الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
The Book of The Obligations of Khumus
18. بَابُ مَنْ لَمْ يُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ:
18. باب: جو کوئی مقتول کافروں کے ساز و سامان میں خمس نہ دے۔
(18) Chapter. Not taking the Khumus from the spoils of a killed infidel.
حدیث نمبر: 3142
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن ابن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة رضي الله عنه، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، فرايت رجلا من المشركين علا رجلا من المسلمين فاستدرت حتى اتيته من ورائه حتى ضربته بالسيف على حبل عاتقه، فاقبل علي فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت، ثم ادركه الموت فارسلني فلحقت عمر بن الخطاب، فقلت: ما بال الناس، قال: امر الله ثم إن الناس رجعوا وجلس النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه فقمت فقلت من يشهد لي ثم جلست، ثم قال: من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه فقمت، فقلت: من يشهد لي ثم جلست، ثم قال: الثالثة مثله فقمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك يا ابا قتادة فاقتصصت عليه القصة، فقال: رجل صدق يا رسول الله وسلبه عندي فارضه عني، فقال: ابو بكر الصديق رضي الله عنه لاها الله إذا لا يعمد إلى اسد من اسد الله يقاتل عن الله ورسوله صلى الله عليه وسلم يعطيك سلبه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق فاعطاه فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة، فإنه لاول مال تاثلته في الإسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَاسْتَدَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ حَتَّى ضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ، قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: الثَّالِثَةَ مِثْلَهُ فَقُمْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ: رَجُلٌ صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَلَبُهُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ عَنِّي، فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَاهَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيكَ سَلَبَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ فَأَعْطَاهُ فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے ابن افلح نے، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابومحمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو (ابتداء میں) اسلامی لشکر ہارنے لگا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ مشرکین کے لشکر کا ایک شخص ایک مسلمان کے اوپر چڑھا ہوا ہے۔ اس لیے میں فوراً ہی گھوم پڑا اور اس کے پیچھے سے آ کر تلوار اس کی گردن پر ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا، اور مجھے اتنی زور سے اس نے بھینچا کہ میری روح جیسے قبض ہونے کو تھی۔ آخر جب اس کو موت نے آ ڈبوچا، تب کہیں جا کر اس نے مجھے چھوڑا۔ اس کے بعد مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا۔ لیکن مسلمان ہارنے کے بعد پھر مقابلہ پر سنبھل گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا کہ جس نے بھی کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس پر وہ گواہ بھی پیش کر دے تو مقتول کا سارا ساز و سامان اسے ہی ملے گا (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا) میں بھی کھڑا ہوا۔ اور میں نے کہا کہ میری طرف سے کون گواہی دے گا؟ لیکن (جب میری طرف سے کوئی نہ اٹھا تو) میں بیٹھ گیا۔ پھر دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (آج) جس نے کسی کافر کو قتل کیا اور اس پر اس کی طرف سے کوئی گواہ بھی ہو تو مقتول کا سارا سامان اسے ملے گا۔ اس مرتبہ پھر میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ میری طرف سے کون گواہی دے گا؟ اور پھر مجھے بیٹھنا پڑا۔ تیسری مرتبہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی ارشاد دہرایا اور اس مرتبہ جب میں کھڑا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی دریافت فرمایا، کس چیز کے متعلق کہہ رہے ہو ابوقتادہ! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارا واقعہ بیان کر دیا، تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے بتایا کہ ابوقتادہ سچ کہتے ہیں، یا رسول اللہ! اور اس مقتول کا سامان میرے پاس محفوظ ہے۔ اور میرے حق میں انہیں راضی کر دیجئیے (کہ وہ مقتول کا سامان مجھ سے نہ لیں) لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! اللہ کے ایک شیر کے ساتھ، جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے لڑے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے کہ ان کا سامان تمہیں دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر نے سچ کہا ہے۔ پھر آپ نے سامان ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ ابوقتادہ نے کہا کہ پھر اس کی زرہ بیچ کر میں نے بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا اور یہ پہلا مال تھا جو اسلام لانے کے بعد میں نے حاصل کیا تھا۔

