الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
20. بَابُ: {وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُمَا كُنْتُمْ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ} :
20. باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ جس جگہ سے بھی باہر نکلیں، اپنا منہ بوقت نماز مسجد الحرام کی طرف موڑ لیا کریں اور تم لوگ بھی جہاں کہیں ہو اپنا منہ اس کی طرف موڑ لیا کرو“ «ولعلكم تهتدون» تک۔
(20) Chapter. “And from wheresoever you start forth (for prayers), turn your face in the direction of Al-Masjid-Al-Haram (at Makkah), and wheresoever you are, turn your face towards it [when you pray)]...” (V.2:150)
حدیث نمبر: 4494
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد , عن مالك , عن عبد الله بن دينار , عن ابن عمر , قال: بينما الناس في صلاة الصبح بقباء إذ جاءهم آت , فقال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد انزل عليه الليلة وقد امر ان يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى القبلة".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: بَيْنَمَا النَّاسُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ بِقُبَاءٍ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ , فَقَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْقِبْلَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابھی لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے صاحب آئے اور کہا کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرف منہ کر لیں۔ وہ لوگ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے لیکن اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔

Narrated Ibn `Umar: While some people were offering Fajr prayer at Quba mosque, someone came to them and said, "Qur'anic literature" has been revealed to Allah's Messenger tonight, and he has been ordered to face the Ka`ba (of Mecca) so you too, should turn your faces towards it. Their faces were then towards Sham (Jerusalem), so they turned towards the Qibla (i.e. Ka`ba of Mecca).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 21


   صحيح البخاري4491عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة قرآن وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى الكعبة
   صحيح البخاري4490عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة قرآن وأمر أن يستقبل الكعبة ألا فاستقبلوها وكان وجه الناس إلى الشأم فاستداروا بوجوههم إلى الكعبة
   صحيح البخاري4488عبد الله بن عمرأنزل الله على النبي قرآنا أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها فتوجهوا إلى الكعبة
   صحيح البخاري7251عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة قرآن وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى الكعبة
   صحيح البخاري4494عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى القبلة
   صحيح البخاري403عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة قرآن وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى الكعبة
   صحيح مسلم1178عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى الكعبة
   سنن النسائى الصغرى494عبد الله بن عمرأمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى الكعبة
   سنن النسائى الصغرى746عبد الله بن عمرأمر أن يستقبل القبلة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى الكعبة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم111عبد الله بن عمرقد انزل عليه الليلة قرآن، وقد امر ان يستقبل الكعبة فاستقبلوها، وكانت وجوههم إلى الشام، فاستداروا إلى الكعبة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 111  
´قبلے کا بیان`
«. . . 277- مالك عن عبد الله بن دينار أن عبد الله بن عمر قال: بينما الناس بقباء فى صلاة الصبح، إذ جاءهم آت، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها، وكانت وجوههم إلى الشام، فاستداروا إلى الكعبة. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آدمی نے آ کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات قرآن نازل ہوا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کرو۔ وہ لوگ شام (قبلہ اولیٰ) کی طرف نماز پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے نماز میں ہی کعبہ کی طرف رخ پھیر لئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 111]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 403، ومسلم 526، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر راوی ثقہ وصدوق ہو تو خبر واحد حجت ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
