الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
213. بَابُ : وَقْتِ الإِفَاضَةِ مِنْ جَمْعٍ
213. باب: مزدلفہ سے لوٹنے کے وقت کا بیان۔
Chapter: The Time Of Departure From Al-Muzdalifah
حدیث نمبر: 3050
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، قال: سمعته يقول: شهدت عمر بجمع فقال:" إن اهل الجاهلية كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، ويقولون اشرق ثبير، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم خالفهم، ثم افاض قبل ان تطلع الشمس".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: شَهِدْتُ عُمَرَ بِجَمْعٍ فَقَالَ:" إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَيَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو وہ کہنے لگے: اہل جاہلیت جب تک سورج نکل نہیں جاتا مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے، کہتے تھے «أشرق ثبیر» اے ثبیر روشن ہو جا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی، پھر وہ سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 100 (1684)، ومناقب الأنصار 26 (3838)، سنن ابی داود/الحج 65 (1938)، سنن الترمذی/الحج 60 (896)، سنن ابن ماجہ/الحج 61 (3022)، (تحفة الأشراف: 10616)، مسند احمد (1/14، 29، 39، 42، 50، 54)، سنن الدارمی/المناسک 55 (1932) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ثبیر مزدلفہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاري1684عمر بن الخطابأفاض قبل أن تطلع الشمس
   سنن أبي داود1938عمر بن الخطابدفع قبل طلوع الشمس
   سنن النسائى الصغرى3050عمر بن الخطابخالفهم ثم أفاض قبل أن تطلع الشمس
   بلوغ المرام625عمر بن الخطابخالفهم فافاض قبل ان تطلع الشمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3050  
´مزدلفہ سے لوٹنے کے وقت کا بیان۔`
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو وہ کہنے لگے: اہل جاہلیت جب تک سورج نکل نہیں جاتا مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے، کہتے تھے «أشرق ثبیر» اے ثبیر روشن ہو جا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی، پھر وہ سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3050]
اردو حاشہ:
اے ثبیر! روشن ہو ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ کی حدود ہی میں واقع ہے۔ ظاہر ہے سورج طلوع ہو تو اس کی روشنی سب سے پہلے پہاڑ ہی پر پڑتی ہے۔ پہاڑ کے روشن ہونے سے سورج کے طلوع ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔ اہل جاہلیت کا مقصد یہ تھا کہ پہاڑ روشن ہوگا، یعنی سور ج طوع ہوگا تو پھر چلیں گے جبکہ رسول اللہﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے چل پڑے اور یہی سنت ہے اگرچہ مزدلفہ میں سورج طلوع ہونے سے حج کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ رش میں ایسا ممکن ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3050   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 625  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مشرکین طلوع آفتاب کے بعد واپس لوٹتے تھے اور کہتے تھے، ثبیر (ایک پہاڑ کا نام) روشن ہو گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے تشریف لے آئے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 625]
625 لغوی تشریح:
«لا يفضون» واپس نہیں آتے تھے، یعنی مزدلفہ سے منیٰ کی جانب۔
«اشرق» «اشراق» سے امر کا صیغہ ہے۔ «اشراق» کہتے ہیں روشنی میں دخول کو، یعنی چاہئیے کہ تجھ پر سورج طلوع ہو۔
«ثبير» ثا پر فتحہ اور با کے نیچے کسرہ ہے۔ یہ نداء مخدوف کا منادیٰ ہونے کے وجہ سے مبنی علی الضم ہے۔ منیٰ کی طرف جانے والے کے بائیں جانب آنے والے ایک مشہور و معروف پہاڑ کا نام ہے۔ مکہ کے بڑے عظیم پہاڑوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ قبیلہ ہذیل کے ثبیر نامی ایک شخص کے نام پر معروف ہوا۔ اسی پہاڑ پر وہ دفن ہوا۔ ایک روایت یہ بھی ہے۔ «كيما نغير» اس کے معنی ہیں: تاکہ ہم چل سکیں اور ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر سرپٹ دوڑیں۔ [سنن ابن ماجه، المناسك، باب الوقف لجمع، حديث: 3022 ]

فائدہ: اس حدیث سے یہ دلیل ملتی ہے کہ مزدلفہ سے واپسی طلوع آفتاب سے پہلے روشنی میں ہونی چاہیے اور جو طلوع آفتاب تک وہاں وقوف نہ کر سکا اس کا وقوف فوت ہو گیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 625   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1938  
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگ مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے جب تک کہ سورج کو ثبیر ۱؎ پر نہ دیکھ لیتے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے ہی (مزدلفہ سے) چل پڑے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1938]
1938. اردو حاشیہ: مزدلفہ سے روانگی کا اصل وقت نمازفجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے ہے صرف ضعیفوں کے لئے رخصت ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد جاسکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1938   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.