الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
11. بَابُ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ} :
11. باب: اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کے بارے میں خبر دیں“۔
(11) Chapter. Allah’s Statement: “And tell them about the guests (the angels) of Ibrahim (Abraham).” (V.15:51).
حدیث نمبر: Q3372
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قوله: {ولكن ليطمئن قلبي}.قَوْلُهُ: {وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي}.
‏‏‏‏ فرمایا صرف میں اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے۔

حدیث نمبر: 3372
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن وسعيد بن المسيب، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" نحن احق بالشك من إبراهيم إذ قال رب ارني كيف تحيي الموتى قال اولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي سورة البقرة آية 260 ويرحم الله لوطا لقد كان ياوي إلى ركن شديد ولو لبثت في السجن طول ما لبث يوسف لاجبت الداعي".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260 وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے ‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہا کیا تم ایمان نہیں لائے ‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ‘ لیکن یہ صرف اس لیے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے۔ اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "We are more liable to be in doubt than Abraham when he said, 'My Lord! Show me how You give life to the dead." . He (i.e. Allah) slid: 'Don't you believe then?' He (i.e. Abraham) said: "Yes, but (I ask) in order to be stronger in Faith." (2.260) And may Allah send His Mercy on Lot! He wished to have a powerful support. If I were to stay in prison for such a long time as Joseph did I would have accepted the offer (of freedom without insisting on having my guiltless less declared).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 591


   صحيح البخاري4537عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي
   صحيح البخاري3372عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إ براهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي
   صحيح مسلم382عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي
   صحيح مسلم6142عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي
   سنن ابن ماجه4026عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3372  
´ماتحت الاسباب مدد مانگنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا شرک نہیں `
«. . . وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ . . .»
۔۔۔ اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3372]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں چھ مقامات پر ہے: [3372، 3375، 3387، 4537، 4694، 6992]
صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
صحیح مسلم [151 وبعد ح2370]
سنن الترمذی [3116 وقال: هذا حديث حسن]
صحیح ابن حبان [6174 دوسرا نسخه: 6207]
سنن ابن ماجہ [4026]
مشکل الآثار للطحاوی [1؍134۔ 136]
صحیح ابی عوانہ [1؍79، 80]
المستخرج لابی نعیم [1؍215 ح380]
تفسیر طبری [12؍88، 139]
المستدرک للحاکم [2؍561 ح4054 وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبي]
النسائی فى الکبریٰ [11254]
الایمان لابن مندۃ [1؍487 ح371، 1؍485 ح368، 369]
الادب المفرد للبخاری [605، 896]
تفسیر بغوی [2؍395، 396]
وشرح السنۃ لہ [1؍114، 115 ح63 وقال البغوي: هذا حديث متفق على صحته]
تاریخ بغداد [7؍182 ت3631]
اسے امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [2؍322، 326، 332، 346، 350، 8590، 384، 389، 416، 533]
وسنن سعید بن منصور [ح1097 طبعه جديده]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسے بیان کرنے والے درج ذیل ثقہ وجلیل القدر تابعین ہیں:
① ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف [صحيح بخاري: 3372 وصحيح مسلم: 382؍151 وبعد ح2370]
② سعید بن المسیب [صحيح بخاري: 3372 وصحيح مسلم: 151]
③ ابوعبید [صحيح بخاري: 3387 وصحيح مسلم: 151]
④ عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج [صحيح بخاري: 3375 وصحيح مسلم: 151 بعد ح: 2370]
اس روایت کے شواہد و تائیدی روایات کے لیے دیکھئے:
تاریخ طبری [1؍303 وسنده حسن]
ومصنف ابن ابی شیبہ [11؍523۔ 525 ح31826]
والاوسط للطبرانی [9؍375 ح8808]
والمستدرک للحاکم [2؍563 ح4059]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کی پیدائش سے پہلے یہ حدیث دنیا میں صحیح سند سے موجود تھی۔ «والحمدلله»
اس کی تائید قرآن کریم میں ہے کہ لوط علیہ السلام نے فرمایا:
«لَوْ أَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِيْ إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ»
کاش میرے پاس تم سے مقابلہ کی قوت ہوتی یا میں کسی طاقتور سہارے کی پناہ لے سکتا۔ [سورة هود: 80، تدبر قرآن 4؍133، 134]
تنبیہ بلیغ: تدبر قرآن کا مصنف امین احسن اصلاحی منکرین حدیث میں سے تھا لہٰذا اس کا ترجمہ ان منکرین حدیث پر حجت قاطعہ ہے۔
پرویز نے «ركن» کا ترجمہ سہارا کیا ہے۔ [ديكهئے لغات القرآن 780/2]
مشہور تابعی اور مفسر قرآن امام قتادہ رحمہ اللہ نے «ركن شديد» کی تشریح «العشيرة» خاندان سے کی ہے۔ [تفسير طبري 21؍52، 53 وسنده صحيح]
مضبوط قبیلے والوں کی حمایت و مدد مانگنا شرک نہیں ہے بلکہ یہ استمداد ماتحت الاسباب ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «مَنْ أَنصَارِيْ إِلَى اللَّهِ» کون میرا مددگار ہے اللہ کی راہ میں؟ [سورة الصّف: 14]
ماتحت الاسباب مدد مانگنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا شرک نہیں ہوتا۔ شرک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ میں کسی کو شریک کیا جائے یا اموات سے مافوق الاسباب مدد مانگی جائے لہٰذا منکرین حدیث کی طرف سے سیدنا لوط علیہ السلام پر شرک کا الزام باطل ومردود ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 15   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4026  
´آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ شک کرنے کے حقدار ہیں ۱؎ جب انہوں نے کہا: اے میرے رب تو مجھ کو دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (لیکن یہ سوال اس لیے ہے) کہ میرے دل کو اطمینان حاصل ہو جائے، اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، وہ زور آور شخص کی پناہ ڈھونڈھتے تھے، اگر میں اتنے دنوں تک قید میں رہا ہوتا جتنے عرصہ یوسف علیہ السلام رہے، تو جس وقت بلانے والا آیا تھا میں اسی وقت اس کے ساتھ ہو ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4026]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
انبیاء کرام علیہم السلام کا ایمان سب سے کامل ہوتا ہے۔
بعض اوقات اللہ تعالی انھیں ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرادیتا ہے جو دوسروں کے لیے غیب کی حیثیت رکھتی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہم السلام نے مردوں کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہا تو یہ شک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ علم الیقین سے عین الیقین کے درجے تک ترقی کریں۔