➋ شرعی احکامات میں نسخ واقع ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا اپنے بعض احکامات کو منسوخ فرما دیا۔ «وهو عليٰ كل شيء قدير» ➌ پہلے بیت المقدس (قبلۂ اولیٰ) کی طرف نماز پڑھی جاتی تھی بعد میں بیت اللہ (مکہ) کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دے دیا گیا۔ اب قیامت تک یہی قبلہ ہے۔
➍ قبلہ کی سمت میں غلطی ہو گئی، بعد میں کسی نے بتایا تو پہلی نماز پر بنا کرے گا۔
➎ صحابہ کرام ہر وقت کتاب و سنت پر عمل کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔
➏ حافظ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ جس آدمی نے آکر کہا: تھا وہ (سیدنا) عباد بن بشیر (رضی اللہ عنہ) تھے۔ [التمهيد 17/46]
➐ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر تئیس سالہ دور نبوت میں قرآن مجید مختلف اوقات میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا ہے لیکن سارا قرآن «ليلة القدر» میں آسمان دنیا پر بیت معمور میں نازل کردیا گیا تھا۔
➑ اگر حالتِ نماز میں کسی عذر کی وجہ سے حالت بدل جائے تو نماز اس کے مطابق جاری رکھنی چاہئے۔
➒ اگر نیت صحیح ہو تو اجتہاد میں غلطی کی وجہ سے ثواب ملتا ہے۔ ایسی حالت میں نماز کے اعادے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
➓ جب شرعی عذر ہو تو نماز میں عمل کثیر بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 277   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 494  
´اجتہاد قبلہ متعین کرنے کے بعد اس کی غلطی واضح ہو جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات (وحی) نازل کی گئی ہے، اور آپ کو حکم ملا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کریں، لہٰذا تم لوگ بھی اسی کی طرف رخ کر لو، (اس وقت) ان کے چہرے شام (بیت المقدس) کی طرف تھے، تو وہ لوگ کعبہ کی طرف گھوم گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 494]
494 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے تو یہ اطلاع پہنچی، گویا ایسا ہی واقعہ مسجد بنوحارثہ میں عصر کی نماز کے اندر پیش آیا، لیکن چونکہ مسجد قباء کی اپنی فضیلت و اہمیت ہے، اس لیے اس کا نام مسجد قبلتین نہیں پڑا تاکہ بحیثیت مسجد قباء ہونے کے اس کی جو اہمیت ہے وہ دب نہ جائے، بخلاف مسجد قبلتین کے کہ اس کا قبلتین ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
➋تمام احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم ظہر کی نماز کے وقت اترا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کی طرف اولین نماز، ظہر کی پڑھی۔ آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں نے یہ اطلاع دوسری مساجد میں پہنچائی۔ مدینے والوں کو یہ اطلاع عصر کی نماز کے دوران میں ملی۔ انہوں نے نماز کی حالت ہی میں رخ بدل لیا۔ مسجد قباء میں شہر سے واپس جانے والوں نے صبح کی نماز کے وقت اطلاع پہنچائی۔
➌امام صاحب کا استدلال یوں ہے کہ تحویل قبلہ کے حکم کے بعد تین نمازیں اہل قباء نے غیرقبلہ کی طرف پڑھیں، لیکن چونکہ اس بات کا پتہ ان نمازوں کی ادائیگی کے بعد چلا، لہٰذا دہرانے کی ضرورت نہ تھی۔ اب ابھی اگر نماز کی ادائیگی کے بعد پتہ چلے کہ نماز غلط جانب پڑھی گئی ہے تو دہرانے کی ضرورت نہیں، بشرطیکہ نماز سے پہلے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 494   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 746  
´کوشش اور اجتہاد کے بعد قبلہ کے غلط ہو جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرآن نازل ہوا ہے، اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ قبلہ (کعبہ) کی طرف رخ کریں، تو ان لوگوں نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا، اور حال یہ تھا کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو وہ کعبہ کی طرف (جنوب کی طرف) گھوم گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 746]
746 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 494۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 746   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4494  
4494. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ ابھی مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے نے آ کر خبر دی: آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرح منہ کر لیں۔ وہ لوگ اس وقت شام (بیت المقدس) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے وہ اسی حالت میں کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4494]
حدیث حاشیہ:
تحویل قبلہ پر ایک تبصرہ:
نبی کریم ﷺ کی عادت مباکہ تھی کہ جس بارے میں کوئی حکم الٰہی موجونہ ہوتا، اس میں آپ اہل کتاب سے موافقت فرمایا کرتے تھے۔
نماز آغاز نبوت ہی سے فرض ہو چکی تھی۔
مگر قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا۔
اس لیے مکہ کی تیرہ سالہ اقامت کے عرصہ میں نبی انے بیت المقدس ہی کوقبلہ بنا ئے رکھا۔
