الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
شمائل ترمذي کل احادیث 417 :حدیث نمبر
شمائل ترمذي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کا بیان
5. مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس سال اقامت پذیر رہے
حدیث نمبر: 383
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، ومحمد بن ابان، قالا: حدثنا معاذ بن هشام، قال: حدثني ابي، عن قتادة، عن الحسن، عن دغفل بن حنظلة: «ان النبي صلى الله عليه وسلم قبض وهو ابن خمس وستين» قال ابو عيسى: ودغفل لا نعرف له سماعا من النبي صلى الله عليه وسلم وكان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم رجلاحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ دَغْفَلِ بْنِ حَنْظَلَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ» قَالَ أَبُو عِيسَى: وَدَغْفَلُ لَا نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا
دغفل بن حنظلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پینسٹھ برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: ہمیں دغفل کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع معلوم نہیں، البتہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حسن» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 3652، وتكلم فيه)، وصححه الذهبي فى السيرة النبوية (ص574)»
اس حدیث کی سند کئی وجہ سے ضعیف ہے، جن میں سے دو درج ذیل ہیں:
➊ قتادہ مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے۔
➋ حسن بصری مدلس تھے اور یہ روایت معنعن (عن سے) ہے۔
مزید یہ کہ خود امام ترمذی نے اس روایت پر جرح کر رکھی ہے اور دغفل بن حنظلہ کے صحابی ہونے میں شک کا اظہار کیا ہے۔
سابق حدیث (382) اس کا حسن لذاتہ شاہد ہے، جس کے ساتھ یہ ضعیف روایت بھی حسن یعنی حسن لغیرہ ہے اور حسن لغیرہ کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں:
① بذات خود ضعیف سند ہے، لیکن اس کا حسن لذاتہ یا صحیح شاہد موجود ہے، لہٰذا اسے حسن قرار دینے اور اس سے استدلال میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہو، وہی حدیث دغفل رضی اللہ عنہ یا رحمہ اللہ نے بھی ضرور بیان کی ہو۔!
② سند بذاتِ خود ضعیف ہے اور اس کے تمام شواہد ومتابعات بھی ضعیف ہیں۔ ایسی روایت حسن نہیں، بلکہ ضعیف ہوتی ہے۔
امام ترمذی کی مذکورہ جرح سے ثابت ہوا کہ وہ حسن لغیرہ کی مذکورہ دونوں قسموں کے قائل نہیں تھے، لہٰذا یہ اظہر من الشّمس ہے کہ وہ ضعیف ضعیف والی حسن لغیرہ روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔
فائدہ: جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نوجوان تھے اور اسلام قبول کرچکے تھے مگر ان کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے، انھیں مخضرم کہا جاتا ہے، لہٰذا امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق دغفل رحمہ اللہ مخضرم تھے اور کبار تابعین میں سے تھے۔ واللہ اعلم

قال الشيخ زبير على زئي: حسن


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.