الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
48. بَابُ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَيُتَّخَذُ مَكَانَهَا مَسَاجِدَ:
48. باب: کیا دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو کھود ڈالنا اور ان کی جگہ مسجد بنانا درست ہے؟
(48) Chapter. Is it permissible to dig the graves of pagans of the Period of Ignorance, and to use that place as a mosque?
حدیث نمبر: Q427
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وراى عمر بن الخطاب رضي الله عنه انس بن مالك يصلي عند قبر، فقال: القبر، القبر، ولم يامره بالإعادة.وَرَأَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُصَلِّي عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ: الْقَبْرَ، الْقَبْرَ، وَلَمْ يَأْمُرْهُ بِالْإِعَادَةِ.
‏‏‏‏ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ یہودیوں پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا اور قبروں میں نماز مکروہ ہونے کا بیان۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو ایک قبر کے قریب نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ قبر ہے قبر! اور آپ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔

حدیث نمبر: 427
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا يحيى، عن هشام، قال: اخبرني ابي، عن عائشة، ان ام حبيبة، وام سلمة ذكرتا كنيسة راينها بالحبشة فيها تصاوير، فذكرتا للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن اولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات، بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور، فاولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالْحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں مورتیں (تصویریں) تھیں۔ انہوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار (نیک) شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں (تصویریں) بنا دیتے پس یہ لوگ اللہ کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔

Narrated `Aisha: Um Habiba and Um Salama mentioned about a church they had seen in Ethiopia in which there were pictures. They told the Prophet about it, on which he said, "If any religious man dies amongst those people they would build a place of worship at his grave and make these pictures in it. They will be the worst creature in the sight of Allah on the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 419


