الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نکاح کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
9. باب اسْتِئْذَانِ الثَّيِّبِ فِي النِّكَاحِ بِالنُّطْقِ وَالْبِكْرِ بِالسُّكُوتِ:
9. باب: بیوہ کا نکاح میں اجازت دینا زبان سے ہے اور باکرہ کا سکوت سے۔
حدیث نمبر: 3478
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، بهذا الإسناد، وقال: الثيب احق بنفسها من وليها، والبكر يستاذنها ابوها في نفسها، وإذنها صماتها، وربما قال: وصمتها إقرارها.وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ يَسْتَأْذِنُهَا أَبُوهَا فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا، وَرُبَّمَا قَالَ: وَصَمْتُهَا إِقْرَارُهَا.
ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور کہا: "جس عورت نے شادی شدہ زندگی گزاری ہو وہ اپنے بارے میں اپنے ولی کی نسبت زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری سے اس کا والد اس کے (نکاح کے) بارے میں اجازت لے گا، اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔" اور کبھی انہوں نے کہا: "اور اس کی خاموشی اس کا اقرار ہے
امام صاحب ایک اور استاد کی سند سے مذکورہ بالا روایت میں کہ شوہر دیدہ اپنے ولی کے اعتبار سے اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے، اور اس کی اجازت، اس کی خاموشی ہے۔ اور بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا سکوت ہی اس کا اقرار ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1421


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3478  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اسلام دین فطرت ہے،
کیونکہ خالق فطرت کا نازل کردہ ہے،
اس لیے اس میں اعتدال اور توازن کو قائم رکھا گیا ہے،
جس مسئلہ کا تعلق دو فریقوں سے ہوتا ہے،
اس میں دونوں کی رعایت اور لحاظ رکھا جاتا ہے کسی ایک فریق کو دوسرے کا حق مارنے یا جبر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی،
نکاح کا مسئلہ دو فریقوں سے تعلق رکھتا ہے،
عورت اور اس کے سر پرست یعنی اس کی پرورش و پرداخت کرنے والا اس کا والد،
اس لیے شریعت اسلامیہ میں،
دونوں کی رائے اور رضا مندی کو اہمیت دی گئی ہے،
یہ بات عورت کے شرم و حیاء اور اس کے شرف کے منافی ہے،
کہ وہ اپنا نکاح خود کرے اور اس سے خرابیاں اور مفاسد پیدا ہوتے ہیں،
شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں،
صرف عورتوں کو نکاح کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینا درست نہیں ہے،
کیونکہ وہ اپنی کم عقلی کی بنا پر بد فکری کا شکار ہو جاتی ہیں،
اور صحیح فیصلہ نہیں کر پاتیں،
اور بسا اوقات ایسی جگہ شادی رچالیتی ہیں،
جو ان کے خاندان کے لیے عاراور بدنامی کا بعث بنتی ہیں،
اور لوگوں میں طبعی اور جبلی طور پر یہ بات عام ہے کہ وہ اس معاملہ میں حل و عقد کا اختیار مردوں کو دیتے ہیں،
کیونکہ تمام نفقات انھوں نے برداشت کیے ہوتے ہیں،
ولی کو نکاح میں اہمیت دینا اس کے مقام و شرف کا اقرار ہے،
اور عورت کو اختیار دینا اس کی بے حیائی اور بے شرمی کا شاخسانہ ہے،
اور ولی کو نظر انداز کر کے اس (ولی)
کا حق مارنا ہے۔
(حجۃ اللہ ج2ص127)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر عورت نکاح نہیں کر سکتی،
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک شوہر دیدہ اور بالغہ کنواری کا ولی کے بغیر نکاح کرنا صحیح ہے۔
اگرچہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ وہ ولی کی اجازت سے نکاح کرے،
فرق صرف اس قدر ہے کہ ان کے نزدیک ولی کی اجازت شرط نہیں ہے،
امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ ظاہری نے کنواری کے لیے ولی کی اجازت کو شرط قراردیا ہے،
اور شوہر دیدہ کے لیے شرط قرارنہیں دیا،
آئمہ کی آراء سے یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ اختلاف صرف ولی کی اجازت کی شرط میں ہے،
اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نکاح ولی ہی کے ذریعہ ہونا چاہیے،
عورت کے لیے یہ ٹھیک نہیں ہے کہ وہ خود اپنا نکاح کرے اور بے شرمی و بے حیائی کا مظاہرہ کرے،
اور نہ سرپرست کے لیے اس پر جبر کرنا اور اس کی رائے اور مشورہ کو نظرانداز کرنا یا اس کے مفادات کو نقصان پہنچانا درست ہے،
دونوں کو ایک دوسرے کے حق کو خوش دلی سے تسلیم کرنا اور ادا کرنا چاہیے اور باہمی مشورہ سے اس کا فیصلہ کرنا چاہیے،
اور آج کے مغربی تہذیب کےدلدادہ افراد سے پہلے یہ مسئلہ کبھی اختلافی نہیں رہا،
ہمیشہ عورت اپنے سرپرستوں کے خیرخواہانہ اور ناصحانہ طرز عمل پر مطمئن رہی ہیں۔
آج کل کی مادر پدر آزادی نے اس کو مسئلہ بنایا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3478   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.