الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لعان کا بیان
The Book of Invoking Curses
حدیث نمبر: 3748
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا يحيي بن يحيي ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، واللفظ ليحيى، قال يحيي: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " للمتلاعنين حسابكما على الله، احدكما كاذب لا سبيل لك عليها "، قال: يا رسول الله، مالي؟ قال: " لا مال لك، إن كنت صدقت عليها، فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت عليها، فذاك ابعد لك منها ". قال زهير في روايته: حدثنا سفيان، عن عمرو، سمع سعيد بن جبير، يقول: سمعت ابن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم.وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي؟ قَالَ: " لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا ". قَالَ زُهَيْرٌ فِي رِوَايَتِهِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
3748. یحییٰ بن یحییٰ، ابوبکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے ہمیں حدیث بیان کی۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں، یحییٰ نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار) سے خبر دی جبکہ دوسروں نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی۔۔ انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں سے فرمایا: تم دونوں کا (اصل) حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ (اب) تمہارا اس (عورت) پر کوئی اختیار نہیں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا مال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے کوئی مال نہیں، اگر تم نے سچ بولا ہے تو یہ اس کے عوض ہے جو تم نے (اب تک) اس کی شرمگاہ کو اپنے لیے حلال کیے رکھا، اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تو یہ (مال) تمہارے لیے اس کی نسبت بھی بعید تر ہے۔ زہیر نے اپنی روایت میں کہا: ہمیں سفیان نے عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور الفاظ یحییٰ کے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں کو فرمایا: تمہارا محاسبہ اللہ کرے گا اور تم میں سے ایک بہرحال جھوٹا ہے، اب تمہارا اس عورت پر کوئی حق نہیں ہے۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا مال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا کوئی مال نہیں ہے، اگر تم نے اس کے بارے میں سچ بولا ہے تو وہ اسے ملے گا کیونکہ تم نے اس کی شرم گاہ کو اپنے لیے روا کر لیا ہے (اس سے فائدہ اٹھا چکے ہو) اور اگر تم نے اس پر افترا باندھا ہے، تو اس کے سبب تم اس سے بہت دور ہو چکے ہو۔ زہیر کی روایت میں عمرو کے سعید سے اور سعید کے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سماع کی تصریح ہے، عنعنہ نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1493

   صحيح البخاري5306عبد الله بن عمرأحلفهما النبي فرق بينهما
   صحيح البخاري5349عبد الله بن عمريعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فرق بينهما
   صحيح البخاري5313عبد الله بن عمرفرق بين رجل وامرأة قذفها وأحلفهما
   صحيح البخاري4748عبد الله بن عمرتلاعنا كما قال الله قضى بالولد للمرأة فرق بين المتلاعنين
   صحيح البخاري6748عبد الله بن عمررجلا لاعن امرأته في زمن النبي انتفى من ولدها فرق النبي بينهما ألحق الولد بالمرأة
   صحيح البخاري5311عبد الله بن عمريعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا وقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فرق بينهما
   صحيح البخاري5314عبد الله بن عمرلاعن النبي بين رجل وامرأة من الأنصار فرق بينهما
   صحيح البخاري5315عبد الله بن عمرلاعن بين رجل وامرأته انتفى من ولدها فرق بينهما ألحق الولد بالمرأة
   صحيح البخاري5312عبد الله بن عمرحسابكما على الله أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها قال مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك
   صحيح مسلم3752عبد الله بن عمرفرق رسول الله بينهما ألحق الولد بأمه قال نعم
   صحيح مسلم3746عبد الله بن عمرتلاهن عليه ووعظه وذكره وأخبره أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة قال لا والذي بعثك بالحق ما كذبت عليها ثم دعاها فوعظها وذكرها وأخبرها أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة قالت لا والذي بعثك بالحق إنه لكاذب فبدأ بالرجل فشهد أربع شهادات بالله إنه لمن الص
   صحيح مسلم3753عبد الله بن عمرلاعن رسول الله بين رجل من الأنصار وامرأته فرق بينهما
   صحيح مسلم3751عبد الله بن عمرفرق نبي الله بين أخوي بني العجلان
   صحيح مسلم3749عبد الله بن عمرالله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب
   صحيح مسلم3748عبد الله بن عمرحسابكما على الله أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها قال يا رسول الله مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك منها
   جامع الترمذي1202عبد الله بن عمرلو أن أحدنا رأى امرأته على فاحشة كيف يصنع إن تكلم تكلم بأمر عظيم وإن سكت سكت على أمر عظيم قال فسكت النبي فلم يجبه فلما كان بعد ذلك أتى النبي فقال إن الذي سألتك عنه قد ابتليت به فأنزل الله هذه الآيات التي في سورة النور
   جامع الترمذي1203عبد الله بن عمرفرق النبي بينهما ألحق الولد بالأم
   جامع الترمذي3178عبد الله بن عمرووعظها وذكرها وأخبرها أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة فقالت لا والذي بعثك بالحق ما صدق فبدأ بالرجل فشهد أربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين والخامسة أن لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين ثم ثنى بالمرأة فشهدت أربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين والخامسة أن
