الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
روزوں کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 421
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا النضر، نا شعبة، نا خبيب بن عبد الرحمن، عن عمته، انها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ((إن بلالا يؤذن بليل، او ابن ام مكتوم يؤذن بليل، فكلوا حتى تسمعوا اذان ابن ام كلثوم او اذان بلال))، وما كان بينهما إلا ان ينزل هذا ويصعد هذا"، قالت: لكنا نقول له: انتظر حتى نتسحر.أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، نا خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمَّتِهِ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، أَوِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ ابْنَ أُمِّ كُلْثُومٍ أَوْ أَذَانَ بِلَالٍ))، وَمَا كَانَ بَيْنَهُمَا إِلَّا أَنْ يَنْزِلَ هَذَا وَيَصْعَدُ هَذَا"، قَالَتْ: لَكِنَّا نَقُولُ لَهُ: انْتَظِرْ حَتَّى نَتَسَحَّرَ.
خبیب بن عبدالرحمٰن نے اپنی پھوپھی سے روایت کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں، یا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں، پس تم (سحری کا کھانا) کھاتے رہا کرو حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ یا بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن لو، ان دونوں میں بس اتنا ہی فرق تھا کہ یہ نیچے اترتے تھے اور وہ (چھت کے) اوپر چڑھتے تھے، انہوں (راویہ) نے بیان کیا: ہم انہیں کہا: کرتے تھے: انتظار کرو حتیٰ کہ ہم سحری کھا لیں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الاذان، باب اذان الاعمي اذا كان له من يخيرة، رقم: 617. مسلم، كتاب الصيام، باب بيان ان الدخول فى الصوم الخ، رقم: 1092. سنن ترمذي، رقم: 203. سنن نسائي، رقم: 641. مسند احمد: 433/6.»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 421  
خبیب بن عبدالرحمن نے اپنی پھوپھی سے روایت کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں، یا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں، پس تم (سحری کا کھانا) کھاتے رہا کرو حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ یا بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن لو، ان دونوں میں بس اتنا ہی فرق تھا کہ یہ نیچے اترتے تھے اور وہ (چھت کے) اوپر چڑھتے تھے، انہوں (راویہ) نے بیان کیا: ہم انہیں کہا کرتے تھے: انتظار کرو حتیٰ کہ ہم سحری کھا لیں۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:421]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں صبح کے وقت اذان دینے کے لیے دو مؤذن ہوا کرتے تھے اور دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان کا مقصد یہ تھا کہ اگر روزے دار سحری کھا رہے ہیں یا کوئی نفل ونوافل پڑھ رہا ہے تو متنبہ ہوجائیں۔ جمہور کا موقف ہے کہ نماز فجر کا وقت آنے سے پہلے اذان کہنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ یہ اذان جائز نہیں ہے۔ (کتاب الأم للشافعي: 1؍170)
شیخ البانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ نماز فجر سے پہلے اذان تہجد دینا ایسی سنت ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یقینا ایسے شخص کے لیے مبارک ہے جو اسے بتوفیق الٰہی زندہ کرے۔ (تمام المنة، ص:148)
مذکرہ بالا حدیث میں رات کی اذان کے لیے سیّدنا بلال یا سیّدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما دونوں کا تذکرہ آتا ہے، اسی طرح فجر کی اذان کے متعلق بھی دونوں کا تذکرہ آتا ہے۔ اس کے متعلق علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ محدث ابن خزیمہ وغیرہ نے ان واقعات میں یوں تطبیق دی ہے، ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا بلال اور سیّدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما کو باری باری ہر دو اذانوں کے لیے مقرر کر رکھا ہو۔ (مرعاة المفاتیح: 1؍ 443)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلی اذان رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہے، لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مستقل معمول تھا نہ کہ صرف رمضان میں۔
علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ صحیح نہیں کہ اذان کا تعلق خاص رمضان سے تھا۔ زمانہ نبوی میں بہت سے صحابہ غیر رمضان میں نفل روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے۔ جیسا کہ مسند عبدالرزاق میں ابن مسیب کی روایت سے ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات میں اذان دیتے ہیں پس جو کوئی روزہ رکھنا چاہے، اس کو یہ اذان سن کر سحری سے رکنا نہیں چاہیے۔ یہ ارشادِ نبوی غیر رمضان ہی سے متعلق ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اذان بلال کو رمضان سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح: 1؍ 444)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 421   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.