الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
Chapters on Zuhd
31. بَابُ : ذِكْرِ الْمَوْتِ وَالاِسْتِعْدَادِ لَهُ
31. باب: موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔
Chapter: Death and preparing for it
حدیث نمبر: 4258
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا الفضل بن موسى , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكثروا ذكر هاذم اللذات" يعني: الموت.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ" يَعْنِي: الْمَوْتَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزھد 4 (2307)، سنن النسائی/الجنائز 3 (1825)، (تحفة الأشراف: 15080، 15087)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/293) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: موت کی یاد سے دنیا کی بے ثباتی ذہن میں جمتے ہی آخرت کا خیال پیدا ہوتا ہے، یہی فائدہ قبروں کی زیارت کا بھی ہے، نبی اکرم ﷺ نے موت کو لذتوں کو مٹانے والی کہا یعنی موت کی یاد آدمی کے دل و دماغ کو دنیا کی لذتوں سے دور کر دیتے ہیں، یا موت کے آتے ہی آدمی کا تعلق دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے خود بخود ختم ہو جاتا ہے، امام قرطبی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ بڑا مختصر جملہ ہے، جو تذکیر و نصیحت میں بلیغ اور جامع ہے، کیونکہ جس نے صحیح معنوں میں موت کو یاد کیا تو اس سے اس پر دنیاوی لذت کرکری ہو جاتی ہے، اور مستقبل میں اس کی تمنا اور آرزو کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، اور جن نعمتوں کے بارے میں وہ سوچتا تھا، اس میں بڑی کمی آ جاتی ہے، لیکن غافل دل اور ٹھہری ہوئی طبیعتیں لمبے چوڑے وعظ و نصیحت اور تفنن کلام کی محتاج ہوتی ہیں، ورنہ حدیث رسول: لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو، اور آیت کریمہ: «كل نفس ذائقة الموت» ہر نفس کو موت کا مزا چکنا ہے (سورة الأنبياء: 35) ہی سامع کے لیے کافی ہے، اور دیکھنے والے کو مشغول کر دینے والی ہے، نیز کہتے ہیں: موت کی یاد کے نتیجے میں اس دار فانی سے بے رغبتی کا شعور و احساس پیدا ہوتا ہے، اور ہر لحظہ باقی رہنے والی آخرت کی طرف توجہ ہو جاتی ہے، تو انسان دو حالات میں گھر کر رہ جاتا ہے، ایک تنگی اور وسعت کی حالت اور دوسری نعمت و ابتلاء کی حالت تو تنگی اور ابتلاء کی صورت میں موت کی یاد سے یہ صورت حال اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے کہ یہ حالت ہمیشہ برقرار رہنے والی نہیں ہے، بلکہ موت اس سے زیادہ سخت ہے، اور نعمت اور وسعت کی حالت میں موت کی یاد اس کو دنیاوی نعمتوں اور وسعتوں سے دھوکہ کھانے اور اس سے سکون حاصل کرنے سے روک دیتی ہے،اور موت انسان کو ان چیزوں سے دور کر دیتی ہے، موت کی کوئی معلوم عمر نہیں ہے، اور نہ اس کا زمانہ ہی معلوم ہے اور نہ اس کی بیماری ہی معلوم ہے، تو آدمی کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ ملاحظہ ہو: التذکرۃ بأحوال الموتیٰ وأمورالآخرۃ (الفریوائی)

