الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
حدیث نمبر: 3061
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حماد ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا ابو بلج ، حدثنا عمرو بن ميمون ، قال: إني لجالس إلى ابن عباس، إذ اتاه تسعة رهط، فقالوا: يا ابا عباس، إما ان تقوم معنا، وإما ان يخلونا هؤلاء، قال: فقال ابن عباس : بل اقوم معكم، قال: وهو يومئذ صحيح قبل ان يعمى، قال: فابتدءوا فتحدثوا، فلا ندري ما قالوا، قال: فجاء ينفض ثوبه، ويقول: اف وتف، وقعوا في رجل له عشر، وقعوا في رجل، قال له النبي صلى الله عليه وسلم:" لابعثن رجلا لا يخزيه الله ابدا، يحب الله ورسوله"، قال: فاستشرف لها من استشرف، قال:" اين علي؟" قالوا: هو في الرحل يطحن. قال:" وما كان احدكم ليطحن؟!"، قال: فجاء وهو ارمد لا يكاد يبصر، قال: فنفث في عينيه، ثم هز الراية ثلاثا، فاعطاها إياه، فجاء بصفية بنت حيي. قال: ثم بعث فلانا بسورة التوبة، فبعث عليا خلفه، فاخذها منه، قال:" لا يذهب بها إلا رجل مني، وانا منه". قال: وقال لبني عمه:" ايكم يواليني في الدنيا والآخرة؟"، قال: وعلي معه جالس، فابوا، فقال علي: انا اواليك في الدنيا والآخرة. قال:" انت وليي في الدنيا والآخرة"، قال: فتركه، ثم اقبل على رجل منهم، فقال:" ايكم يواليني في الدنيا والآخرة؟"، فابوا، قال: فقال علي: انا اواليك في الدنيا والآخرة. فقال:" انت وليي في الدنيا والآخرة". قال: وكان اول من اسلم من الناس بعد خديجة. قال: واخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ثوبه فوضعه على علي، وفاطمة، وحسن، وحسين، فقال: إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيرا سورة الاحزاب آية 33. قال: وشرى علي نفسه لبس ثوب النبي صلى الله عليه وسلم ثم نام مكانه، قال: وكان المشركون يرمون رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء ابو بكر، وعلي نائم، قال: وابو بكر يحسب انه نبي الله، قال: فقال: يا نبي الله، قال: فقال له علي: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم قد انطلق نحو بئر ميمون، فادركه. قال: فانطلق ابو بكر، فدخل معه الغار، قال: وجعل علي يرمى بالحجارة كما كان يرمى نبي الله، وهو يتضور، قد لف راسه في الثوب لا يخرجه حتى اصبح، ثم كشف عن راسه، فقالوا: إنك للئيم، كان صاحبك نرميه فلا يتضور، وانت تتضور، وقد استنكرنا ذلك. قال: وخرج بالناس في غزوة تبوك، قال: فقال له علي: اخرج معك؟ قال: فقال له نبي الله:" لا"، فبكى علي، فقال له:" اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، إلا انك لست بنبي، إنه لا ينبغي ان اذهب إلا وانت خليفتي". قال: وقال له رسول الله:" انت وليي في كل مؤمن بعدي". وقال: سدوا ابواب المسجد غير باب علي، فقال: فيدخل المسجد جنبا، وهو طريقه ليس له طريق غيره. قال: وقال:" من كنت مولاه، فإن مولاه علي". قال: واخبرنا الله عز وجل في القرآن انه قد رضي عنهم عن اصحاب الشجرة، فعلم ما في قلوبهم، هل حدثنا انه سخط عليهم بعد؟! قال: وقال نبي الله صلى الله عليه وسلم لعمر حين قال: ائذن لي فلاضرب عنقه. قال:" اوكنت فاعلا؟! وما يدريك، لعل الله قد اطلع إلى اهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَلْجٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ ، قَالَ: إِنِّي لَجَالِسٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، إِذْ أَتَاهُ تِسْعَةُ رَهْطٍ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَبَّاسٍ، إِمَّا أَنْ تَقُومَ مَعَنَا، وَإِمَّا أَنْ يُخْلُونَا هَؤُلَاءِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : بَلْ أَقُومُ مَعَكُمْ، قَالَ: وَهُوَ يَوْمَئِذٍ صَحِيحٌ قَبْلَ أَنْ يَعْمَى، قَالَ: فَابْتَدَءُوا فَتَحَدَّثُوا، فَلَا نَدْرِي مَا قَالُوا، قَالَ: فَجَاءَ يَنْفُضُ ثَوْبَهُ، وَيَقُولُ: أُفْ وَتُفْ، وَقَعُوا فِي رَجُلٍ لَهُ عَشْرٌ، وَقَعُوا فِي رَجُلٍ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا يُخْزِيهِ اللَّهُ أَبَدًا، يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ"، قَالَ: فَاسْتَشْرَفَ لَهَا مَنْ اسْتَشْرَفَ، قَالَ:" أَيْنَ عَلِيٌّ؟" قَالُوا: هُوَ فِي الرَّحْلِ يَطْحَنُ. قَالَ:" وَمَا كَانَ أَحَدُكُمْ لِيَطْحَنَ؟!"