الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيفه همام بن منبه کل احادیث 139 :حدیث نمبر
صحيفه همام بن منبه
متفرق
विभिन्न हदीसें
43. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خزانچی ہیں
४३. “ रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम अल्लाह के खज़ांची हैं ”
حدیث نمبر: 43
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما اوتيكم من شيء ولا امنعكموه، إن انا إلا خازن اضع حيث امرت"((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أُوتِيكُمْ مِنْ شَيْءٍ وَلا أَمْنَعُكُمُوهُ، إِنْ أَنَا إِلا خَازِنٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں ذاتی طور پر نہ تو تمہیں کوئی چیز عطاء کرتا ہوں اور نہ ہی کسی چیز سے تمہیں روکتا ہوں میں محض خازن ہوں، میں مال وہاں تصرف میں لاتا ہوں جہاں مجھے حکم دیا گیا ہے۔
रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “मैं निजी तौर पर न तो तुम्हें कोई चीज़ दिया करता हूँ और न ही किसी चीज़ से तुम्हें रोकता हूँ मैं केवल ख़ज़ांची हूँ, मैं माल वहां ख़र्च करता हूँ जहां मुझे हुक्म दिया गया है।”

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب فرض الخمس، باب قول الله تعالٰى ﴿فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُوْلِ﴾، رقم: 3117 - سنن أبى داؤد، كتاب الخراج والإمارة، باب فيما يلزم الأمارة من أمر الرعيه والحجة عنهم، رقم: 2949، حدثنا سلمة بن شبيب: حدثنا عبدالرزاق: أخبرنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا به أبو هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - مسند أحمد: 53/16، رقم: 42/8140 - شرح السنة: 95/11، 96، باب حل الغنيمة لهذه الأمه.»

   صحيح البخاري3117عبد الرحمن بن صخرما أعطيكم ولا أمنعكم أنا قاسم أضع حيث أمرت
   سنن أبي داود2949عبد الرحمن بن صخرما أوتيكم من شيء وما أمنعكموه إن أنا إلا خازن أضع حيث أمرت
   صحيفة همام بن منبه43عبد الرحمن بن صخرما أوتيكم من شيء ولا أمنعكموه إن أنا إلا خازن أضع حيث أمرت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   43  
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خزانچی ہیں`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں ذاتی طور پر نہ تو تمہیں کوئی چیز عطاء کرتا ہوں اور نہ ہی کسی چیز سے تمہیں روکتا ہوں میں محض خازن ہوں، میں مال وہاں تصرف میں لاتا ہوں جہاں مجھے حکم دیا گیا ہے۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 43]
شرح الحديث:
اس حدیث کا تعلق بالخصوص مسئلہ خُمس سے اور بالعموم اسلام کے تمام اوامر و نواہی سے ہے، یعنی رسول الله صلى الله عليه وسلم کو کسی معاملہ میں تصرف اور منع کا کوئی اختیار نہیں تھا، بلکہ رسول الله صلى الله عليه وسلم صرف وہی چیز عطا کرتے اور صرف اس چیز سے منع فرماتے، جس کا حکم الله عزوجل کی طرف سے نازل ہوتا۔ کیونکہ وہی ہستی تمام اموال و اختیارات کی مالک اور متصرف فی الامور ہے، وہی دینے والا اور روکنے والا مختار کل ہے، اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی ذات مبارکہ تو نگرانِ خزانہ کی سی ہے، جو الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کیے ہوئے احکامات کو نافذ کرنے والی ہے۔ اب چاہے کسی کو کم ملے یا وافر مقدار میں، یہ دونوں حکم الہی پر محمول ہوں گے۔
علاوہ ازیں اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ جب تک مال غنیمت کی تقسیم اور خمس (1/5) (جو مال الله اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کے لیے وقف ہو اس کو خمس کہتے ہیں) الله تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حصہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس وقت تک رسول الله صلى الله عليه وسلم مال غنیمت کی تقسیم اپنے اجتہاد سے کیاکرتے تھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ الله تبارک و تعالیٰ نے مال غنیمت اور خمس کے متعلق بڑے جامع انداز کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ربانی ہے۔
«وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ» [الانفال: 41]
"اور جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو الله کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں اور مسکینوں کا اور مسافروں کا."