Narrated Abu Qatada: We set out in the company of Allah's Apostle on the day (of the battle) of Hunain. When we faced the enemy, the Muslims retreated and I saw a pagan throwing himself over a Muslim. I turned around and came upon him from behind and hit him on the shoulder with the sword He (i.e. the pagan) came towards me and seized me so violently that I felt as if it were death itself, but death overtook him and he released me. I followed `Umar bin Al Khattab and asked (him), "What is wrong with the people (fleeing)?" He replied, "This is the Will of Allah," After the people returned, the Prophet sat and said, "Anyone who has killed an enemy and has a proof of that, will posses his spoils." I got up and said, "Who will be a witness for me?" and then sat down. The Prophet again said, "Anyone who has killed an enemy and has proof of that, will possess his spoils." I (again) got up and said, "Who will be a witness for me?" and sat down. Then the Prophet said the same for the third time. I again got up, and Allah's Apostle said, "O Abu Qatada! What is your story?" Then I narrated the whole story to him. A man (got up and) said, "O Allah's Apostle! He is speaking the truth, and the spoils of the killed man are with me. So please compensate him on my behalf." On that Abu Bakr As-Siddiq said, "No, by Allah, he (i.e. Allah's Apostle ) will not agree to give you the spoils gained by one of Allah's Lions who fights on the behalf of Allah and His Apostle." The Prophet said, "Abu Bakr has spoken the truth." So, Allah's Apostle gave the spoils to me. I sold that armor (i.e. the spoils) and with its price I bought a garden at Bani Salima, and this was my first property which I gained after my conversion to Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 370


   صحيح البخاري4321حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   صحيح البخاري3142حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   صحيح البخاري7170حارث بن ربعيمن له بينة على قتيل قتله فله سلبه
   صحيح البخاري2100حارث بن ربعيخرجنا مع رسول الله عام حنين فأعطاه يعني درعا فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لأول مال تأثلته في الإسلام
   صحيح مسلم3142حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   جامع الترمذي1562حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   سنن أبي داود2717حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   سنن ابن ماجه2837حارث بن ربعينفله سلب قتيل قتله يوم حنين
   المعجم الصغير للطبراني601حارث بن ربعي اللهم اغفر له ثلاثا ونفلني سلب مسعدة
   مسندالحميدي427حارث بن ربعينفلني رسول الله صلى الله عليه وسلم سلب قتيل قتلته يوم حنين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 565  
´مال غنیمت کا بیان`
«. . . 508- مالك عن يحيى بن سعيد عن عمر بن كثير بن أفلح عن أبى محمد مولى أبى قتادة عن أبى قتادة بن ربعي أنه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، قال: فرأيت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين، قال: فاستدرت له حتى أتيته من ورائه، فضربته بالسيف على حبل عاتقه حتى قطعت الدرع، قال: فأقبل على فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت، ثم أدركه الموت فأرسلني. قال: فلقيت عمر بن الخطاب فقلت: ما بال الناس؟ فقال: أمر الله، ثم إن الناس تراجعوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه قال: فقمت فقلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، ثم قال الثانية من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه قال: فقمت، ثم قلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، ثم قال ذلك الثالثة، فقمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لك يا أبا قتادة؟ فاقتصصت عليه القصة، فقال رجل من القوم: صدق يا رسول الله، وسلب ذلك القتيل عندي، فأرضه منه يا رسول الله، فقال أبو بكر: لاها الله، إذا لا يعمد إلى أسد من أسد الله يقاتل عن الله وعن رسوله فيعطيك سلبه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدق، فأعطه إياه قال أبو قتادة: فأعطانيه، فبعث الدرع، فابتعت به مخرفا فى بني سلمة، فإنه لأول مال تأثلته فى الإسلام. . . .»
. . . سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حنین والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے پھر جب ہمارا (کافروں سے) سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جس نے ایک مسلمان کو نیچے گرایا ہوا تھا تو میں پیچھے سے آیا اور اس کے کندھے پر تلوار کا وار کیا حتی کہ میں نے اس کی زرہ کاٹ دی، پس وہ میری طرف آیا، تو مجھے بھینچ کر دبا لیا حتی کہ میں نے موت کی خوشبو سونگھی یعنی مجھے مرنے کا خوف ہوا۔ پھر وہ مر گیا تو مجھے چھوڑ دیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کا حکم ہے۔ پھر لوگ واپس آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی (کافر) کو قتل کیا ہے (اور) اس کے پاس دلیل ہے تو مقتول کا سامان اسے ہی ملے گا۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری دفعہ فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہے (اور) اس کے پاس دلیل ہے تو اس کا سامان اسے ہی ملے گا۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ کہا: تو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوقتادہ! کیا بات ہے؟ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! انہوں نے سچ کہا ہے اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ یا رسول اللہ! آپ انہیں راضی کریں کہ یہ سامان مجھے دے دیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فیصلہ نہیں کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور مقتول کا سامان تجھے دے دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں (ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ) نے سچ کہا ہے، تم اس مقتول کا سامان (ابوقتادہ کو) دے دو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس نے سامان مجھے دے دیا تو میں نے زرہ بیچ کر بنوسلمہ میں ایک باغ خریدا۔ یہ اسلام میں پہلا مال غنیمت تھا جو میری جائیداد بنا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 565]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3142، ومسلم 1751، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ میدانِ جنگ میں دست بدست لڑائی میں جو مسلمان کسی کافر کو قتل کرے تو اس کافر کا سامان مسلمان کو ملتا ہے۔ کفار سے لڑائی (جہاد) کی بدولت حاصل ہونے والا مال غنیمت کہلاتا ہے جسے خلیفہ کی طرف سے مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
