الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
The Book of Hunting and Slaughtering
34. بَابُ : إِبَاحَةِ أَكْلِ الْعَصَافِيرِ
34. باب: گوریا کھانے کی اباحت کا بیان۔
Chapter: Permissibility Of Eating Small Birds
حدیث نمبر: 4354
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن يزيد المقرئ، قال، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن صهيب مولى ابن عامر، عن عبد الله بن عمرو، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ما من إنسان قتل عصفورا فما فوقها بغير حقها، إلا ساله الله عز وجل عنها"، قيل: يا رسول الله وما حقها؟، قال:" يذبحها فياكلها، ولا يقطع راسها يرمي بها".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، قَالَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ صُهَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا مِنْ إِنْسَانٍ قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا، إِلَّا سَأَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهَا"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهَا؟، قَالَ:" يَذْبَحُهَا فَيَأْكُلُهَا، وَلَا يَقْطَعُ رَأْسَهَا يَرْمِي بِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی انسان کسی گوریا، یا اس سے بھی زیادہ چھوٹی چڑیا کو ناحق قتل کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اس کے متعلق سوال کرے گا، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ اسے ذبح کرے اور کھائے اور اس کا سر کاٹ کر نہ پھینکے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8829)، مسند احمد (2/166، 197، 210)، سنن الدارمی/الأضاحي 16 (2021)، ویأتي عند المؤلف في الضحایا 42 (برقم: 4450) (حسن) (تراجع الالبانی 457، صحیح الترغیب والت رہیب 2266)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث گرچہ ضعیف ہے، لیکن دیگر دلائل سے گوریا حلال پرندوں میں سے ہے (دیکھئیے پچھلی حدیث)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4354  
´گوریا کھانے کی اباحت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی انسان کسی گوریا، یا اس سے بھی زیادہ چھوٹی چڑیا کو ناحق قتل کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اس کے متعلق سوال کرے گا، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ اسے ذبح کرے اور کھائے اور اس کا سر کاٹ کر نہ پھینکے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4354]
اردو حاشہ:
(1) اس سے بھی چھوٹا جانور مثلاً ٹڈی۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتا ہے چڑیا یا اس سے بڑا جانور مثلاً: مرغی، کبوتر وغیرہ فَمَا فَوْقَھَا میں یہ دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔
(2) بعض لوگ شغلاً شکار کرتے ہیں۔ کھانا مقصد نہیں ہوتا بلکہ یا تو کتے بھگانے کا شوق ہوتا ہے یا نشانہ بازی کا اور وہ اپنے شوق کو شکار کی صورت میں پورا کرتے ہیں، یہ شرعاً گناہ ہے۔ کسی بھی جاندار چیز کو بلا وجہ قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ حلال جانور ہے تو اسے صرف کھانے کے لیے شکار یا ذبح کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ حرام جانور ہے تو اس کے نقصان سے بچنے کے لیے ہی اسے مارا جا سکتا ہے۔ یا دوسری معاشی ضروریات کے لیے، مثلاً: کاروبار جیسے ہاتھی کے دانت۔ صرف شوق پورا کرنے کے لیے کسی جاندار کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4354   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.