، قَالَ: فَجَاءَ وَهُوَ أَرْمَدُ لَا يَكَادُ يُبْصِرُ، قَالَ: فَنَفَثَ فِي عَيْنَيْهِ، ثُمَّ هَزَّ الرَّايَةَ ثَلَاثًا، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ، فَجَاءَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ. قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ فُلَانًا بِسُورَةِ التَّوْبَةِ، فَبَعَثَ عَلِيًّا خَلْفَهُ، فَأَخَذَهَا مِنْهُ، قَالَ:" لَا يَذْهَبُ بِهَا إِلَّا رَجُلٌ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ". قَالَ: وَقَالَ لِبَنِي عَمِّهِ:" أَيُّكُمْ يُوَالِينِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟"، قَالَ: وَعَلِيٌّ مَعَهُ جَالِسٌ، فَأَبَوْا، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أُوَالِيكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. قَالَ:" أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، قَالَ: فَتَرَكَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَقَالَ:" أَيُّكُمْ يُوَالِينِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟"، فَأَبَوْا، قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أُوَالِيكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. فَقَالَ:" أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ". قَالَ: وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِيجَةَ. قَالَ: وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ فَوَضَعَهُ عَلَى عَلِيٍّ، وَفَاطِمَةَ، وَحَسَنٍ، وَحُسَيْنٍ، فَقَالَ: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33. قَالَ: وَشَرَى عَلِيٌّ نَفْسَهُ لَبِسَ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَامَ مَكَانَهُ، قَالَ: وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَرْمُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ، وَعَلِيٌّ نَائِمٌ، قَالَ: وَأَبُو بَكْرٍ يَحْسَبُ أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ، قَالَ: فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ انْطَلَقَ نَحْوَ بِئْرِ مَيْمُونٍ، فَأَدْرِكْهُ. قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ، فَدَخَلَ مَعَهُ الْغَارَ، قَالَ: وَجَعَلَ عَلِيٌّ يُرْمَى بِالْحِجَارَةِ كَمَا كَانَ يُرْمَى نَبِيُّ اللَّهِ، وَهُوَ يَتَضَوَّرُ، قَدْ لَفَّ رَأْسَهُ فِي الثَّوْبِ لَا يُخْرِجُهُ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ كَشَفَ عَنْ رَأْسِهِ، فَقَالُوا: إِنَّكَ لَلَئِيمٌ، كَانَ صَاحِبُكَ نَرْمِيهِ فَلَا يَتَضَوَّرُ، وَأَنْتَ تَتَضَوَّرُ، وَقَدْ اسْتَنْكَرْنَا ذَلِكَ. قَالَ: وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: أَخْرُجُ مَعَكَ؟ قَالَ: فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ:" لَا"، فَبَكَى عَلِيٌّ، فَقَالَ لَهُ:" أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ، إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي". قَالَ: وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ:" أَنْتَ وَلِيِّي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي". وَقَالَ: سُدُّوا أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ، فَقَالَ: فَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا، وَهُوَ طَرِيقُهُ لَيْسَ لَهُ طَرِيقٌ غَيْرُهُ. قَالَ: وَقَالَ:" مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَإِنَّ مَوْلَاهُ عَلِيٌّ". قَالَ: وَأَخْبَرَنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْقُرْآنِ أَنَّهُ قَدْ رَضِيَ عَنْهُمْ عَنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ، فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ، هَلْ حَدَّثَنَا أَنَّهُ سَخِطَ عَلَيْهِمْ بَعْدُ؟! قَالَ: وَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ حِينَ قَالَ: ائْذَنْ لِي فَلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ. قَالَ:" أَوَكُنْتَ فَاعِلًا؟! وَمَا يُدْرِيكَ، لَعَلَّ اللَّهَ قَدْ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ".
