الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
23. بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
23. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان۔
(23) Chapter. The description of the Prophet (p.b.u.h).
حدیث نمبر: 3558
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يسدل شعره وكان المشركون يفرقون رءوسهم، فكان اهل الكتاب يسدلون رءوسهم، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب موافقة اهل الكتاب فيما لم يؤمر فيه بشيء، ثم فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَسْدِلُ شَعَرَهُ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ، فَكَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدِلُونَ رُءُوسَهُمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءٍ، ثُمَّ فَرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سر کے آگے کے بالوں کو پیشانی پر) پڑا رہنے دیتے تھے اور مشرکین کی یہ عادت تھی کہ وہ آگے کے سر کے بال دو حصوں میں تقسیم کر لیتے تھے (پیشانی پر پڑا نہیں رہنے دیتے تھے) اور اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سر کے آگے کے بال پیشانی پر پڑا رہنے دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات میں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم آپ کو نہ ملا ہوتا۔ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے (اور حکم نازل ہونے کے بعد وحی پر عمل کرتے تھے) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سر میں مانگ نکالنے لگے۔

Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle used to let his hair hang down while the infidels used to part their hair. The people of the Scriptures were used to letting their hair hang down and Allah's Apostle liked to follow the people of the Scriptures in the matters about which he was not instructed otherwise. Then Allah's Apostle parted his hair.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 758


   صحيح البخاري3558عبد الله بن عباسيسدل شعره وكان المشركون يفرقون رءوسهم فكان أهل الكتاب يسدلون رءوسهم وكان رسول الله يحب موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر فيه بشيء ثم فرق رسول الله رأسه
   صحيح البخاري3944عبد الله بن عباسيسدل شعره وكان المشركون يفرقون رءوسهم وكان أهل الكتاب يسدلون رءوسهم وكان النبي يحب موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر فيه بشيء ثم فرق النبي رأسه
   صحيح البخاري5917عبد الله بن عباسيحب موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر فيه وكان أهل الكتاب يسدلون أشعارهم وكان المشركون يفرقون رءوسهم فسدل النبي ناصيته ثم فرق بعد
   صحيح مسلم6062عبد الله بن عباسسدل رسول الله ناصيته ثم فرق بعد
   سنن أبي داود4188عبد الله بن عباستعجبه موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر به فسدل رسول الله ناصيته ثم فرق بعد
   سنن النسائى الصغرى5240عبد الله بن عباسيسدل شعره وكان المشركون يفرقون شعورهم وكان رسول الله يحب موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر فيه بشيء ثم فرق رسول الله بعد ذلك
   سنن ابن ماجه3632عبد الله بن عباسسدل رسول الله ناصيته ثم فرق بعد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3632  
´کان کی لو سے بال نیچے رکھنے اور چوٹیاں رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکائے رکھتے تھے، اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی پیشانی پر بال لٹکائے رکھتے، پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3632]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مکہ مکرمہ میں مشرکین کی اکثریت تھی۔
رسول اللہ ﷺ ان سے امتیاز کے لئے اہل کتا ب کا انداز اختیار فرما لیتے تھے۔
جب رسول ﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ میں موجود کثیر اہل کتاب سے فرق کرنے کے لئے دوسرا انداز اختیار فرمایا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا ہر عمل وحی کی روشنی میں ہوتا تھا اس لئے بال مانگ نکالے بغیر کھلے چھوڑنا منسوخ ہے اور مانگ نکالنا مسنون اور ثواب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3632   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4188  
´بال میں مانگ نکالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا «سدل» کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4188]
فوائد ومسائل:
واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا مانگ نکالنا اللہ کے حکم سےتھا، اگرچہ مشرکین بھی نکالا کرتے تھے۔
پس مشرکین اور کفار کی وہی مشابہت نا جائز ہے جو ان کی دینی اور خاص قومی علامت ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4188   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3558  
3558. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر کے بال لٹکائے رکھتے جبکہ مشرکین اپنے سر کے بالوں کی مانگ نکالتے لیکن اہل کتاب اپنے سر کے بالوں کو لٹکاتے تھے۔ اوررسول اللہ ﷺ کو جس بات کے متعلق کوئی حکم نہ آتا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے۔ بعد میں رسول اللہ ﷺ بھی سر میں مانگ نکالنے لگے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3558]
حدیث حاشیہ:
اور پیشانی پر لٹکانا چھوڑدیا۔
شاید آپ کو حکم آگیا ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3558   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3558  
3558. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر کے بال لٹکائے رکھتے جبکہ مشرکین اپنے سر کے بالوں کی مانگ نکالتے لیکن اہل کتاب اپنے سر کے بالوں کو لٹکاتے تھے۔ اوررسول اللہ ﷺ کو جس بات کے متعلق کوئی حکم نہ آتا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے۔ بعد میں رسول اللہ ﷺ بھی سر میں مانگ نکالنے لگے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3558]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے پسند تھی کہ وہ کم ازکم آسمانی دین پر عمل پیراہونے کے دعویدار تھے اور یہ بھی مقصود تھا کہ شاید وہ اس سلوک سے اسلام کے قریب آجائیں،لیکن جب آپ ان کے اسلام سے مایوس ہوگئے اور ان پر بدبختی غالب آگئی توآپ کو بہت سے معاملات میں ان کی مخالفت کا حکم ہوا۔
صوم یوم عاشوراء استقبال قبلہ،حائضہ عورت سے میل جول اور یوم السبت اسی بنا پر تھی۔
اور مشرکین کے ہاں بت پرستی کاچرچا تھا،اس لیے ان کی مخالفت فرماتے لیکن یہ مخالفت ان معاملات میں ہوتی تھی جن میں سنت ابراہیمی کا پتہ نہ چلتا تھا۔
جب آپ کو کسی معاملے کے متعلق پتہ چل جاتا کہ ایسا کرنا سنتِ ابراہیم ؑ ہے تو مشرکین کی موافقت کی پروا نہیں کرتے تھے،اس کی مثالیں مناسک حج سے واضح ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں میں کنگھی کرکے پیشانی پر چھوڑدیتے تھے لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔
(مسند أحمد: 215/3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے پہلے خوشبو لگاتے تو اس کی چمک دیر تک آپ کی مانگ میں برقراررہتی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اب بھی اس چمک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں دیکھ رہی ہوں جو احرام کے وقت لگائی تھی۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1538)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3558   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.