الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
24. بَابُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَنَامُ عَيْنُهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ:
24. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ظاہر میں سوتی تھیں لیکن دل غافل نہیں ہوتا تھا۔
(24) Chapter. The eyes of the Prophet (p.b.u.h) used to sleep, but his heart used not to sleep.
حدیث نمبر: Q3569
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
رواه سعيد بن ميناء عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم.رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اس کی روایت سعید بن میناء نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

حدیث نمبر: 3569
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن سعيد المقبري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، انه سال عائشة رضي الله عنها، كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ قالت:" ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة يصلي اربع ركعات، فلا تسال عن حسنهن وطولهن ثم يصلي اربعا، فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، فقلت: يا رسول الله، تنام قبل ان توتر، قال: تنام عيني ولا ينام قلبي".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ قَالَتْ:" مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ، قَالَ: تَنَامُ عَيْنِي وَلَا يَنَامُ قَلْبِي".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رمضان شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد یا تراویح) کی کیا کیفیت ہوتی تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک یا دوسرے کسی بھی مہینے میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے (ان ہی کو تہجد کہو یا تراویح) پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے، وہ رکعتیں کتنی لمبی ہوتی تھیں۔ کتنی اس میں خوبی ہوتی تھیں اس کے بارے میں نہ پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے۔ یہ چاروں بھی کتنی لمبی ہوتیں اور ان میں کتنی خوبی ہوتی۔ اس کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے کیوں سو جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔

Narrated Abu Salama bin `Abdur-Rahman: That he asked `Aisha "How was the prayer of Allah's Apostle in the month of Ramadan?" She replied, "He used not to pray more than eleven rak`at whether in Ramadan or in any other month. He used to offer four rak`at, let alone their beauty and length, and then four rak`at, let alone their beauty and length. Afterwards he would offer three rak`at. I said, 'O Allah's Apostle! Do you go to bed before offering the witr prayer?' He said, 'My eyes sleep, but my heart does not sleep."'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 769


   صحيح البخاري3569عائشة بنت عبد اللهتنام عيني ولا ينام قلبي
   صحيح البخاري1147عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   صحيح البخاري2013عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   صحيح مسلم1723عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   جامع الترمذي439عائشة بنت عبد اللهعيني تنامان ولا ينام قلبي
   سنن النسائى الصغرى1698عائشة بنت عبد اللهعيني تنام ولا ينام قلبي
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم159عائشة بنت عبد الله إن عيني تنامان ولا ينام قلبي
   بلوغ المرام298عائشة بنت عبد الله يا عائشة إن عيني تنامان ولا ينام قلبي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2013  
´رمضان غیر رمضان گیارہ رکعات پڑھنا `
«. . . كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً . . .»
۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔ [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ: 2013]

فوائد و مسائل:
اعتراض: اور اگر کوئی کہے کہ یہاں تہجد مراد ہے نہ کہ تراویح۔
جواب: تو کہا جائے گا کہ قدیمی اصطلاح میں قیام رمضان تراویح ہی کو کہا جاتا تھا۔ [ملاحظه هو كتب فقه مثلاً هدايه وغيره]
اور یہاں جو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام رمضان کے متعلق دریافت کیا گیا تھا، اس سے مراد تراویح ہی ہے، جس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ آپ گیارہ ہی پڑھتے تھے اور غیر رمضان کی قید لگانے سے یہ بات ظاہر کر دی گئی کہ جو آپ کا غیر رمضان میں تہجد تھا، وہی آپ کی رمضان میں تراویح تھیں۔

نیز صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں بھی ایک حدیث شریف مروی ہے جس سے بالکل واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ تراویح آٹھ ہی پڑھتے تھے۔ [صحيح ابن حبان 920، صحيح ابن خزيمه 1070، ابن منذر الاوسط 2606، طبراني جامع صغير: 1901] گو اس حدیث شریف کی سند میں ایک راوی بنام عیسٰی بن جاریہ واقع ہے اور اس کے متعلق کچھ جرحیں منقول ہیں لیکن حافظ ذہبی جو «من اهل استقراء التام في نقد الرجال» ہیں، انہوں نے اس حدیث شریف کے حق میں فرمایا ہے کہ «اسناده وسط» ۔ [ميزان الاعتدال 311/3]

باقی رہی وہ حدیث جو مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے وہ بالکل ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے اور اس کے متعلق:
◈ شیخ ابن ہمام حنفی نے یوں لکھا ہے کہ:
«واما ما روي ابن ابي شيبة والطبراني وعند البيهقي من حديث ابن عباس انه عليه الصلوة والسلام كان يصلي فى رمضان عشرين ركعة سوي الوتر فضعيف بابي شيبة ابراهيم بن عثمان متفق على ضعفه مع مالفته للصحيح» [فتح القدير: 467/1، علامه زيلعي نصب الرايه:153/2]
ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور طبرانی نے اور بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے وہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان واقع ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے۔
↰ علاوہ ازیں یہ حدیث باوجود ضعیف ہونے کے صحیح حدیث (یعنی بخاری شریف کی مذکورہ حدیث شریف) کے مخالف بھی ہے۔