   صحيح البخاري427عائشة بنت عبد اللهأولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور فأولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة
   صحيح البخاري3873عائشة بنت عبد اللهأولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تيك الصور أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة
   صحيح البخاري434عائشة بنت عبد اللهأولئك قوم إذا مات فيهم العبد الصالح أو الرجل الصالح بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور أولئك شرار الخلق عند الله
   صحيح البخاري1341عائشة بنت عبد اللهأولئك إذا مات منهم الرجل الصالح بنوا على قبره مسجدا ثم صوروا فيه تلك الصورة أولئك شرار الخلق عند الله
   صحيح مسلم1181عائشة بنت عبد اللهأولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة
   سنن النسائى الصغرى705عائشة بنت عبد اللهأولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا تيك الصور أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 705  
´قبروں کو مساجد بنانے کی ممانعت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم دونوں نے ایک کنیسہ (گرجا گھر) کا ذکر کیا جسے ان دونوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان میں کا کوئی صالح آدمی مرتا تو یہ اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے، اور اس کی مورتیاں بنا کر رکھ لیتے، یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 705]
705 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے اپنے خاوندوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ وہ عیسائیوں کا ملک تھا۔
➋ نیک آدمی کی قبر پر مسجد بنا کر اس میں اس نیک آدمی اور دوسرے صالحین کی تصویریں بناتے تھے۔ مقصد تو تعظیم اور ان کی یاد ہوتی تھی مگر آہستہ آہستہ ان تصویروں کی پوجا شروع ہو جاتی تھی، اس لیے شریعت نے قبروں پر مسجدوں سے مطلقاً منع کر دیا کہ یہ شرک کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اور واقعتاً جن قبروں پر یا ان کے قریب مساجد بنی ہوئی ہیں، ان قبروں کی پوجا ہوتی ہے، اسی لیے انہیں بدترین مخلوق کہا گیا۔
➌ صالحین سے مراد انبیاء کے حواری (اولین پیروکار) یا علماء و رہبان ہیں کیونکہ عیسائی انہیں نبیوں کی طرح سمجھتے اور ان کی غیر مشروط اطاعت کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 705   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 427  
427. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھم نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ (جب) انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ان لوگوں کی عدت تھی کہ ان میں اگر کوئی نیک آدمی مرتا تو اس کی قبر پر مسجد اور تصویریں بنا دیتے۔ قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:427]
حدیث حاشیہ:
یہ اثر موصولاً ابونعیم نے کتاب الصلوٰة میں نکالا ہے جو حضرت امام بخاری ؒ کے شیوخ میں سے ہیں۔
تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمرؓب نے حضرت انس ؓ کو ایک قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو قبرقبر کہہ کر ان کواطلاع فرمائی، مگر وہ قمر سمجھے بعد میں سمجھ جانے پر وہ قبر سے دور ہو گئے اور نماز ادا کی۔
اس سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ نماز جائز ہوگی اگرفاسد ہوتی تو دوبارہ شروع کرتے۔
(فتح)
آج کے زمانہ میں جب قبر پرستی عام ہے بلکہ چلہ پرستی اور شدہ پرستی اورتعزیہ پرستی سب زوروں پر ہے، توان حالات میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق قبروں کے پاس مسجد بنانے سے منع کرنا چاہیے اور اگر کوئی کسی قبر کو سجدہ کرے یا قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تواس کے مشرک ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 427   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:427  
427. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھم نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ (جب) انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ان لوگوں کی عدت تھی کہ ان میں اگر کوئی نیک آدمی مرتا تو اس کی قبر پر مسجد اور تصویریں بنا دیتے۔ قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:427]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا دعویٰ ہے کہ مشرکین کے قبرستان میں قبریں ختم کرکے مسجد تعمیر کرنادرست ہے اور جو دلیل ذکر کی ہے وہ یہ ہے کہ قبرستان کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں، اس لیے امام بخاری کے دعویٰ اوردلیل میں تقریب تام نہیں ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہودونصاریٰ کے حق میں وعید اور لعنت جس طرح ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کی تعظیم میں غلو کرتے ہوئے انھیں سجدہ گاہ بنالیا اور نتیجتاً و ہ انبیاء علیہم السلام کو معبود سمجھنے لگے، اسی طرح یہ وعید ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو ان قبروں کی جگہ اس طرح مسجد تعمیر کریں کہ ان کے جسد اطہر کو قبر سے نکال دیں اور ہڈیاں پھینک دیں۔
وہ فرماتے ہیں یہ دونوں باتیں حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین ہی کے ساتھ خاص ہیں، جہاں تک کفار کا تعلق ہے تو ان میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں، اس لیے اگرکفار کی قبروں سے ہڈیاں نکال کر پھینک دی جائیں اور ان کی جگہ مسجد تعمیر کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ان کی تعظیم تو مقصود نہیں اور ان کی اہانت میں بھی کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 679/1)

یہود ونصاریٰ پر لعنت کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کی قبروں کو باقی رکھتے ہوئے انھیں مساجد بنالیا تھا۔
جب انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو باقی رکھے ہوئے وہاں مسجد بنانا باعث لعنت ہے، توقبور مشرکین کو باقی رکھتے ہوئے وہاں مسجد تعمیر کرنابدرجہ اولیٰ موجب لعنت ہوگا۔
اس طرح امام بخاری ؒ کے دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ظاہر ہوگئی۔
ہاں! یہ ضروری ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو کھودنا سخت حرام اور ان کی توہین کاباعث ہے۔
اس لیے ان کی قبروں کی جگہ پر مسجد تعمیرکرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔
اس کے برعکس مشرکین کی قبروں کا کوئی احترام نہیں، اس لیےان کی جگہ پرمساجد تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اکھاڑ کر ہڈیاں الگ کردی جائیں۔
اور جب زمین ان کے ناپاک جسم سے پاک ہوجائے تو وہاں مسجد بنا لی جائے۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ بزرگوں کی قبروں پر مسجدیں بنانا یہودونصاریٰ کی علامت ہے۔
جسے رسول اللہ ﷺ نے حرام قراردیا ہے اور آپ نے یہ باتیں مرض وفات میں ارشادفرمائیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ کی قبر مبارک کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ کو جزاے خیر دے جس کی مخلصانہ کوششوں سے امت ابھی تک ان ہدایات پر قائم ہے اور آپ کی قبر سجدہ گاہ بننے سے محفوظ ہے۔
الحمدلله على ذلك۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 427   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.