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

   سنن النسائى الصغرى1825عبد الرحمن بن صخرأكثروا ذكر هاذم اللذات
   جامع الترمذي2307عبد الرحمن بن صخرأكثروا ذكر هاذم اللذات
   سنن ابن ماجه4258عبد الرحمن بن صخرأكثروا ذكر هاذم اللذات يعني الموت
   بلوغ المرام425عبد الرحمن بن صخراكثروا ذكر هاذم اللذات: الموت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 425  
´موت کو یاد کرنا`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑ دینے، کاٹ دینے والی کا ذکر کثرت سے کیا کرو (یعنی موت کا) . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 425]
لغوی تشریح:
«كِتَابُ الجَنَائِز» جیم پر فتحہ ہے اور بس۔ جنائز، جنازۃ کی جمع ہے۔ جنازہ کی جیم پر فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں مگر کسرہ زیادہ فصیح ہے اور یہ چارپائی پر رکھی ہوئی میت پر بولا جاتا ہے۔
اور ایک قول کے مطابق جیم پر فتحہ ہے اس صورت میں اس کے معنی میت کے ہیں اور کسرے (زیر) کی صورت میں اس سے مراد وہ چارپائی ہے جس پر میت پڑی ہو۔
اور ایک قول اس کے برعکس بھی ہے، یعنی فتحہ کی صورت میں میت والی چارپائی اور کسرے کی صورت میں میت۔ کتاب الصلاۃ کے متصل بعد کتاب الجنائز لانے سے مقصود یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین کے جملہ امور و افعال میں سے نماز جنازہ زیادہ اہم ہے، اور ان دونوں میں قریبی مناسبت اور تعلق کی وجہ سے کتاب کتاب الصلاۃ کے بعد کتاب الجنائز کو رکھا ہے۔
ایک قول کے مطابق نماز جنازہ کی مشروعیت ہجرت کے پہلے سال میں ہوئی۔
«اَكثِرُو» «إكثَار» سے امر کا صیغہ ہے۔ زیادہ کرو۔
«هَاذِمِ» مضاف الیہ ہونے کی بنا پر مجرور ہے اور یہ «اَلَّلَّذَات» کی طرف مضاف ہے۔ «هَاذِمِ» ذال کے ساتھ ہونے کی صورت میں اس کے معنی ہوں کاٹ ڈالنے والی، توڑ دینے والی۔ موت کا نام «هَاذِمِ الَّلَّذات»، یعنی لذتوں کی توڑ دینے والی اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب موت کی یاد آتی ہے تو تمام لذتیں اور مزے ختم ہو جاتے ہیں اور اس کی یاد آدمی کو دنیا کی لذتوں سے بےرغبت کر دیتی ہے، یا اس نام کی وجہ یہ ہے کہ جب موت کسی پر واہ ہوتی ہے تو دنیوی لذتوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں چھوڑتی، سب ختم ہو جاتی ہیں۔
ایک روایت میں «هَادِمِ» (دال مہملہ کے ساتھ) بھی منقول ہے جو «هَدَمَ الْبِنَاءَ وَالَّجدَارّ» کے محاورے سے ماخوذ ہے۔ یہ محاورہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص عمارت یا دیوار کو گرائے۔ اس میں دنیا کی فانی اور زوال پذیر کو منہدم، اجڑی ہوئی اور تباہ شدہ عمارت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، اس لیے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ موت کو اکثر یاد رکھو جو دنیوی لذتوں کی عمارت کو منہدم کر دینے والی ہے۔ موت جب وارد ہوتی ہے تو لذات دنیوی کی تعمیر شدہ عمارت عمارت دھڑام سے زمین پر آ رہتی ہے۔
«اَلْمَوْتِ» جر (کسرہ) کی صورت میں عطف بیان ہو گا اور رفعی صورت میں «هُوَ» مبتدا محذوف کی خبر ہے اور نصب کی صورت میں «أعني» کو مقدر تسلیم کرنا ہوگا اور یہ «هاذم» کی تفسیر و وضاحت ہے۔

فائدہ:
موت ایک ایسی چیز ہے جس کا ابتدائے آفرنیش سے روز ابد تک کوئی منکر نہیں۔ یہ انسانوں کے مشاہدے میں آنے والی چیز ہے کہ روزمرہ آنکھوں کے سامنے ہر ایک کے اعزہ و اقربا، احباب و رفقاء میں سے کوئی نہ کوئی موت کا جام پیتا ہے، سب اس وقت بےبس ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر قدرتی طور پر دلوں میں نرمی، خوف، محاسبہ اعمال، قیام انسان نیک اعمال کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اسی لیے موت کو ہمیشہ یاد رکھنے کا حکم ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 425   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2307  
´موت کی یاد۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2307]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
موت کی یاد اوراس کا تصورانسان کو دنیادی مشاغل سے دوراورمعصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے،
اس لیے بکثرت موت کو یاد کرنا چاہئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2307   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.