عمرو بن میمون رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ نو آدمیوں پر مشتمل لوگوں کا ایک وفد آیا تھا اور کہنے لگا کہ اے ابوالعباس! یا تو آپ ہمارے ساتھ چلیں یا یہ لوگ ہمارے لئے خلوت کر دیں، ہم آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں ہی آپ لوگوں کے ساتھ چلتا ہوں، یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بینائی ختم ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ ان لوگوں نے گفتگو کا آغاز کیا اور بات چیت کرتے رہے لیکن ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ انہوں نے کیا کہا؟ تھوڑی دیر بعد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے: اف، تف، یہ لوگ ایک ایسے آدمی میں عیب نکال رہے ہیں جسے دس خوبیاں اور خصوصیات حاصل تھیں، یہ لوگ ایک ایسے آدمی کی عزت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب میں ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جسے اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا، جھانک کر دیکھنے والے اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے جھانکنے لگے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ چکی میں آٹا پیس رہے ہوں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آٹا کیوں نہیں پیستا؟ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو انہیں آشوب چشم کا عارضہ لاحق تھا، گویا انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور تین مرتبہ جھنڈا ہلا کر ان کے حوالے کر دیا اور وہ ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو لانے کا سبب بن گئے۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سورہ توبہ کا اعلان کرنے کے لئے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا، بعد میں ان کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ کر دیا، انہوں نے اس خدمت کی ذمہ داری سنبھال لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پیغام ایسا تھا جسے کوئی ایسا شخص ہی پہنچا سکتا تھا جس کا مجھ سے قریبی رشتہ داری کا تعلق ہو، اور میرا اس سے تعلق ہو۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے فرمایا: دنیا و آخرت میں تم میں سے کون میرے ساتھ موالات کرتا ہے؟ اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے، باقی سب نے انکار کر دیا لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں آپ کے ساتھ دنیا و آخرت کی موالات قائم کرتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے دوست ہو، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ان میں سے ایک آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور یہی صورت دوبارہ پیش آئی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد تمام لوگوں میں سب سے پہلے قبول اسلام کا اعزاز بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا لے کر سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما پر ڈالا اور فرمایا: اے اہل بیت! اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور تمہیں خوب پاک کرنا چاہتا ہے۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنا آپ بیچ دیا تھا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس شب ہجرت زیب تن کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ سو گئے، مشرکین اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تیروں کی بوچھاڑ کر رہے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہاں آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سوئے ہوئے تھے لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے ہیں اس لئے وہ کہنے لگے: اے اللہ کے نبی! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے منہ کھول کر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیر میمون کی طرف گئے ہیں، آپ انہیں وہاں جا کر ملیں، چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ چلے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں داخل ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر اسی طرح تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی تھی اور وہ تکلیف میں تھے، انہوں نے اپنا سر کپڑے میں لپیٹ رکھا تھا، صبح تک انہوں نے سر باہر نہیں نکالا، جب انہوں نے اپنے سر سے کپڑا ہٹایا تو قریش کے لوگ کہنے لگے: تم تو بڑے کمینے ہو، ہم تمہارے ساتھی پر تیر برسا رہے تھے اور ان کی جگہ تمہیں نقصان پہنچ رہا تھا، اور ہمیں یہ بات اوپری محسوس ہوئی۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لے کر غزوہ تبوک کے لئے نکلے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا؟ فرمایا: نہیں، اس پر وہ رو پڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، البتہ فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو، اور میرے لئے جانا مناسب نہیں ہے الا یہ کہ تم میرے نائب بن جاؤ۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے بعد ہر مومن کے بارے میں میرے دوست ہو۔ نیز مسجد نبوی کے تمام دروازے بند کردیئے گئے سوائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے، چنانچہ وہ مسجد میں حالت جنابت میں بھی داخل ہو جاتے تھے کیونکہ ان کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہ تھا۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا میں مولی ہوں، علی بھی اس کا مولی ہے۔ نیز اللہ نے ہمیں قرآن کریم میں بتایا ہے کہ وہ ان سے راضی ہو چکا ہے یعنی اصحاب الشجرہ سے (بیعت رضوان کرنے والوں سے)، اور ان کے دلوں میں جو کچھ ہے، اللہ سب جانتا ہے، کیا بعد میں کبھی اللہ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ ان سے ناراض ہو گیا؟ نیز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجیئے، میں اس کی گردن اڑا دوں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم واقعی ایسا کر سکتے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: تم جو مرضی عمل کرتے رہو (میں نے تمہیں معاف کر دیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اہل بدر میں سے تھے)۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو بلج، قال البخاري : فيه نظر، وأعدل الأقوال فيه: أنه يقبل حديثه فيما لا ينفرد به كما قال ابن حبان


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.