الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
حدیث نمبر: 4423
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا حميد الطويل، عن انس بن مالك رضي الله عنه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رجع من غزوة تبوك، فدنا من المدينة، فقال:" إن بالمدينة اقواما ما سرتم مسيرا، ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم"، قالوا: يا رسول الله، وهم بالمدينة، قال:" وهم بالمدينة حبسهم العذر".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَدَنَا مِنْ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ:" إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ:" وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ".
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس ہوئے۔ اور مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جہاں بھی تم چلے اور جس وادی کو بھی تم نے قطع کیا وہ (اپنے دل سے) تمہارے ساتھ ساتھ تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگرچہ ان کا قیام اس وقت بھی مدینہ میں ہی رہا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی (اپنے دل سے تمہارے ساتھ تھے) وہ کسی عذر کی وجہ سے رک گئے تھے۔

Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle returned from the Ghazwa of Tabuk, and when he approached Medina, he said, "There are some people in Medina who were with you all the time, you did not travel any portion of the journey nor crossed any valley, but they were with you they (i.e. the people) said, "O Allah's Apostle! Even though they were at Medina?" He said, "Yes, because they were stopped by a genuine excuse."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 707


   صحيح البخاري4423أنس بن مالكبالمدينة أقواما ما سرتم مسيرا ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم قالوا يا رسول الله وهم بالمدينة قال وهم بالمدينة حبسهم العذر
   صحيح البخاري2839أنس بن مالكأقواما بالمدينة خلفنا ما سلكنا شعبا ولا واديا إلا وهم معنا فيه حبسهم العذر
   سنن أبي داود2508أنس بن مالكبالمدينة أقواما ما سرتم مسيرا ولا أنفقتم من نفقة ولا قطعتم من واد إلا وهم معكم فيه قالوا يا رسول الله وكيف يكونون معنا وهم بالمدينة فقال حبسهم العذر
   سنن ابن ماجه2764أنس بن مالكبالمدينة لقوما ما سرتم من مسير ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم فيه قالوا يا رسول الله وهم بالمدينة قال وهم بالمدينة حبسهم العذر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2764  
´جو شخص عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو اس کے حکم کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے لوٹے، اور مدینہ کے نزدیک پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جس راہ پر تم چلے اور جس وادی سے بھی تم گزرے وہ تمہارے ہمراہ رہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: مدینہ میں رہ کر بھی وہ ہمارے ساتھ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، مدینہ میں رہ کر بھی، عذر نے انہیں روک رکھا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2764]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مدینے میں ہونے کے باوجود سفر میں مجاہدین کے ساتھ ہونے کا مطلب سفر کی مشقتوں کے ثواب میں شرکت ہے۔
یہ ثواب انھیں خلوص نیت کی وجہ سے ملا۔

(2)
کسی واقعی عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہونے والا اگر خلوص دل سے شرکت کی تمنا رکھتا ہوتو وہ ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔

(3)
عذر والے صحابہ رضی اللہ عنہ کا جہاد میں شریک ہونا ذاتی طور پر نہ تھا کیونکہ ایک انسان ایک وقت میں دو مقامات پر موجود نہیں ہوسکتا۔
اگر یہ کرامت کسی کو حاصل ہوسکتی ہے تو ان مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوتی لیکن رسول اللہﷺ نے وضاحت فرمادی کہ وہ حضرات عملی طور پر مدینے ہی میں تھے جہاد میں اور جہاد کے سفر میں ذاتی طور پر حاضر نہیں تھے ورنہ عذر کے رکاوٹ بننے کا کوئی مفہوم نہیں رہتا۔
اگلی حدیث میں وضاحت ہے کہ یہ شرکت ثواب میں تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2764   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2508  
´عذر کی بنا پر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے کہ تم کوئی قدم نہیں چلے یا کچھ خرچ نہیں کیا یا کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ تمہارے ساتھ رہے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ ہمارے ہمراہ کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ وہ مدینہ میں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2508]
فوائد ومسائل:
حسن نیت اور اخلاص کی بنا پر ایک معذور انسان بھی وہ درجات حاصل کرلیتا ہے۔
جوایک مجاہد اور عامل حاصل کرتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2508   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4423  
4423. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے۔ جب آپ مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: ’‘مدینہ طیبہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس راستے پر چلے یا جس وادی کو تم نے عبور کیا وہ تمہارے ساتھ تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ مدینہ طیبہ میں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں وہ مدینہ طیبہ میں تھے لیکن عذر نے ان کو روک رکھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4423]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ مرویات میں کسی نہ کسی طرح سے سفر تبوک کا ذکر آیا ہے۔
باب اور احادیث میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4423   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4423  
4423. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے۔ جب آپ مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: ’‘مدینہ طیبہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس راستے پر چلے یا جس وادی کو تم نے عبور کیا وہ تمہارے ساتھ تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ مدینہ طیبہ میں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں وہ مدینہ طیبہ میں تھے لیکن عذر نے ان کو روک رکھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4423]
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ معذورتھے، کسی مجبوری کی بنا پر سفر پر قادر نہیں تھے لیکن ان کی نیت درست تھی، اس لیے وہ ثواب میں صحابہ کرام ؓ کے ساتھ شریک تھ۔
اس سے معلوم ہوا کہ معذور جب کسی عذر کی وجہ سے کوئی کام چھوڑدے تو اسے کام کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔
اس حدیث میں بھی غزوہ تبوک کا حوالہ تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4423   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.