الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الزيارة
159. بَابُ الزِّيَارَةِ
159. ایک دوسرے کی زیارت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 346
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا بشر بن محمد، قال‏:‏ حدثنا عبد الله بن المبارك، عن ابن شوذب قال‏:‏ سمعت مالك بن دينار يحدث، عن ابي غالب، عن ام الدرداء قالت‏:‏ زارنا سلمان من المدائن إلى الشام ماشيا، وعليه كساء واندرورد، قال‏:‏ يعني سراويل مشمرة، قال ابن شوذب‏:‏ رؤي سلمان وعليه كساء مطموم الراس ساقط الاذنين، يعني انه كان ارفش‏.‏ فقيل له‏:‏ شوهت نفسك، قال‏:‏ إن الخير خير الاخرة‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ ابْنِ شَوْذَبٍ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ دِينَارٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ قَالَتْ‏:‏ زَارَنَا سَلْمَانُ مِنَ الْمَدَائِنِ إِلَى الشَّامِ مَاشِيًا، وَعَلَيْهِ كِسَاءٌ وَانْدَرْوَرْدُ، قَالَ‏:‏ يَعْنِي سَرَاوِيلَ مُشَمَّرَةً، قَالَ ابْنُ شَوْذَبٍ‏:‏ رُؤِيَ سَلْمَانُ وَعَلَيْهِ كِسَاءٌ مَطْمُومُ الرَّأْسِ سَاقِطُ الأُذُنَيْنِ، يَعْنِي أَنَّهُ كَانَ أَرْفَشَ‏.‏ فَقِيلَ لَهُ‏:‏ شَوَّهْتَ نَفْسَكَ، قَالَ‏:‏ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الاخِرَةِ‏.‏
سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ ہم سے ملنے کے لیے مدائن سے پیدل شام آئے۔ وہ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اور پاجامہ پہن رکھا تھا جس کے پانچے چڑھے ہوئے تھے۔ ابن شوذب نے کہا: سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا گیا کہ انہوں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی۔ سر منڈا ہوا تھا اور کان لٹکے ہوئے اور بڑے بڑے تھے۔ ان سے کہا گیا: آپ نے اپنا حلیہ بگاڑ رکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اصل اچھائی تو آخرت کی اچھائی ہے۔

تخریج الحدیث: «بعض الحديث حسن: أخرجه أحمد فى الزهد: 842 و ابن أبى الدنيا فى التواضع: 149 و أبونعيم فى الحلية: 199/1 - الصحيحة: 3198»

قال الشيخ الألباني: بعض الحديث حسن


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 346  
1
فوائد ومسائل:
(۱)ابن شوذب کا قول معضل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تاہم سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ خیر و بھلائی تو درحقیقت آخرت کی ہے۔ مرفوعاً صحیح سند سے ثابت ہے (الصحیحہ:۳۱۹۸)مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اگر زیب و زینت نہ بھی ہو تو کیا نقصان؟ اس کے لیے اتنی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ اصل فکر تو آخرت کی ہونی چاہیے۔ اگر وہاں انسان کو بھلائی مل گئی تو خیر ہی خیر ہے۔
(۲) اس سے ایک دوسرے کی ملاقات کے لیے سفر کرنا ثابت ہوا بشرطیکہ یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو یا صلہ رحمی کے لیے ہو۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 346   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.