الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
19. بَابُ : الْحُكْمِ فِي السَّحَرَةِ
19. باب: جادوگروں کا حکم۔
Chapter: Ruling on Practitioners of Magic
حدیث نمبر: 4084
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا ابو داود، قال: حدثنا عباد بن ميسرة المنقري، عن الحسن، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من عقد عقدة ثم نفث فيها فقد سحر، ومن سحر فقد اشرك، ومن تعلق شيئا وكل إليه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْمَنْقَرِيُّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً ثُمَّ نَفَثَ فِيهَا فَقَدْ سَحَرَ، وَمَنْ سَحَرَ فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی گرہ لگائی پھر اس میں پھونک ماری تو اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا، اس نے شرک کیا ۱؎ اور جس نے گلے میں کچھ لٹکایا، وہ اسی کے حوالے کر دیا گیا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 12255) (ضعیف) (اس کے راوی ’’عباد بن میسرہ“ ضعیف ہیں، لیکن اس کا جملہ ”من تعلق۔۔۔ الخ دیگر روایات سے صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی مشرکین کا عمل اپنایا، یہ شرک اس صورت میں ہے جب وہ اس میں حقیقی تأثیر کا اعتقاد رکھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد ترک کر دینے کے سبب وہ شرک خفی کا مرتکب ہو گا۔ اور مؤلف کا استدلال اسی جملہ سے ہے، یعنی جادو کرنے والا شرک کا مرتکب ہوا تو مرتد ہو گیا۔ ۲؎: یعنی اللہ کی نصرت و تائید اسے حاصل نہیں ہو گی۔ تعویذ کے سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ اس کا ترک کرنا ہر حال میں افضل ہے، بالخصوص جب اس میں شرکیہ کلمات ہوں یا اس کے مفید یا مضر ہونے کا اعتقاد رکھے۔ تو اس سے دور رہنا واجب و فرض ہے، ایسے تعویذ جو قرآنی آیات پر مشتمل ہوں اس کی بابت علماء کا اختلاف ہے، کچھ لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں اور ممانعت کی حدیث کو اس صورت پر محمول کرتے ہیں جب اس میں شرکیہ کلمات ہوں، جب کہ دوسرے لوگ جیسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، نیز دیگر صحابہ ارشاد نبوی «من تعلق شیأ وکل إلیہ» کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے، نیز آیات و احادیث کی بیحرمتی کے سبب حرام قرار دیتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الحسن عنعن. ولبعض الحديث شواهد. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 351


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4084  
´جادوگروں کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی گرہ لگائی پھر اس میں پھونک ماری تو اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا، اس نے شرک کیا ۱؎ اور جس نے گلے میں کچھ لٹکایا، وہ اسی کے حوالے کر دیا گیا ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4084]
اردو حاشہ:
(1) یہ رویات تعلیق والے جملے کے علاوہ ضعیف ہے لیکن مسئلے کی تفہیم کے لیے کچھ ضروری وضاحت درج ذیل ہے۔ جس نے گرہ باندھی جادوگر عموماً گرہیں باندھ کر جادو کیا کرتے ہیں، اس لیے گرہ کا ذکر فرمایا، ورنہ جادو کسی بھی طریقے سے کیا جائے، وہ جادو ہی ہے۔ اگر جن و شیطان سے مدد طلب نہ کی جائے اور ایسے کلمات استعمال نہ کیے جائیں جن کے معنیٰ و مفہوم معلوم نہ ہوں تو وہ جادو نہیں، خواہ کوئی گرہ بھی باندھے۔
(2) جس نے جادو کیا، اس نے شرک کیا کیونکہ جادو میں لازماً غیر اللہ، مثلاً: جن و شیطان سے مدد حاصل کی جاتی ہے۔ انہیں پکارا جاتا ہے۔ اس لیے جادو شرک کو مستلزم ہے۔
(3) جس نے کوئی چیز لٹکائی اس دور میں کاہن کوئی چیز پڑھ پھونک کر دے دیتے تھے کہ اسے گلے میں لٹکا لو، فائدہ ہو گا۔ چونکہ کاہن مشرک تھے اور شرکیہ کلمات ہی پڑھتے تھے، لہٰذا اس سے روک دیا گیا۔ ایسا دم بھی منع ہے اور ایسا تعلیق بھی۔ لیکن کیا قرآن مجید یا دعاؤں یا اچھے کلمات کو علاج کے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یقینا یہ جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے قرآن مجید اور اچھے کلمات کو اپنے اور دوسروں کے لیے بطور علاج استعمال کرنا ثابت ہے۔ لیکن دم کی صورت میں۔ رہا مسئلہ قرآن و حدیث پر مبنی ادعیہ سے تحریر کردہ تعویذ یا تعلیق کا کہ آیا وہ بھی مسنون ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ سے تعویذ لکھنا ثابت نہیں۔ البتہ محققین اہل حدیث و فقہاء کا موقف ہے کہ جس طرح کلام اللہ اور منقول ادعیہ اور غیر شرکیہ کلمات کے ساتھ دم جائز ہے، اسی طرح ان سے تعویذ لکھنا بھی جائز ہے۔ لیکن ان دونوں کے مابین یہ فرق ضرور رہے گا کہ دم کرنا مسنون اور تعویذ لکھنا غیر مسنون ہو گا، اس لیے اس مسئلے میں افراط و تفریط درست نہیں۔ نہ تو مطلقاً قرآنی آیات پر مشتمل تعویذ کو لٹکانا حرام اور شرک کہا جائے اور نہ مجہول المعنی اور مشکوک عبارات یا غیر اللہ کو پکارنے والے کلمات پر مشتمل تعویذ لکھے جائیں، لہٰذا دم کرنا اگرچہ عمل مسنون اور قرآنی آیات و ادعیہ مأثورہ کے ساتھ تعویذ لکھنا مشروط طور پر جائز ہے، تاہم احوط اور اقرب الی الحق یہی بات ہے کہ تعویذ لکھنے اور لٹکانے سے احتیاط کی جائے۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4084   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.