الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث 657 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
طب و عیادت کے مسائل
इलाज और रोगी की देखभाल
6. نظر سے بچاؤ کے لئے دھاگے منگے لٹکانا منع ہے
“ बुरी नज़र से बचने के लिए ताअवीज़ और गंडे लटकाना या पहनना मना है ”
حدیث نمبر: 432
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
307- وبه: عن عباد بن تميم ان ابا بشير الانصاري اخبره انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض اسفاره، قال: فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن ابى بكر: حسبت انه قال والناس فى مبيتهم: ”لا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر او قلادة إلا قطعت.“ قال مالك: ارى ذلك من العين.307- وبه: عن عباد بن تميم أن أبا بشير الأنصاري أخبره أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، قال: فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن أبى بكر: حسبت أنه قال والناس فى مبيتهم: ”لا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت.“ قال مالك: أرى ذلك من العين.
سیدنا ابوبشیر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیغامبر (اعلان کرنے والا) بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر (رحمہ اللہ، راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ لوگ اپنی خوابگاہوں میں تھے کہ اس نے اعلان کیا: خبردار! کسی اونٹ کی گردن پر تانت کا پٹا یا کوئی اور پٹا کاٹے بغیر نہ چھوڑنا۔، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نظر سے (بچاؤ) کے لیے یہ پٹے (گنڈے) ڈال رکھے تھے۔
हज़रत अबु बशीर अल-अंसारी रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि वह रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ किसी सफ़र में थे तो रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने एक एलान करने वाला भेजा। अब्दुल्लाह बिन अबी बक्र (रहम अल्लाह, हदीस के रावी) कहते हैं कि मेरा ख़्याल है कि लोग अपनी सोने की जगह में थे कि उस ने एलान किया ! ख़बरदार ! किसी ऊंट की गर्दन पर तांत का पट्टा या कोई और पट्टा काटे बिना न छोड़ना।, इमाम मालिक रहम अल्लाह ने कहा ! मेरा ख़्याल है कि उन्हों ने नज़र से (बचाव) के लिए ये पट्टे या गंडे डाल रखे थे।

تخریج الحدیث: «307- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 937/2 ح 1809، ك 49 ب 13 ح 39) التمهيد 159/17، الاستذكار: 1744، و أخرجه البخاري (3005) و مسلم (894) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

   صحيح البخاري3005قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت
   صحيح مسلم5549قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت
   سنن أبي داود2552قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر ولا قلادة إلا قطعت
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم432قيس بن عبيدا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر او قلادة إلا قطعت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 432  
´نظر سے بچاؤ کے لئے دھاگے منگے لٹکانا منع ہے`
«. . . 307- وبه: عن عباد بن تميم أن أبا بشير الأنصاري أخبره أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، قال: فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن أبى بكر: حسبت أنه قال والناس فى مبيتهم: لا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت. قال مالك: أرى ذلك من العين. . . .»
. . . سیدنا ابوبشیر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیغامبر (اعلان کرنے والا) بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر (رحمہ اللہ، راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ لوگ اپنی خوابگاہوں میں تھے کہ اس نے اعلان کیا: خبردار! کسی اونٹ کی گردن پر تانت کا پٹا یا کوئی اور پٹا کاٹے بغیر نہ چھوڑنا۔، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نظر سے (بچاؤ) کے لیے یہ پٹے (گنڈے) ڈال رکھے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 432]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3005، ومسلم 2115، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ دھاگے منکے وغیرہ لٹکا کر یہ سمجھنا کہ بیماری نہیں لگے گی یا نظر بد سے بچاؤ ہوجائے گا، جائز نہیں ہے مگر قرآنی اور غیر شرکیہ عبارات لکھ کر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین کے درمیان اختلاف ہے۔ سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 351/9 وسنده صحيح] لیکن بہتر یہی ہے کہ ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔
◄ ابرہیم نخعی رحمہ اللہ بچوں کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہونے کی وجہ سے تعویذ مکروہ سمجھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 376/7 ح 23466 وسنده صحيح، دوسرا نسخه 16/8 ح 23823،]
➋ اسحاق بن منصور الکوسج رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے قرآن لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہر شئے (علاج کے لئے لکھ کر) لٹکانا مکروہ ہے۔ [ديكهئے مسائل اسحاق و احمد ج 1 ص 193 فقره 382، التمهيد 164/17] ۔ راجح یہی ہے کہ قرآنی و غیر شرکیہ تعویذ شرک یا بدعت نہیں ہے لیکن سدِ ذرائع کے طور پر یہ تعویذ بھی نہیں پہننے چاہئیں۔
➌ شبہات والی اور مشکوک چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔
➍ نظر کا لگ جانا برحق ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5740 و صحيح مسلم 2187] لیکن اس کا علاج تعویذ گنڈے نہیں بلکہ مسنون دعائیں ہیں۔ مثلاً «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ» والی دعا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 3371]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 307   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2552  
´گھوڑے کی گردن میں تانت کے گنڈے پہنانے کا بیان۔`
ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے: کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ باقی نہ رہے، اور نہ ہی کوئی اور قلادہ ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے۔‏‏‏‏ مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2552]
فوائد ومسائل:
علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ امام مالک اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ لوگ اسے نظر بد سے بچائو کےلئے بطور تعویذ ڈالتے تھے۔
اور اسے ہی موثر سمجھتے تھے۔
کئی علماء کا خیال ہے کہ لوگ یہ ان کے گلوں میں گھنٹیاں باندھنے کے لئے ڈالتے تھے۔
کچھ نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ دوڑتے بھاگتے ہوئے جانور کا گلا گھٹ جائے۔
بہر حال وجہ کوئی بھی ہو تانت ڈالنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اور اسی طرح دیگر جاہلانہ تعویز گنڈے بھی ڈالنا جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2552   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.