(2)
ہم زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اس میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہم السلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ انھیں اللہ تعالی نے موت کے بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرادیا ہے۔

(3)
حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مضبوط دنیوی سہارا ہوتا تو تم مجھ سے حیا سوز مطالبہ نہ کرتے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت لوط علیہم السلام کو اللہ تعالی پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ قوم کی اخلاقی پستی کا اظہار ہے کہ اگر میرا مضبوط دنیوی سہارا موجود ہوتا تو تم ان افراد کے ڈر سے اس بد تمیزی کی جرأت نہ کرتے لیکن تم اللہ سے نہیں ڈرتے۔
میرا اعتماد اللہ تعالی پر ہے جو تمہیں انسانوں کی نسبت کہیں زیادہ سزا دے سکتا ہے۔

(4)
حضرت یوسف علیہم السلام کو اس لیے جیل جانا پڑا تھا کہ وہ ایک جرم کے ارتکاب سے انکار کررہے تھے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔
جب حکمرانوں پر ان کا خلوص سچائی اور ان کے کردار کی عظمت واضح ہوگئی اور انھیں ضرورت محسوس ہوئی کہ آنجناب کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں تو قاصد رہائی کا حکم نامہ لے کر جیل آیا، اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کردار کا ایک اور پہلو سامنے آیا کہ انھوں نے اس وقت تک جیل سے باہر آنے سے انکار کردیا جب تک انکی بے گناہی باقاعدہ ثابت نہ ہوجائے۔
اور مجرم (عزیز مصر کی بیوی)
کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔

(5)
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کیفیت میرے ساتھ پیش آتی تو میں اس وقت جیل سے باہر آجاتا اور اللہ کی رحمت سے امید رکھتا کہ وہ کسی اور انداز میں میری برات کا اظہار فرمادے گا۔
اس ارشاد کا مقصد حضرت یوسف علیہ السلام کی استقامت اور ان کے صبر کی تعریف ہے۔

(6)
خاتم النبین ﷺ کا مقام تمام انبیاء کرام سے بلند و برتر ہے لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام کے کردار کے روشن پہلو بھی لائق تحسین ہیں۔
ان کی اہمیت وعظمت بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔

(7)
دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف بھی عظمت کردار کا ایک پہلو ہے۔
علمائے کرام کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کریں۔
ان خوبیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت کریں اور ان سے محبت رکھیں۔
جس طرح ان کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں ان اچھے کاموں کی تعریف اور ان میں تعاون بھی کریں۔
خواہ متعلقہ فرد کا تعلق ان کی پارٹی، تنظیم جماعت اور مسلک سے نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4026   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3372  
3372. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم حضرت ابراہیم ؑ سے شک کرنے کے زیادہ حق دار تھے جب انھوں نے کہا: اےمیرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ االلہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کیا: کیوں نہیں، (یقین ہے) لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرارآجائے۔ اور اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنا عرصہ رہتا جتنا حضرت یوسف ؑ رہے تو میں فوراً بلانے والے کی بات کو مان لیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3372]
حدیث حاشیہ:
یعنی قید سے چھوٹنا غنیمت سمجھتا۔
حضرت یوسف ؑ کے صبر پر آفرین ہے کہ اتنی مدت تک قید میں رہنے کے بعد بھی اس بلانے والے کے بلاوے پر نہ نکلے جو بادشاہ کی طرف سے آیا تھا اور پہلے اپنی صفائی کے خواہاں ہوئے۔
یہ آنحضرت ﷺ نے تواضع کی راہ سے فرمایا اور حضرت یوسف ؑ کا مرتبہ بڑھانے کے لئے۔
ورنہ آنحضرت ﷺ صبرواستقلال بھی کچھ کم نہ تھا۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3372   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3372  
3372. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم حضرت ابراہیم ؑ سے شک کرنے کے زیادہ حق دار تھے جب انھوں نے کہا: اےمیرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ االلہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کیا: کیوں نہیں، (یقین ہے) لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرارآجائے۔ اور اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنا عرصہ رہتا جتنا حضرت یوسف ؑ رہے تو میں فوراً بلانے والے کی بات کو مان لیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3372]
حدیث حاشیہ:

حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کا مردوں کو زندہ کرنے کا متعلق سوال کرنا شک کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ وہ مشاہدے اور معائنے سے علم میں اضافہ چاہتے ہیں تھے کیونکہ آنکھوں دیکھی چیز سے جو معرفت اور طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ استدلال سے نہیں ہوتی۔
دوسرے الفاظ میں وہ علم الیقین سے عین الیقن تک جانا چاہتے تھے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر براہیم ؑ کا سوال شک کی بنا پر ہوتا تو ہم اس شک کے زیادہ حق دار تھے لیکن جب ہمیں شک نہیں تو وہ شک نہ کرنے کے زیادہ حق دارہیں لیکن ان کا سوال مشاہدے کے لیے تھا تاکہ کسی سے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اپنا اظہار مافی ضمیر کر سکیں۔
کہا جاتا ہے۔
شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔

اسی طرح حضرت لوط ؑ جو اپنے تبلیغی مرکز "سدوم" میں غریب الدیار تھے ان کا یہاں کوئی کنبہ قبیلہ نہیں تھا بیوی بھی کافر اور بے وفا تھی ایسے حالات میں معزز مہمانوں کے ساتھ قوم نے جو طوفان بد تمیزی اٹھایا وہ انسانی عزت و شرافت کے بالکل برعکس تھا۔
اس وقت حضرت لوط ؑ نے ظاہری اسباب کے فقدان کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
کاش میرے پاس تمھارے مقابلے کے لیے قوت ہوتی یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے لیتا۔
یہ الفاظ سن کر فرشتےخاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔
آپ اتنے پریشان نہ ہوں۔
ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
"قوۃ"سے مراد طاقت جو کسی کی مدد کے بغیر انھیں حاصل ہوا اور "رکن شدید" سے وہ قوت مراد ہے جو کسی دوسرے کی مدد سے حاصل ہو۔
اللہ تعالیٰ کی مدد کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے یہاں کوئی چیز اسباب سے خالی نہیں اللہ تعالیٰ تو ہر حال اور بہرمکان مددگار فریاد رس ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدح فرمائی کہ وہ تو زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ اس در دنیا میں اعانت صرف دو میں منحصر ہے اپنی اور غیر کی۔
اس لیے ان دو کا ذکر فرمایا۔
بہر حال حضرت لوط ؑ کا مذکورہ الفاظ کہنا ظاہری اسباب کے اعتبار سے تھا بصورت دیگر ایک نبی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر قوم یا قبیلے سے کیسے مدد طلب کر سکتا ہے؟ 3۔
حضرت یوسف ؑ کے متعلق آپ نے جس قسم کے جذبات کا اظہار فرمایا وہ اپنی تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا:
آپ کے اندر تو صبر و استقلال بدرجہ اتم موجود تھا کسی نے سچ کہا ہے۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری بہر حال حضرت یوسف ؑ نے قید سے آزادی کو ٹھکرادیا۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بے گناہ ہی کی تحقیق نہ ہو جائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں کیونکہ میں کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ نہیں چاہتا کہ شاید اس معاملے میں یوسف ؑ کا بھی کچھ قصور تھا بہر حال رسول اللہ ﷺ نے حضرت یوسف ؑ کے صبر و تحمل اور ثابت قدمی و متانت کی تعریف کی ہے کہ اتنا عرصہ قید میں رہنے کے باوجود جلدی سے کام لے کر اپنی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3372   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.