   سنن أبي داود2259عبد الله بن عمرفرق رسول الله بينهما ألحق الولد بالمرأة
   سنن أبي داود2257عبد الله بن عمرلا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذلك أبعد لك
   سنن أبي داود2258عبد الله بن عمرالله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب يرددها ثلاث مرات فأبيا فرق بينهما
   سنن النسائى الصغرى3507عبد الله بن عمرلاعن رسول الله بين رجل وامرأته فرق بينهما وألحق الولد بالأم
   سنن النسائى الصغرى3506عبد الله بن عمرحسابكما على الله أحدكما كاذب ولا سبيل لك عليها قال يا رسول الله مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك
   سنن النسائى الصغرى3505عبد الله بن عمرالله يعلم إن أحدكما كاذب فهل منكما تائب قال لهما ثلاثا فأبيا فرق بينهما
   سنن النسائى الصغرى3504عبد الله بن عمرفرق رسول الله بين أخوي بني العجلان
   سنن النسائى الصغرى3503عبد الله بن عمرالذي سألتك ابتليت به فأنزل الله هؤلاء الآيات في
   سنن ابن ماجه2069عبد الله بن عمرفرق رسول الله بينهما ألحق الولد بالمرأة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم371عبد الله بن عمر وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما والحق الولد بالمراة
   بلوغ المرام937عبد الله بن عمرحسابكما على الله ،‏‏‏‏ أحدكما كاذب ،‏‏‏‏ لا سبيل لك عليها
   مسندالحميدي687عبد الله بن عمرحسابكما على الله، أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها
   مسندالحميدي688عبد الله بن عمرفرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أخوي بني عجلان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 371  
´لعان کا بیان`
«. . . 232- وبه: أن رجلا لاعن امرأته فى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وألحق الولد بالمرأة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر اس عورت کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی اور بچہ ماں کو سونپ دیا یعنی بچہ ماں کی طرف منسوب ہوا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 371]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5315، ومسلم 8/1494، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ لعان کیلئے دیکھئے: حدیث سابق: 6
➋ لعان شدہ عورت کے بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف ہوتی ہے۔ اس بچے کو اس عورت کے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا لہٰذا یہ بچہ لعان والے باپ کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا اور نہ اس کا باپ اس کا وارث ہوتا ہے بلکہ اس کی ماں عصبہ ہوتی ہے۔
➌ صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی لہٰذا جدائی کا سبب طلاق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے لیکن یہ قول محل نظر ہے۔
➍ جو شخص اپنی بیوی سے لعان کر تا ہے اور اس پر زنا کی تہمت لگا تا ہے تو اس شخص پر حد قذف نہیں لگتی۔
➎ قول راجح میں زنا کا عینی گواہ قاذف کے حکم میں نہیں ہے اگر چہ چار کا نصاب بھی پورا نہ ہو۔
➏ حاکم پر لازم ہے کہ شرعی احکامات طاقت سے نافذ کرے۔
➐ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور لعان نہ کرے تو اسے (شوہر کو) کوڑے لگیں گے۔ دیکھئے: [التمهيد 15/38 بحواله ابن ابي شيبه عن الشعبي وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 232   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2069  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا، اور اس کے بچے کا انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2069]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لعان سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد یہ مرد اس عورت سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔

(2)
  لعان کی صورت میں عورت کا خاوند بچے کا باپ نہیں کہلائے گا۔
بچہ اس مرد کا وارث بھی نہیں ہوگا، البتہ عورت کےماں ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لیے وہ اپنی ماں اور ننھیالی رشتے داروں کا وارث ہوگا اور وہ اس کے وارث ہوں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2069   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1202  
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1202]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لعان کا حکم آیت کریمہ ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء﴾ (النور: 6) میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچا ہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو،
اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو،
ایسا کہنے سے شوہر حد قذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1202   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2257  
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا: تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2257]
فوائد ومسائل:
لعان کی صورت میں شوہرکوحق سے کچھ نہیں ملے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2257   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3748  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ لعان کی صورت میں مرد اپنی بیوی سے مہر واپس نہیں لے سکتا۔
کیونکہ اگر وہ اپنے الزام میں سچا ہے تو وہ اس سے اس کے عوض فائدہ اٹھا چکا ہے۔
اور اگر الزام میں جھوٹا ہے تو پھر تو مہر کے مطالبہ کا کوئی حق ہی نہیں ہے اگر وہ غیر مدخولہ ہے تو پھر جمہور کے نزدیک مطلقہ کی طرح آدھا مہر ملے گا ابو زناد،
حماد اور حکم کے نزدیک پورا مہر ملے گا،
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کچھ نہیں ملے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3748   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.