الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
The Book of Al-Jizya and The Stoppage of War
6. بَابُ إِخْرَاجِ الْيَهُودِ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ:
6. باب: یہودیوں کو عرب کے ملک سے نکال باہر کرنا۔
(6) Chapter. The expelling of the Jews from the Arabian Peninsula.
حدیث نمبر: 3168
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد، حدثنا ابن عيينة، عن سليمان بن ابي مسلم الاحول، سمع سعيد بن جبير، سمع ابن عباس رضي الله عنهما، يقول وما يوم الخميس ثم بكى حتى بل دمعه الحصى: يوم الخميس قلت: يا ابا عباس ما يوم الخميس؟ قال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه، فقال" ائتوني بكتف اكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ابدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع، فقالوا: ما له اهجر استفهموه، فقال: ذروني فالذي انا فيه خير مما تدعوني إليه فامرهم بثلاث، قال: اخرجوا المشركين من جزيرة العرب واجيزوا الوفد بنحو ما كنت اجيزهم والثالثة خير إما ان سكت عنها وإما ان قالها فنسيتها، قال سفيان: هذا من قول سليمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الْأَحْوَلِ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى: يَوْمُ الْخَمِيسِ قُلْتُ: يَا أَبَا عَبَّاسٍ مَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ" ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا: مَا لَهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ، فَقَالَ: ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ، قَالَ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَالثَّالِثَةُ خَيْرٌ إِمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا وَإِمَّا أَنْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا، قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا مِنْ قَوْلِ سُلَيْمَانَ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان احول نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا آپ نے جمعرات کے دن کا ذکر کرتے ہوئے کہا، تمہیں معلوم ہے کہ جمعرات کا دن، ہائے! یہ کون سا دن ہے؟ اس کے بعد وہ اتنا روئے کہ ان کے آنسووں سے کنکریاں تر ہو گئیں۔ سعید نے کہا میں نے عرض کیا، یا ابوعباس! جمعرات کے دن سے کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا کہ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف (مرض الموت) میں شدت پیدا ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے (لکھنے کا) ایک کاغذ دے دو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھ جاؤں، جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس پر لوگوں کا اختلاف ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ نبی کی موجودگی میں جھگڑنا غیر مناسب ہے، دوسرے لوگ کہنے لگے، بھلا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےکار باتیں فرمائیں گے اچھا، پھر پوچھ لو، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے میری حالت پر چھوڑ دو، کیونکہ اس وقت میں جس عالم میں ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کا حکم فرمایا، کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور وفود کے ساتھ اسی طرح خاطر تواضع کا معاملہ کرنا، جس طرح میں کیا کرتا تھا۔ تیسری بات کچھ بھلی سی تھی، یا تو سعید نے اس کو بیان نہ کیا، یا میں بھول گیا۔ سفیان نے کہا یہ جملہ (تیسری بات کچھ بھلی سی تھی) سلیمان احول کا کلام ہے۔

Narrated Sa`id bin Jubair: that he heard Ibn `Abbas saying, "Thursday! And you know not what Thursday is? After that Ibn `Abbas wept till the stones on the ground were soaked with his tears. On that I asked Ibn `Abbas, "What is (about) Thursday?" He said, "When the condition (i.e. health) of Allah's Apostle deteriorated, he said, 'Bring me a bone of scapula, so that I may write something for you after which you will never go astray.'The people differed in their opinions although it was improper to differ in front of a prophet, They said, 'What is wrong with him? Do you think he is delirious? Ask him (to understand). The Prophet replied, 'Leave me as I am in a better state than what you are asking me to do.' Then the Prophet ordered them to do three things saying, 'Turn out all the pagans from the Arabian Peninsula, show respect to all foreign delegates by giving them gifts as I used to do.' " The sub-narrator added, "The third order was something beneficial which either Ibn `Abbas did not mention or he mentioned but I forgot.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 393