مدینہ میں پہنچ کر بھی یہی عمل رہا، مگر ہجرت کے دوسرے سال یا 17ماہ کے بعد خدا نے اس بارے میں حکم نازل فرمایا، یہ حکم نبی کی دلی منشاء کے موافق تھا کیونکہ آپ دل سے چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ وہ مسجد بنا ئی جائے جس کے بانی حضرت ابراہیم ؑ تھے۔
جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے کعبہ اور صرف عبادت الٰہی کے لیے بنائے جانے کی وجہ سے بیت اللہ اور عظمت اور حمت کی وجہ سے مسجد الحرام کہا جاتا تھا۔
اس حکم میں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرما یا ہے۔
(1)
یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جملہ جہا ت سے یکساں نسبت ہے۔
﴿فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ﴾ (البقرہ: 115)
اور ﴿وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ (البقرہ: 148) (2)
اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف مقرر کر لینا طبقات دوم میں شائع رہا ہے۔
﴿وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا﴾ (البقرہ: 148) (2)
اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی طرف منہ کر لینا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا ﴿لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ﴾ (البقرہ: 177) (4)
اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعیین قبلہ کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ متبعین رسول کے لیے ایک ممیز عادت قرار دی جائے۔
﴿لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ﴾ (البقرہ: 143)
یہی وجہ تھی کہ جب تک نبی کریم ﷺ مکہ میں رہے، اس وقت تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا کیونکہ مشرکین مکہ بیت المقدس کے احترام کے قائل نہ تھے اور کعبہ کو تو انہوں نے خود ہی اپنا بڑا معبد بنا رکھا تھا۔
اس لیے شرک چھوڑ دینے اور اسلام قبول کر نے کی بین علامت مکہ میں یہی رہی کہ مسلمان ہونے والا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرے۔
جب نبی کریم ﷺ مدینہ پہنچے وہاں زیادہ تر یہودی یا عیسائی ہی آباد تھے وہ مکہ کی مسجد الحرام کی عظمت کے قائل نہ تھے اور بیت المقدس کو تو وہ بیت ایل یا ہیکل تسلیم کرتے ہی تھے۔
اس لیے مدینہ میں اسلام قبول کرنے اور آبائی مذہب چھوڑکر مسلمان بننے کی علامت یہ قرار پائی کہ مکہ کی مسجد الحرام کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جایا کرے۔
حکم الٰہی کے مطابق یہی مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ قرار پائی۔
اس مسجد کو قبلہ قرار دینے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے خودہی بیان فرمادی ہے ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ﴾ (آل عمران: 96)
یہ مسجد دنیا کی سب سے پہلی عمارت ہے جو خالص عبادت الٰہی کی غرض سے بنائی گئی ہے۔
چونکہ اسے تقدیم زمانی اور عظمت تاریخی حاصل ہے۔
اس لیے اس کو قبلہ بنایا جانا مناسب ہے۔
﴿وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾ (البقرہ: 27)
دوم یہ کہ اس مسجد کے بانی حضرت ابراہیم ؑ ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ ہی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانو ں کے جد اعلیٰ ہیں۔
اس لیے ان شاندار قوموں کے پدربزرگوار کی مسجد کو قبلہ قرار دینا گویا اقوام ثلاثہ کو اتحاد نسبی وجسمانی کی یاد دلاکر اتحاد روحانی کے لیے دعوت دینا اور متحد بن جانے کاپیغام ﴿ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً﴾ (البقرة: 208)
بنادینا تھا۔
(ازافادات حضرت قاضی سید سلیمان صاحب منصور پوری مرحوم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4494   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4494  
4494. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ ابھی مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے نے آ کر خبر دی: آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرح منہ کر لیں۔ وہ لوگ اس وقت شام (بیت المقدس) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے وہ اسی حالت میں کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4494]
حدیث حاشیہ:

مسلمانوں کے لیے جب بیت اللہ قبلہ بنا تو مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ برپاہو گیا۔
اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کردیں اور مختلف قسم کے شبہات پھیلانا شروع کردیے۔
ایسی فضا ختم کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ کرنے کے لیے کہ بیت اللہ اب ان کا ہمیشہ کے لیے قبلہ ہو گیا ہے ضرورت تھی کہ مختلف انداز میں یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرا دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا:
"سفر وحضر میں آپ کہیں بھی ہوں نماز میں اپنا رخ کعبے کی طرف کریں۔
" چونکہ یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے بھی تھا اس لیے امت اسلامیہ کو خطاب کر کے فرمایا:
"تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو نماز میں مسجد حرام کی طرف رخ کرو۔
" پھر اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے لیے فرمایا:
"بیت المقدس سے کعبے کی طرف تحویل قبلہ اللہ کی طرف سے ہے۔
" اس کے بعد تقریباً سب دشمنان اسلام کی زبانیں بند ہو گئیں سوائے چند ظالموں کے جنھیں کوئی نہ کوئی بات بتاتے رہنا تھا۔
واللہ اعلم۔

تحویل قبلہ کے متعلق جامع تبصرہ:
۔
تحویل قبلہ پر مشتمل احادیث کی مناسبت سے ہم قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری ؒ کا ایک جامع تبصرہ نقل کر رہے ہیں جو انھوں نے اپنی مایہ ناز کتاب "رحمۃ العالمین" میں تحویل کے متعلق رقم فرمایا ہے۔
نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جس بارہ میں کوئی حکم الٰہی موجود نہ ہوتا، اس میں آپ اہل کتاب سے موافقت فرمایاکرتے۔
نماز آغاز نبوت ہی میں فرض ہو چکی تھی مگر قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا، اس لیے مکہ کی تیرہ سالہ اقامت کے عرصہ میں نبی ﷺ نے بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رکھا۔
مدینہ میں پہنچ کر بھی یہی عمل جاری رہا مگر ہجرت کے دوسرے سال یا سترہ ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق نیا حکم نازل فرمایا۔
یہ حکم نبی ﷺ کی دلی منشا کے موافق تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ دل سے چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ وہ مسجد بنائی جائے جس کے بانی حضرت ابراہیم ؑ تھے۔
جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے "کعبہ" اور صرف عبادت الٰہی کے لیے بنائے جانے کی وجہ سے "بیت اللہ" اور عظمت و حرمت کی وجہ سے "مسجد الحرام" کہا جاتا تھا۔
اس کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا۔
وہ یہ ہے۔
(ا)
اللہ تعالیٰ کو جملہ جہات سے یکساں نسبت ہے، مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے۔
(البقرہ2/115) (ب)
عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف کا مقرر کر لینا طبقات مردم میں شائع رہا ہے (ہر صاحب مذہب نے کوئی جہت ضرور مقرر کی ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے۔
)
(البقرہ: 2/148) (ج)
کسی طرف منہ کرلینا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔
(ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں نہیں۔
)
(البقرہ: 177/2) (د)
تعیین قبلہ کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ اسے متبعین رسول کے لیے ایک ممیز علامت قرار دیا جائے تاکہ ہمیں پتہ چل جائے کہ رسول اللہ ﷺ کا سچا تابع فرمان کون ہے؟ اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے، (البقرہ: 143/2)
یہی وجہ تھی کہ جب تک رسول اللہ ﷺ مکہ میں رہے اس وقت بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا کیونکہ مشرکین مکہ بیت المقدس کی عظمت کے قائل نہ تھے اور کعبہ تو انھوں نے خود ہی اپنا بڑا معبد بنا رکھا تھا۔
اس لیے شرک چھوڑدینے اور اسلام قبول کرنے کی بین (واضح)
علامت مکہ میں یہی رہی کہ مسلمان ہونے والا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرے۔
جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو وہاں زیادہ یہودی یا عیسائی تھے وہ مسجد حرام کی عظمت کے قائل نہ تھے اور بیت المقدس کو تو وہ خود "بیت ایل یا ہیکل" تسلیم کرتے ہی تھے اس لیے مدینہ طیبہ میں اسلام قبول کرنے اور آبائی مذہب چھوڑ کر مسلمان بننے کی علامت یہ قرراپائی کہ مسجد الحرام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے۔
حکم الٰہی کے مطابق یہی مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ قرارپائی۔
اس مسجد کو قبلہ قراردینے کی وجہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان کر دی ہے۔
"اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے اور تمام دنیا کے لیے برکت والا اور باعث ہدایت ہے۔
'' (البقرہ: 127/2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد حرام دنیا کی سب سے اولین عمارت ہے جو خالص عبادت الٰہی کے لیے بنائی گئی ہے۔
چونکہ اسے تقدم زمانی اور تاریخی عظمت حاصل ہے، اس لیے اسے قبلہ بنایا جانا مناسب ہے۔
اس کے بانی حضرت ابراہیمؑ ہیں:
"اور اسماعیل ؑ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔
" (آل عمران: 96/3)
اور حضرت ابراہیم ؑ ہی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے جد اعلیٰ ہیں اس لیے ان شاندار قوموں کے پدربزگوارکی مسجد کو قبلہ قرار دینا گویا اقوام ثلاثہ کو اتحاد نسبی و جسمانی کی یاد دلا کر اتحاد روحانی کے لیے متحد بن جانے کا پیغام سنا دینا تھا۔
"ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔
'' (البقرة: 208/2۔
ماخوذ از رحمۃ العالمین: 199/1)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4494   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.