مال غنیمت اور مال فے کے مابین فرق:
یہاں یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ غنیمت اور مال فیٔ کے مابین کیا فرق ہے۔
غنیمت: اس مال کو کہتے ہیں، جو کفار سے جنگ کے بعد (مسلمانوں کے) ہاتھ میں آئے۔
«فئي:» ‏‏‏‏ اس مال کو کہتے ہیں، جو کفار سے جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے۔
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مال غنیمت کو پانچ حصوں پر تقسیم کیا جائے گا جن میں سے ایک حصہ الله اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کے رشتہ داروں، مسکینوں، یتیموں اور مسافروں کے لیے وقف کیا جائے گا۔ اور بقیہ چار حصوں کو پورے پورے عدل و انصاف کے ساتھ ان مجاہدین پر تقسیم کیا جائے گا۔ جو اس معرکہ میں شریک ہوئے۔
اس مال کو تقسیم کرنے کی صورت (عین) اس طرح ہوگی، جس طرح رسول الله صلى الله عليه وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر فرمائی تھی۔ وہ اس طرح کہ جو مجاہد پیدل ہے، اسے صرف ایک حصہ اور جو گھوڑ سوار ہے اسے تین حصوں سے نوازا جائے گا، یعنی ایک حصہ اس کی ذات کے لیے اور دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے۔
علامہ ابن القیم رحمة الله علیه لکھتے ہیں:
"رسول الله صلى الله عليه وسلم معرکہ سے فارغ ہونے کے بعد ہر قسم کے مال غنیمت کو جمع کرنے کا حکم دیتے تھے اور جس مجاہد نے کسی کافر سے کوئی چیز چھینی ہوتی تھی، وہ اس کے سپرد کر دیتے اور پهر اس مال سے پانچواں حصہ الگ کرکے اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور حاجت مند مسافروں پر خرچ کر دیتے تھے، اس کے بعد جو مال بچ جاتا اسے اسلام اور مسلمانوں کے مصالح عامہ پر خرچ کر دیا کرتے تھے، اور اس کے بعد بقیہ مال کا کچھ حصہ ان عورتوں، بچوں اور غلاموں کو دے دیا کرتے جن کا مال غنیمت میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، پھر آخر میں باقی مال اس معرکہ میں شریک ہونے والے تمام مسلمان مجاہدین کے مابین پورے عدل و انصاف کے ساتھ برابر برابر تقسیم کر دیتے تھے۔ " [زاد المعاد]
رسول الله صلى الله عليه وسلم کے دنیا سے رخلت فرمانے کے بعد سیدنا ابوبکر و عمر رضی الله عنہم ان کا اور ان کے ذوالقربیٰ کا مالی حصہ جہاد کی ضروریات و تیاریوں میں صرف کر دیا کرتے تھے۔ اس سے متعلق سیدنا ابوبکر، علی اور قتادہ رضی الله عنہم وغیرہم کی یہی رائے تھی۔ جب کہ امام مالک اور اکثر اسلاف صالحین کی یہ رائے تھی کہ مال غنیمت میں سے آپ صلى الله عليه وسلم کا حصہ خمس حاکم وقت کے سپرد کر دیا جائے تاکہ وہ دیانت داری کے ساتھ اسے اسلام اور مسلمانوں کی مصالح عامہ پر خرچ کرے۔ امام ابن تیمیہ رحمة الله علیه نے بھی اس رائے کو راجح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں امام نسائی رحمة الله علیه نے عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے، جو اس رائے کی کسی حد تک تائید کرتی ہے، چناچہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ) میری ذات کے لیے ہے لیکن (وہ بھی) تم پر ہی خرچ ہوگا۔ " [تيسير الرحمن: 532/1]
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 43   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2949  
´امام پر رعایا کے کیا حقوق ہیں؟ اور ان حقوق کے درمیان رکاوٹ بننے کا وبال۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2949]
فوائد ومسائل:
نبی کریم ﷺ پوری امت اسلامیہ بلکہ بنی نوع انسان کے سید اور سردار ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے خزانچی باور کرا رہے ہیں۔
تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے وسائل حکمرانوں کی ملکیت نہیں ہوتے۔
ان کے خرچ کرنے میں وہ خود مختار نہیں ہوتے۔
بلکہ تمام شرکاء یعن تمام بندوں کا ان میں حق ہوتا ہے۔
اور سب کو اس کے مطابق ان سے مستفید ہونے کا برابر موقع ملنا چاہیے۔
بلکہ جو نادار اور محتاج ہوں۔
ان کو زیادہ ملنا چاہیے۔
لیکن خلافت راشدہ کے بعد بادشاہت میں مسلمانوں کے وسائل کے استعمال میں حکمران زیادہ سے زیادہ خود مختار ہوتے گئے اور خزانے کو اپنے لئے شیرمادر سمجھنے لگے۔
اور جس کسی کو کچھ دیتے تو استحقاق کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنے ساتھ وفاداری وغیرہ کی وجہ سے دیتے، یہ خیانت کے مترادف ہے۔
اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2949   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.