   صحيح البخاري3168عبد الله بن عباسائتوني بكتف أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أمرهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4431عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أوصاهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4432عبد الله بن عباسهلموا أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده فقال بعضهم إن رسول الله قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ومنهم من يقول غير ذلك
   صحيح البخاري7366عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده قال عمر إن النبي غلبه الوجع وعندكم القرآن فحسبنا كتاب الله واختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح البخاري3053عبد الله بن عباسائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع فقالوا هجر رسول الله قال دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه أوصى عند موته بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري114عبد الله بن عباسقوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع خرج ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله وبين كتابه
   صحيح مسلم4232عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعدي فتنازعوا وما ينبغي عند نبي تنازع أوصيكم بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح مسلم4234عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لا تضلون بعده فقال عمر إن رسول الله قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح مسلم4233عبد الله بن عباسائتوني بالكتف والدواة أو اللوح والدواة أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فقالوا إن رسول الله يهجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3168  
3168. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ کہتے سنا: جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا (ہیبت ناک) تھا پھر ر وپڑے یہاں تک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس ؓ! جمعرات کا دن کیساتھا؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤ میں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟ کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟ اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3168]
حدیث حاشیہ:
اهجرالهمزة للاستفهام الإنکاري لأن معنی هجر هذي وإنما جاء من قائله استفها ما للإنکار علی من قال لاتکتبوا أي تترکوا أمر رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ولا تجعلوہ کأمر من هجر في کلامه لانه صلی اللہ علیه وسلم لایهجر الخ کذا في الطیبي۔
یعنی یہاں ہمزہ استفہام انکار کے لیے ہے۔
جس کا مطلب یہ کہ جن لوگوں نے کہا تھا کہ حضور ﷺ کو اب لکھوانے کی تکلیف نہ دو، ان سے کہا گیا کہ حضور ﷺ کو ہذیان نہیں ہوگیا ہے اس لیے آپ ﷺ کو ہذیان والے پر قیاس کرکے ترک نہ کرو۔
آپ سے ہذیان ہو یہ ناممکن ہے۔
اس سلسلہ کی تفصیلی بحث اسی پارہ میں گزرچکی ہے۔
کتاب لکھے جانے پر صحابہ کا احتلاف اس وجہ سے ہوا تھا کہ بعض صحابہ نے کہا کہ آنحضرت کو اس شدت تکلیف میں مزید تکلیف نہ دینی چاہئے۔
بعد میں خود آنحضرت ﷺخاموش ہوگئے۔
جس کا مطلب یہ کہ اگر لکھوانا فرض ہوتا تو آپ کسی کے کہنے سے یہ فرض ترک نہ کرتے، فقط برائے مصلحت ایک بات ذہن میں آئی تھی، بعد میں آپ نے خود اسے ضروری نہیں سمجھا۔
منقول ہے کہ آپ خلافت صدیقی کے بارے میں قطعی فیصلہ لکھ کر جانا چاہتے تھے تاکہ بعد میں اختلاف نہ ہو۔
اسی لیے آپ ﷺنے خود اپنے مرض الموت میں حضرت صدیق اکبر ؓ کے حوالے منبر و محراب فرما دیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3168   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3168  
3168. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ کہتے سنا: جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا (ہیبت ناک) تھا پھر ر وپڑے یہاں تک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس ؓ! جمعرات کا دن کیساتھا؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤ میں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟ کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟ اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3168]
حدیث حاشیہ:

پہلی وصیت کا مطلب یہ ہے کہ جزیرہ عرب سے کفار کو نکال دیا جائے۔
وہ اس جگہ رہائش اختیار کرسکتے ہیں نہ انھیں ادھر کا سفر ہی کرنے کی اجازت ہے۔
امام شافعی ؒ کے نزدیک جزیرہ عرب سے مراد مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور یمامہ کاعلاقہ ہے۔
ان کے نزدیک یمن اس میں داخل نہیں ہے۔
یہودی بھی ان میں شامل ہیں۔
حضرت عمر ؓنے اپنے دور میں ان سے بھی جزیرہ عرب کو پاک کردیا اور انھیں جلاوطن کردیا تھا۔

واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ جمعرات کے دن کا ہے۔
اس کے بعد آپ پیر تک زندہ رہے۔
ان ایام میں بیماری سے کچھ افاقہ بھی رہا۔
انھی دنوں آپ نے برسرمنبر انصار کے مناقب بیان فرمائے۔
اگر کوئی ضروری قابل تحریری بات ہوتی تو آپ اسے ہر گز نہ چھوڑتے۔
وہ تیسری بات جو راوی بھول گیا وہ درج ذیل باتوں میں سے کوئی ہوسکتی ہے:
۔
قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنا۔
۔
لشکر اسامہ کو روانہ کرنا۔
۔
قبر مبارک کی پوجاپاٹ نہ کرنا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3168   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.