الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
150. باب مَا جَاءَ إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ
150. باب: شام کا کھانا حاضر ہو اور نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔
Chapter: What Has Been Related About 'When Supper Is Present And The Iqamah Is Called For Salat Then Begin With Supper'
حدیث نمبر: 353
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن انس يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا حضر العشاء واقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء " قال: وفي الباب عن عائشة وابن عمر , وسلمة بن الاكوع وام سلمة، قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وعليه العمل عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر , وعمر , وابن عمر، وبه يقول احمد , وإسحاق يقولان: يبدا بالعشاء وإن فاتته الصلاة في الجماعة. قال ابو عيسى: سمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يقول في هذا الحديث: يبدا بالعشاء إذا كان طعاما يخاف فساده والذي ذهب إليه بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم اشبه بالاتباع، وإنما ارادوا ان لا يقوم الرجل إلى الصلاة وقلبه مشغول بسبب شيء، وقد روي عن ابن عباس، انه قال: لا نقوم إلى الصلاة وفي انفسنا شيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ , وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَأُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَابْنُ عُمَرَ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق يَقُولَانِ: يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ وَإِنْ فَاتَتْهُ الصَّلَاةُ فِي الْجَمَاعَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ إِذَا كَانَ طَعَامًا يَخَافُ فَسَادَهُ وَالَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَشْبَهُ بِالِاتِّبَاعِ، وَإِنَّمَا أَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومَ الرَّجُلُ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَلْبُهُ مَشْغُولٌ بِسَبَبِ شَيْءٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: لَا نَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَفِي أَنْفُسِنَا شَيْءٌ.
انس رضی الله عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز کھڑی کر دی جائے ۱؎ تو پہلے کھا لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، ابن عمر، سلمہ بن اکوع، اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ انہیں میں سے ابوبکر، عمر اور ابن عمر رضی الله عنہم بھی ہیں، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کھانا کھائے اگرچہ جماعت چھوٹ جائے۔
۴- اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پہلے کھانا کھائے گا جب اسے کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہو، لیکن جس کی طرف صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم گئے ہیں، وہ اتباع کے زیادہ لائق ہے، ان لوگوں کا مقصود یہ ہے کہ آدمی ایسی حالت میں نماز میں نہ کھڑا ہو کہ اس کا دل کسی چیز کے سبب مشغول ہو، اور ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ ہم نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگا ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 42 (672)، الأطعمة 58 (5463)، صحیح مسلم/المساجد 6 (557)، سنن النسائی/الإمامة 51 (854)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 34 (933)، (تحفة الأشراف: 1486)، مسند احمد (3/100، 110، 161، 231، 238، 249)، سنن الدارمی/الصلاة 58 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بعض لوگوں نے نماز سے مغرب کی نماز مراد لی ہے اور اس میں وارد حکم کو صائم کے لیے خاص مانا ہے، لیکن مناسب یہی ہے کہ اس حکم کی علّت کے پیش نظر اسے عموم پر محمول کیا جائے، خواہ دوپہر کا کھانا ہو یا شام کا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (933)

   صحيح البخاري672أنس بن مالكإذا قدم العشاء فابدءوا به قبل أن تصلوا صلاة المغرب لا تعجلوا عن عشائكم
   صحيح مسلم1241أنس بن مالكإذا حضر العشاء وأقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء
   جامع الترمذي353أنس بن مالكإذا حضر العشاء وأقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء
   سنن النسائى الصغرى854أنس بن مالكإذا حضر العشاء وأقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء
   سنن ابن ماجه933أنس بن مالكإذا وضع العشاء وأقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء
   بلوغ المرام188أنس بن مالكإذا قدم العشاء فابدءوا به قبل ان تصلوا المغرب
   مسندالحميدي1215أنس بن مالكإذا حضر العشاء وأقيمت الصلاة، فابدءوا بالعشاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 188  
´نمازی كو پہلے کھانا تناول کر لینا چاہئے تاکہ نماز کے خشوع میں نقص پیدا نہ ہو`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إذا قدم العشاء فابدءوا به قبل ان تصلوا المغرب . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب شام کا کھانا پیش کیا گیا ہو تو مغرب کی نماز ادا کرنے سے پہلے کھانا کھا لو . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب الحث على الخشوع في الصلاة: 188]

لغوی تشریح:
«قُدِّمَ» تقدیم سے مجہول کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں: حاضر کیا گیا، پیش کیا گیا۔
«اَلْعَشَاءُ» عین پر فتحہ اور آخر میں مد کے ساتھ ہے۔ رات کا کھانا۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے اگر کھانا تیار ہو چکا ہو (اور بھوک لگی ہو) تو پہلے کھانا تناول کر لینا چاہئے تاکہ نماز کے خشوع میں نقص پیدا نہ ہو کیونکہ بھوک کی صورت میں دھیان کھانے کی طرف ہی رہے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 188   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 854  
´جماعت چھوڑنے کے عذر کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز (جماعت) کھڑی کر دی گئی ہو، تو پہلے کھانا کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 854]
854 ۔ اردو حاشیہ: یہ تب ہے جب کھانے کی شدید حاجت ہو۔ اگر اسی طرح نماز پڑھے تو یکسوئی نہ ہو گی، طبیعت بے چین رہے گی۔ یا پھر کھانا ضائع ہونے کا خدشہ ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے روکا ہے۔ یہ دو باتیں نہ ہوں تو نماز پہلے پڑھنی چاہیے جیسا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گوشت کھا رہے تھے کہ نماز کی اطلاع دی گئی تو آپ نے چھری رکھ دی اور نماز کے لیے چلے گئے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 208]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 854   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث933  
´جب نماز کی اقامت ہو جائے اور کھانا سامنے ہو تو کیا کرے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا سامنے رکھ دیا جائے، اور نماز بھی شروع ہو رہی ہو تو پہلے کھانا کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 933]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب بھوک لگی ہو اورکھانا تیار ہو تو نمازکے دوران میں توجہ کھانے کیطرف رہے گی۔
اور نماز کما حقہ ادا نہیں ہوسکے گی۔
اس لئے بھوک کی صورت میں پہلے کھانا کھا لینا بہتر ہے۔
تاکہ دلجمعی سے نماز ادا کی جاسکے۔

(2)
اگر کھانا تیار ہونے میں دیر ہو تو نماز پڑھ لینی چاہیے۔
کیونکہ اس صورت میں نماز میں تاخیر سے کوئی فائدہ نہیں۔

(3)
دین اسلام دین فطرت ہے۔
اس میں جسم اور روح دونوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے ایک حسین توازن قائم کردیا گیا ہے۔
ہندو جوگیوں یا عیسائی راہبوں کی طرح محض جسم کو تکلیف دینے کو نیکی سمجھ لینا گمراہی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 933   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 353  
´شام کا کھانا حاضر ہو اور نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔`
انس رضی الله عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز کھڑی کر دی جائے ۱؎ تو پہلے کھا لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 353]
اردو حاشہ:
1؎:
بعض لوگوں نے نماز سے مغرب کی نماز مراد لی ہے او اس میں وارد حکم کو صائم کے لیے خاص مانا ہے،
لیکن مناسب یہی ہے کہ اس حکم کی علّت کے پیش نظر اسے عموم پر محمول کیا جائے،
خواہ دوپہر کا کھانا ہو یا شام کا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 353   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.