ہے۔طواف قدوم کے بعد کسی اور طواف میں یہ عمل ثابت نہیں۔ نیز عورتوں کےلئے رمل نہیں ہے۔
➋ رمل مشروع ہونے کی اصل بنا یہی ہے۔ جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات میں بیان ہوئی ہے۔ مگر یہ کہنا کہ یہ سنت نہیں ہے۔محل نظر ہے یہ ان کا اپنا خیال ہے۔ اورشاید اس سے ان کی مُراد سنت واجبہ کی نفی ہے۔اورحقیقت بھی یہی ہے کہ یہ عمل مسنون ومستحب ہے۔ اگر کسی سے یہ رہ جائے تو آخر کے چار چکروں میں اس کا تدارک کرناجائز نہیں ہے۔(نیل الاوطار)اگر یہ عمل وقتی ہوتا تو بعد کے عمروں اور حجۃ الوداع میں اس پر عمل نہ کیاجاتا۔عمرہ قضا سن 7 ہجری میں ہوا ہے۔جس میں رمل کی ابتداء ہوئی تھی۔ پھر سن آٹھ ہجری میں عمرہ جعرانہ میں بھی صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے رمل کیا۔اور یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی روایت ہے۔جواوپر گزری ہے۔(حدیث 1884) بعد ازاں دس ہجری میں حجۃ الوداع میں بھی یہ عمل ثابت ہے۔اور سواری پر سوار ہوکرطواف وسعی بلاشبہ عذر پر ہی مبنی ہے۔ کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔دور نہ ہوتے تھے اور ان کو زور سے دور کرنا اور ہٹانا نبی کریم ﷺ کو پسند نہ تھا تو آپ سوار ہوگئے تاکہ آپ انہیں مناسک حج کی تعلیم دے سکیں۔ مسائل سمجھا سکیں اور لوگ بھی آپ کے عمل کامشاہدہ کرسکیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1885   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.