اور لیجئیے فاروق اعظم عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
چنانچہ موطا امام مالک میں سائب بن یزید سے مروی ہے کہ:
«أمر عمر بن الخطاب أبي بن كعب وتميما الداري أن يقوما للناس بإحدى عشرة ركعة» [موطا امام مالك: 98]
عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان شریف میں گیارہ رکعت پڑھائیں۔
معلوم ہوا کہ مسنون آٹھ ہی رکعتیں ہیں نہ اس سے کم نہ اس سے بیش۔
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 46   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 2013  
´رمضان غیر رمضان گیارہ رکعات پڑھنا `
«. . . كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً . . .»
۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔ [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ: 2013]

فقہ الحدیث
ہمارے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
دلیل نمبر
❀ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
«كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ الخ [صحيح مسلم: 254/1 ح 1718]

دلیل نمبر
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: «ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة» إلخ رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ الخ۔ [صحيح بخاري: 229/1 ح 2013، عمدة القاري: 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
ایک اعتراض:
اس حدیث کا تعلق تہجد کے ساتھ ہے؟
جواب: تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً:
● صحیح بخاری، «كتاب الصوم» (روزے کی کتاب) «كتاب صلوة التراويح» (تراویح کی کتاب) «باب فضل من قام رمضان» (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی: [ص 141]، باب «قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل»
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے:
«قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح»
یعنی: قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] «باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان» ۔
دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً:
◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه: 153/2]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه: 203/1]
◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير: 467/1، طبع دار الفكر]
◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري: 128/11]
◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف: ص 64 باختلاف يسير]
دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ:
تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں، ان کا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 رکعات تراویح [3، 20] پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد [3، 8] پڑھی۔ (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے)
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا وتران فى ليلة» ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔ [ترمذي: 107/1 ح 470، ابوداود: 1439، نسائي: 1678، صحيح ابن خزيمه: 1101، صحيح ابن حبان: 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا:
«هذا حديث حسن غريب»
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے: [فیض الباری 420/2]، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کے لئے دیکھئے: [فیض الباری 420/2]
دلیل ⑨ متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نماز تراویح پڑھ لی ہو۔ [قيام الليل للمروزي: بحواله فيض الباري: 420/2]
↰ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔
دلیل ⑩ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی روایت: «صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات والوتر» الخ بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آ رہا ہے، لہٰذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔
«وتلك عشرة كاملة» ۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ 5، حدیث\صفحہ نمبر: 28   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 159  
´تعداد رکعات قیام رمضان`
«. . . 417- وعن سعيد بن أبى سعيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن أنه أخبره أنه سأل عائشة أم المؤمنين: كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان؟ فقالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدى عشرة ركعة يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، قالت عائشة: فقلت: يا رسول الله أتنام قبل أن توتر؟ فقال: يا عائشة، إن عيني تنامان ولا ينام قلبي. . . .»
. . . ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے مگر ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں نہ پوچھو۔ پھر چار پڑھتے مگر ان کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ وتر سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 159]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2013، ومسلم 738، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ رمضان میں تراویح کی نماز گیارہ رکعتیں ہے اور یہی نماز غیر رمضان میں تہجد کہلاتی ہے۔ اس حدیث سے درج ذیل علماء نے تراویح مسئلہ ثابت کیا ہے:
◄ بخاری [صحيح بخاري مع عمدة القاري ج11 ص128 ح2013]
◄ بیہقی [2/495، 496]
◄ زیلعی [نصب الرايه 2/153،]
◄ ابن حجر العسقلانی [الدرايه 1/203]
◄ عینی [عمدة القاري 11/128]
◄ سیوطی [الحاوي للفتاوي 1/348] اور ابن ہمام [فتح القدير 1/467]
◄ ابوالعباس أحمد بن ابراہیم القرطبی (متوفی 656ھ) فرماتے ہیں: اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں، انہوں نے اس (مسئلے) میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی حدیث سابق سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم ج2 ص390]
➋ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب تعداد رکعاتِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ اور الموطا احادیث ِ سابقہ: 36، 417
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 417   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 2013  
´گیارہ رکعت تراویح `
. . . انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ/ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:/ ح: 2013]

فوائد و مسائل
اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں:
اہل سنت بیس تراویح سے کم کے قائل نہیں۔
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۴]
7 تبصرہ: 7
قاضی ابوبکر بن العربی المالکی (متوفی ۵۴۳؁ھ) فرماتے ہیں:
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں۔
[عارضة الاحوذي ۴/۱۹ ح ۸۰۶، تعداد ركعاتِ قيام ر مضان كا تحقيقي جائزه ص ۸۶]
کیا قاضی صاحب اہل سنت سے خارج تھے؟

علامہ قرطبی (متوفی ۶۵۶؁ھ) لکھتے ہیں:
اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں۔
[المفهم من تلخيص كتاب مسلم ۲/۳۹۰، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۶]

