الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
جنازے کے مسائل
जनाज़े के नियम
1. (أحاديث في الجنائز)
1. (جنازے کے متعلق احادیث)
१. “ जनाज़े के बारे में हदीसें ”
حدیث نمبر: 425
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏اكثروا ذكر هاذم اللذات: الموت» .‏‏‏‏ رواه الترمذي والنسائي وصححه ابن حبان.عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏أكثروا ذكر هاذم اللذات: الموت» .‏‏‏‏ رواه الترمذي والنسائي وصححه ابن حبان.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لذتوں کو توڑ دینے، کاٹ دینے والی کا ذکر کثرت سے کیا کرو (یعنی موت کا) اسے ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत अबु हुरैरा रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया “लज़्ज़तों (आनंदों और आराम) को तोड़ देने, काट देने वाली को बहुत याद किया करो (यानी मौत को)” इसे त्रिमीज़ी और निसाई ने रिवायत किया है और इब्न हब्बान ने सहीह ठहराया है ।

تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الزهد، باب ما جاء في ذكر الموت، حديث:2307، وقال: حسن غريب، والنسائي، الجنائز، حديث:1825، وابن حبان (الإحسان): 4 /282، حديث:2984.»

Abu Hurairah (RAA) narrated that the Messenger of Allah said: “Remember, as much as you can, the one thing (fact or reality) which (always) brings an end to all worldly joys and pleasures, (meaning death)”Related by At-Tirmidhi, An-Nasa’i and Ibn Hibban.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: حسن

   سنن النسائى الصغرى1825عبد الرحمن بن صخرأكثروا ذكر هاذم اللذات
   جامع الترمذي2307عبد الرحمن بن صخرأكثروا ذكر هاذم اللذات
   سنن ابن ماجه4258عبد الرحمن بن صخرأكثروا ذكر هاذم اللذات يعني الموت
   بلوغ المرام425عبد الرحمن بن صخراكثروا ذكر هاذم اللذات: الموت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 425  
´موت کو یاد کرنا`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑ دینے، کاٹ دینے والی کا ذکر کثرت سے کیا کرو (یعنی موت کا) . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 425]
لغوی تشریح:
«كِتَابُ الجَنَائِز» جیم پر فتحہ ہے اور بس۔ جنائز، جنازۃ کی جمع ہے۔ جنازہ کی جیم پر فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں مگر کسرہ زیادہ فصیح ہے اور یہ چارپائی پر رکھی ہوئی میت پر بولا جاتا ہے۔
اور ایک قول کے مطابق جیم پر فتحہ ہے اس صورت میں اس کے معنی میت کے ہیں اور کسرے (زیر) کی صورت میں اس سے مراد وہ چارپائی ہے جس پر میت پڑی ہو۔
اور ایک قول اس کے برعکس بھی ہے، یعنی فتحہ کی صورت میں میت والی چارپائی اور کسرے کی صورت میں میت۔ کتاب الصلاۃ کے متصل بعد کتاب الجنائز لانے سے مقصود یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین کے جملہ امور و افعال میں سے نماز جنازہ زیادہ اہم ہے، اور ان دونوں میں قریبی مناسبت اور تعلق کی وجہ سے کتاب کتاب الصلاۃ کے بعد کتاب الجنائز کو رکھا ہے۔
ایک قول کے مطابق نماز جنازہ کی مشروعیت ہجرت کے پہلے سال میں ہوئی۔
«اَكثِرُو» «إكثَار» سے امر کا صیغہ ہے۔ زیادہ کرو۔
«هَاذِمِ» مضاف الیہ ہونے کی بنا پر مجرور ہے اور یہ «اَلَّلَّذَات» کی طرف مضاف ہے۔ «هَاذِمِ» ذال کے ساتھ ہونے کی صورت میں اس کے معنی ہوں کاٹ ڈالنے والی، توڑ دینے والی۔ موت کا نام «هَاذِمِ الَّلَّذات»، یعنی لذتوں کی توڑ دینے والی اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب موت کی یاد آتی ہے تو تمام لذتیں اور مزے ختم ہو جاتے ہیں اور اس کی یاد آدمی کو دنیا کی لذتوں سے بےرغبت کر دیتی ہے، یا اس نام کی وجہ یہ ہے کہ جب موت کسی پر واہ ہوتی ہے تو دنیوی لذتوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں چھوڑتی، سب ختم ہو جاتی ہیں۔
ایک روایت میں «هَادِمِ» (دال مہملہ کے ساتھ) بھی منقول ہے جو «هَدَمَ الْبِنَاءَ وَالَّجدَارّ» کے محاورے سے ماخوذ ہے۔ یہ محاورہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص عمارت یا دیوار کو گرائے۔ اس میں دنیا کی فانی اور زوال پذیر کو منہدم، اجڑی ہوئی اور تباہ شدہ عمارت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، اس لیے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ موت کو اکثر یاد رکھو جو دنیوی لذتوں کی عمارت کو منہدم کر دینے والی ہے۔ موت جب وارد ہوتی ہے تو لذات دنیوی کی تعمیر شدہ عمارت عمارت دھڑام سے زمین پر آ رہتی ہے۔
«اَلْمَوْتِ» جر (کسرہ) کی صورت میں عطف بیان ہو گا اور رفعی صورت میں «هُوَ» مبتدا محذوف کی خبر ہے اور نصب کی صورت میں «أعني» کو مقدر تسلیم کرنا ہوگا اور یہ «هاذم» کی تفسیر و وضاحت ہے۔

فائدہ:
موت ایک ایسی چیز ہے جس کا ابتدائے آفرنیش سے روز ابد تک کوئی منکر نہیں۔ یہ انسانوں کے مشاہدے میں آنے والی چیز ہے کہ روزمرہ آنکھوں کے سامنے ہر ایک کے اعزہ و اقربا، احباب و رفقاء میں سے کوئی نہ کوئی موت کا جام پیتا ہے، سب اس وقت بےبس ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر قدرتی طور پر دلوں میں نرمی، خوف، محاسبہ اعمال، قیام انسان نیک اعمال کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اسی لیے موت کو ہمیشہ یاد رکھنے کا حکم ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 425   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2307  
´موت کی یاد۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2307]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
موت کی یاد اوراس کا تصورانسان کو دنیادی مشاغل سے دوراورمعصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے،
اس لیے بکثرت موت کو یاد کرنا چاہئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2307   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.