➋ زمین وجائیداد خریدنا جہاد اور تقوے کے خلاف نہیں ہے۔
➌ غزوۂ حنین کے شروع میں صحابۂ کرام کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے فتح میں تبدیل کردیا۔
➍ شرعی عذر یا جنگی تدبیر کے پیشِ نظر میدانِ جنگ سے محدود ومؤقت پسپائی ہو سکتی ہے۔
➎ سیدنا ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ بہت بہادر اور سچے انسان تھے۔ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر قرار دیا ہے۔
➏ مسلمان بھائی کی مدد کرنا مجاہدین کا طرۂ امتیاز ہے۔
➐ ثقہ راوی کی توثیق کرنی چاہئے جیسا کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل سے ثابت ہے۔ اس کے مفہوم مخالف سے معلوم ہوا کہ مجروح راوی پر جرح کرنا جائز ہے۔
➑ اہلِ اقتدار کو چاہئے کہ ہر صاحبِ حق تک اس کا حق پہنچانے میں ہر ممکن تعاون کریں۔
➒ زمینوں کی خرید و فروخت کا کاروبار جائز ہے بشرطیکہ اس میں دھوکا، بدنیتی اور فراڈ وغیرہ نہ ہو۔
➓ اپنا حق لینا ہر مسلمان کا بنیادی حق ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 508   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1562  
´کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث: 4322، 3143 اورصحیح مسلم کی حدیث: 1751 میں دیکھا جا سکتا ہے،
واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1562   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2717  
´جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2717]
فوائد ومسائل:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔
اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔
اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔
یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔
اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔
ان کے بارے میں اختلاف ہے۔
(نیل الأوطار: 305/7)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2717   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3142  
3142. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے، پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو مسلمانوں میں کچھ اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس دوران میں نے ایک مشرک کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر سوار ہے۔ یہ دیکھ کر میں اس کے گرد گھوما، پیچھے سے آکر میں نے اس کے کندھے پر تلوار ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا اور مجھے اتنے زور سے دبایا کہ میں نے موت کی ہوا محسوس کی۔ آخر کار اس کو موت نے آلیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اسکے بعد میں حضرت عمر ؓ سے ملا اور ان سےدریافت کیا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا لیکن جب مسلمان مقابلے میں سنبھل گئے اور واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے سکون سے بیٹھ کر فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس پر دو گواہ بھی پیش کردے تو مقتول کاسارا سازوسامان اسی کو ملے گا۔ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3142]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوا کہ مقتول کافر کا سامان قاتل مجاہد ہی کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے مگر یہ خود امیر لشکر اس کو تحقیق کرنے کے بعد دیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3142   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3142  
3142. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے، پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو مسلمانوں میں کچھ اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس دوران میں نے ایک مشرک کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر سوار ہے۔ یہ دیکھ کر میں اس کے گرد گھوما، پیچھے سے آکر میں نے اس کے کندھے پر تلوار ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا اور مجھے اتنے زور سے دبایا کہ میں نے موت کی ہوا محسوس کی۔ آخر کار اس کو موت نے آلیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اسکے بعد میں حضرت عمر ؓ سے ملا اور ان سےدریافت کیا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا لیکن جب مسلمان مقابلے میں سنبھل گئے اور واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے سکون سے بیٹھ کر فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس پر دو گواہ بھی پیش کردے تو مقتول کاسارا سازوسامان اسی کو ملے گا۔ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3142]
حدیث حاشیہ:

حنین طائف اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک وادی ہے جو مکہ مکرمہ کے مشرقی جانب تقریباً 46کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے آٹھ ہجری میں وہاں جنگ لڑی گئی جس میں ہوازن کے تیر اندازوں سے مقابلہ ہوا۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مقتول کافر کا جو سامان ہو وہ قاتل کو دیا جاتا تھا۔
اس سے خمس نہیں لیا جاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت قتادہ ؓ کو مال سلب دیا جس پر کسی اور شخص نے قبضہ کر لیا تھا لیکن جب رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ ابو قتادہ ؓ ہی قاتل ہیں تو آپ نے وہ سازو سامان لے کر ان کے حوالے کردیا رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر میں یہی قاعدہ نافذ کیا تھا پھر غزوہ حنین کے وقت بھی اسے جاری رکھا کہ سلب کا مستحق وہی ہے جو کسی کافر کو قتل کردے یا اس طرح زخمی کردے۔
کہ اس کی زندگی محال ہو۔
ایسی حالت میں جو پاس کھڑا ہوتا ہے اس کا مال سلب میں کوئی حق نہیں ہوتا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3142   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.