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے …
[مختصر قيام الليل للمروزي ص ۲۰۲، ۲۰۳، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۵]
کیا یہ سب اہل سنت سے خارج تھے؟
   مذید تشریحات، حدیث\صفحہ نمبر: 0   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 298  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں ایسی حسن اور خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کا کیا کہنا۔ پھر چار رکعات ادا فرماتے بس ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں کیا پوچھتے ہو پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ وتر ادا کئے بغیر سو جاتے ہیں۔ فرمایا عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 298»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب قيام النبي صلي الله عليه وسلم بالليل في رمضان وغيره، حديث:1147، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل، حديث:738.»
تشریح:
1.اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوتے ہیں: 1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نہیں سوتا تھا‘ صرف آنکھیں سوتی تھیں۔
اور یہ آپ کی خصوصیت تھی بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: تمام انبیاء کے دل جاگتے اور آنکھیں سوتی ہیں۔
(صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم تنام عینہ ولاینام قلبہ‘ حدیث: ۳۵۷۰) 2. گہری نیند جس میں دل غافل ہو جائے‘ ناقض وضو ہے۔
3. نماز تہجد عمدہ طریقے سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہیے۔
4.ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح گیارہ رکعت ہی پڑھی ہے۔
اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت قابل ترجیح ہے‘ اس لیے کہ آپ یہ نماز گھر ہی میں ادا فرمایا کرتے تھے۔
آپ کے وہ اعمال جو آپ عموماً گھر میں سرانجام دیتے تھے بالخصوص رات کے اعمال ‘ ان کی صحیح خبر اہل خانہ ہی کو ہو سکتی ہے۔
بیس رکعت تراویح کے متعلق ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔
عبد بن حمید اور طبرانی نے ابوشیبہ‘ ابراہیم بن عثمان‘ عن الحکم‘ عن مقسم‘ عن ابن عباس کے طریق سے جو روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت تراویح پڑھی‘ وہ سخت ضعیف ہے کیونکہ ابوشیبہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام احمد‘ ابن معین‘ امام بخاری‘ امام مسلم‘ ابوداود‘ ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ سبھی کی یہ رائے ہے کہ یہ شخص ضعیف ہے۔
امام شعبہ رحمہ اللہ نے تو اسے کذاب قرار دیا ہے۔
اس کے مقابل صحیح مرفوع روایات میں آٹھ رکعت تراویح کا ذکر ہے‘ اس لیے تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے۔
علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں یہی کہا ہے کہ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ رکعات ہے اور اس سے زائد مستحب اور نفل ہیں۔
اسی طرح علامہ محمد انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے عرف الشذی میں کہا ہے کہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح آٹھ رکعت ہی پڑھی ہے اور کسی روایت سے یہ بھی ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں۔
5. اس حدیث کے آخری حصے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد کی دس رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور آخر میں ایک وتر پڑھا۔
یوں یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔
6. نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے کبھی تیرہ رکعت بھی پڑھیں ہیں۔
جس میں آٹھ نفل اور پانچ وتر ہوتے یا پھر فجر کی دو سنتیں ملا کر ۱۳ رکعتیں ہوتیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 298   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 439  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کا بیان۔`
ابوسلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کیسی ہوتی تھی؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد رمضان میں اور غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎، آپ (دو دو کر کے) چار رکعتیں اس حسن خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کو نہ پوچھو، پھر مزید چار رکعتیں (دو، دو کر کے) پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کو بھی نہ پوچھو ۲؎، پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 439]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ تراویح گیارہ رکعت ہے،
اور تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی چیز ہے۔

2؎:
یہاں نہی (ممانعت) مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔

3؎:
دل نہیں سوتا کا مطلب ہے کہ آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا،
کیونکہ دل بیدار رہتا تھا،
یہ نبی اکرم ﷺ کے خصائص میں سے ہے،
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں اپنے اٹھ جانے کا یقین ہو اسے چاہئے کہ وتر عشاء کے ساتھ نہ پڑھے،
تہجد کے آخر میں پڑھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 439   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3569  
3569. حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں کس قدر اور کس طریقے سے نماز پڑھتے تھے؟انھوں نے فرمایا: آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے ان کی خوبصورتی اورطوالت کا حال مت پوچھو۔ پھر چار رکعات پڑھتے ان کے بھی حسن اوردرازی کا حال مت پوچھیں۔ پھر تین رکعات پڑھتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ وترپڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟تو آپ نے فرمایا: میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3569]
حدیث حاشیہ:
رمضان شریف میں اسی نماز کو تراویح کے نام سے موسوم کیا گیا اور غیر رمضان میں یہ نماز تہجد کے نام سے مشہور ہوئی۔
ان کو الگ الگ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
آپ رمضان ہو یا غیر رمضان تراویح یا تہجد گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے جن میں آٹھ رکعت نفل نماز اور تین وتر شامل ہوتے تھے۔
اس صاف اور صریح حدیث کے ہوتے ہوئے آٹھ رکعت تراویح کو خلاف سنت کہنے والے لوگوں کو اللہ نیک سمجھ عطا فرمائے کہ وہ ایک ثابت شدہ سنت کے منکر بن کر فساد برپا کرنے سے باز رہیں۔
آمین۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3569   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.