الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
The Book of Menses (Menstrual Periods)
5. بَابُ مُبَاشَرَةِ الْحَائِضِ:
5. باب: اس بارے میں کہ حائضہ کے ساتھ مباشرت کرنا (یعنی جماع کے علاوہ اس کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا جائز ہے)۔
(5) Chapter. Fondling a menstruating wife.
حدیث نمبر: 300
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) وكان يامرني فاتزر فيباشرني وانا حائض.(مرفوع) وَكَانَ يَأْمُرُنِي فَأَتَّزِرُ فَيُبَاشِرُنِي وَأَنَا حَائِضٌ.
‏‏‏‏ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم فرماتے، پس میں ازار باندھ لیتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ مباشرت کرتے، اس وقت میں حائضہ ہوتی۔


Aur Aap Sallallahu Alaihi Wasallam mujhe hukm farmaate, pas main izaar baandh leti, phir Aap Sallallahu Alaihi Wasallam mere saath mubaasharat karte, us waqt main haaiza hoti.

During the menses, he used to order me to put on an Izar (dress worn below the waist) and used to fondle me.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1 , Book 6 , Number 298



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 123  
´حالت حیض مباشرت جائز ہے`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يامرني فاتزر فيباشرني وانا حائض . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہبند مضبوطی سے باندھنے کا حکم فرماتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ مباشرت کرتے، حالانکہ میں اس وقت حالت حیض میں ہوتی تھی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 123]

لغوی تشریح:
«فَأَتَّزِرُ» باب افتعال سے صیغۂ واحد متکلم ہے جس کے معنی ہیں: میں ازار پہن لیتی۔
«فَيُبَاشِرُنِي» مجھے چھوتے، میرے جسم کے ساتھ اپنا جسم لگاتے اور یہ جماع کے بغیر ہوتا تھا، یعنی مباشرت۔

فوائد و مسائل:
«بَاشَرَ يُبَاشِرُ» «مُبَاشِرَةُ» کے معنی ہیں: ایک دوسرے کے ساتھ اپنا جسم لگانا۔ یہ اس کے لغوی معنی ہیں۔ مجازی طور پر اس سے جماع کے معنی بھی لیے جاتے ہیں۔
➋ منکرین حدیث کی ستم ظریفی دیکھیے کہ انہوں نے عوام کو احادیث نبویہ سے بدظن اور متنفر کرنے کے لیے اس کے معنی کیے ہیں کہ نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت حیض میں اپنی بیویوں سے مباشرت (جماع) کر لیتے تھے جب کہ قرآن مجید میں اس کی صریحاً ممانعت ہے۔ نتیجہ اس سے یہ برآمد کرتے ہیں کہ احادیث جھوٹی ہیں، یہ قابل اعتبار نہیں، حالانکہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ مباشرت کے معنی جسم کے ساتھ جسم لگانے کے ہیں۔ اس سے جماع کے معنی کرنا بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے؟ کیونکہ حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی لینے کے لیے دلیل ہونی چاہیے۔ بلکہ اس جگہ تو حقیقی معنی مراد لینے کی دلیل موجود ہے کہ آپ تہبند باندھنے کا حکم دیتے تھے۔
➌ شریعت نے ایام حیض میں جماع کے سوا عورت کے جسم سے لذت حاصل کرنا جائز قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 123   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:300  
300. اور آپ ﷺ مجھے حکم فرماتے تو میں ازار باندھ لیتی، پھر آپ میرے ساتھ استراحت فرماتے، یعنی مل کر سوتے جبکہ میں بحالت حیض ہوتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:300]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مباشرت حائض کے احکام بیان کرنے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے، اس سے مراد حائضہ کے ساتھ سونا یا اس سے بوس و کنار کرنا ہے، اس سے مراد جماع نہیں، کیونکہ وہ تو حائضہ سے کسی صورت میں جائز نہیں۔
اگرچہ ہمارے ہاں اور محاورے میں لفظ مباشرت جماع کے لیے بولا جاتا ہے، اس لیے اس کا لفظ اردو زبان میں مباشرت سے ترجمہ کرنا غلط ہے۔
بعض عاقبت نااندیش مستشرقین نے اس باب میں آنے والی احادیث کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کو خاکم بدہن عورتوں کا رسیا ثابت کیا ہے جو حالت حیض میں بھی ان سے پرہیز نہ کرتے تھے، ان احادیث سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ انتہائی نفاست پسند تھے۔
ایک عام آدمی کو بھی بحالت حیض میں عورت کے پاس جانے سے گھن آتی ہے، چہ جائیکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف اس قسم کا فعل منسوب کیا جائے۔
﴿ سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ قارئین کرام کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ضب (سانڈھے)
کو قسام ازل (اللہ تعالیٰ)
نے انتہائی شہوانی جذبات سے نوازا ہے، قابل اعتماد عینی گواہوں کا بیان ہے کہ اس کے دو ذکر ہوتے ہیں، لوگ اسے کھانے اور اس کی چربی کو طلا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حلال ہونے کے باوجود اسے ناپسند فرمایا۔
آپ کے دسترخوان پر دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے کھایا، لیکن آپ نے تناول نہیں فرمایا۔
غالباً اس کی یہی وجہ تھی کہ لوگ اس بات کا چرچا کریں گے کہ آپ کے عقد میں نو بیویاں ہیں، اس لیے ضب (سانڈھے)
کو استعمال کرتے ہیں۔
آپ نے اس سے کراہت کا اظہار کیا تاکہ کسی طرف سے بھی آپ کی شخصیت پر حرف نہ آئے۔
واللہ أعلم 2۔
امام ثوری ؒ امام احمد ؒ امام اسحاق ؒ اور دیگر کئی آئمہ کے نزدیک دوران حیض میں عورت سے صرف جماع حرام ہے اور فرج (حیض والی جگہ)
کے سوا پورے جسم سے تمتع کرنا جائز ہے۔
دلائل کے اعتبار سے یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس کی تائید سنن ابو داود کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ اگراپنی اہلیہ سے خواہش کرتے اور وہ حیض سے ہوتی تو اس کی شرمگاہ پر کپڑا ڈال دیتے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 272)
ابتدائی دنوں اور بعد کے ایام کی تفریق والی وہ روایت جسے ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ابن ماجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے، وہ معجم طبرانی میں ہے، لیکن ضعیف ہے۔
(السلسلة الضعیفة: 2839)
یادرہے کہ جواز اسی صورت میں ہے جب انسان اپنے آپ پر کنٹرول رکھتا ہو، ورنہ ایام حیض میں مرد عورت سے الگ رہے۔

رسول اللہ ﷺ اپنی خواہشات پر انتہائی قابو یافتہ تھے۔
اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ اپنے جذبات پر پوری طرح قابو یافتہ تھے اور نا ممکن تھا کہ ازار کے بغیر بھی اگر وہ کسی بیوی کے ساتھ استراحت کرنا چاہیں تو ان سے کوئی خلاف شرع فعل صادر ہو سکے، مگر اس قدر کنٹرول کے باوجود آپ پہلے ازار پہنانے کا اہتمام کرتے، پھر اس کے ساتھ محو استراحت ہوتے۔
ازار کے بعد بھی وفور جذبات میں بہہ جانے کا اندیشہ باقی رہتا ہے، اس لیے ازار استعمال کرانے کے باوجود احتیاط کی ضرورت ہے، لہذا ایام حیض میں بیوی کے ساتھ لیٹنے والے کے بارے میں تفصیل ہے کہ اگر اسے اپنی ذات پر پورا اعتماد ہو اور کسی غلط روی کا اندیشہ نہ ہو تو اس کی اجازت دی جائے گی، بصورت دیگر اسے منع کر دیا جائے گا۔

حدیث عائشہ ؓ (رقم 302)
کو ابو اسحاق شیبانی سےبیان کرنے میں خالد بن عبد اللہ الواسطی اور جریر بن عبدالحمید نے علی بن مسہر کی متابعت کی ہے، خالد کی متابعت کو ابو القاسم التنوخی نے اپنے فوائد میں موصولاً بیان کیا ہے، جبکہ جریر کی متابعت کو ابو داؤد نے اپنی سنن اور امام حاکم نے اپنی مستدرک میں موصولاً بیان کیا ہے۔
منصور بن ابی الاسود نے بھی شیبانی سے اس روایت کو بیان کیا ہے جسے ابو عوانہ نے اپنی مسند میں موصولاًبیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 5261)

دور حاضرکے منکرین حدیث کی کوشش ہے کہ قرآن و حدیث میں تضاد اورٹکراؤ پیدا کر کے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا جائے۔
اس طرح جب حدیث کا قرآن فہمی میں کوئی کردار نہیں ہوگا تو قرآن کریم کی من مانی تاویلات کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، اس حدیث کے متعلق بھی انھوں نے کہا کہ اس میں بحالت حیض بیوی سے مباشرت کرنے کا ذکر ہے، جبکہ قرآن کریم میں اس کے متعلق حکم امتناعی ہے، لہٰذا یہ حدیث قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے۔
قارئین کرام کو خبردار کرنے کے لیے ہم نے ان کا ذکر کردیا ہے۔
حدیث اپنے مفہوم کے اعتبار سے واضح ہے کہ مباشرت سے مراد جماع نہیں، بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ لیٹنا اور اس سے بوس وکنار کرنا ہے، اگر قرآن و حدیث میں بظاہر تعارض نظر آئے تو انکار کے بجائے اس کی توجیہ کرنی چاہیے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے، لیکن مفسرین اس کی توجیہ کرتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ جہاں معمولی سا تعارض نظر آیا اس کا سرے سے انکار کردیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 300   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.