الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث 657 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
اخلاق و آداب سے متعلق مسائل
अख़लाक़ के बारे में
1. حسن اخلاق کا بیان
“ अच्छे अख़लाक़ के बारे में ”
حدیث نمبر: 458
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
43- وبه: انها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى امرين إلا اخذ ايسرهما ما لم يكن إثما. فإن كان إثما كان ابعد الناس منه. وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا ان تنتهك حرمة هي لله فينتقم لله بها.43- وبه: أنها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما. فإن كان إثما كان أبعد الناس منه. وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا أن تنتهك حرمة هي لله فينتقم لله بها.
اور اسی سند (کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن دو کاموں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ وہ گناہ والا (ناجائز) کام نہ ہوتا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کے لئے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی مقرر کردہ حرمت کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو اس صورت میں آپ اللہ کے لئے اس کا انتقام لیتے تھے۔
इसी सनद (के साथ हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा) से रिवायत है, उन्हों ने कहा ! रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को जिन दो कामों में अधिकार दिया गया तो आप ने उन में से आसान काम ही को अपनाया शर्त यह है वह नाजाइज़ काम न होता और अगर नाजाइज़ काम होता तो आप उस से सब से ज़्यादा दूर रहने वाले होते। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपनी जान के लिए किसी से कभी बदला नहीं लिया सिवाए इसके कि अल्लाह की तय की गई हुरमतों के विपरीत होता तो इस वजह से आप अल्लाह के लिए उस का बदला लेते थे।

تخریج الحدیث: «43- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 902/2، 903 ح 1736، ك 47 ب 1 ح 2) التمهيد 146/8، الاستذكار: 1668، و أخرجه البخاري (3560) ومسلم (2327/77) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري3215عائشة بنت عبد اللهأحيانا في مثل صلصلة الجرس فيفصم عني وقد وعيت ما قال وهو أشده علي ويتمثل لي الملك أحيانا رجلا فيكلمني فأعي ما يقول
   صحيح البخاري2عائشة بنت عبد اللهأحيانا يأتيني مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي فيفصم عني وقد وعيت عنه ما قال وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول
   صحيح مسلم6059عائشة بنت عبد اللهأحيانا يأتيني في مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي ثم يفصم عني وقد وعيته وأحيانا ملك في مثل صورة الرجل فأعي ما يقول
   جامع الترمذي3634عائشة بنت عبد اللهيأتيني في مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول
   سنن النسائى الصغرى935عائشة بنت عبد اللهأحيانا يأتيني في مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي فيفصم عني وقد وعيت ما قال وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول
   سنن النسائى الصغرى934عائشة بنت عبد اللهفي مثل صلصلة الجرس فيفصم عني وقد وعيت زيادة وهو أشده علي وأحيانا يأتيني في مثل صورة الفتى فينبذه إلي
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم458عائشة بنت عبد اللهاحيانا ياتيني مثل صلصلة الجرس وهو اشده علي، فيفصم عني وقد وعيت
   مسندالحميدي258عائشة بنت عبد اللهيأتيني أحيانا في مثل صلصلة الجرس فيفصم عني، وقد وعيت عنه، وهو أشد ما يأتيني، ويأتيني أحيانا في مثل صورة الفتى فينبذه إلي فأعيه، وهو أهونه علي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 934  
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: گھنٹی کی آواز کی طرح، پھر وہ بند ہو جاتی ہے اور میں اسے یاد کر لیتا ہوں، اور یہ قسم میرے اوپر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، اور کبھی وحی کا فرشتہ میرے پاس نوجوان آدمی کی شکل میں آتا ہے، اور وہ مجھ سے کہہ جاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 934]
934 ۔ اردو حاشیہ:
➊ آپ کے پاس وحی کس حالت میں آتی ہے؟ اس سوال میں تین چیزیں آ جاتی ہیں: (1) نفس وحی کی کیفیت (2) حامل وحی حضرت جبرائیل علیہ السلام کی کیفیت (3) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت۔ جواب میں ان تینوں چیزوں کی وضاحت ہے۔ اس حدیث میں وحی کی دو صورتوں کو بیان کیا گیا ہے جو عام طور پر آپ کو پیش آتی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی وحی کی مختلف صورتیں ہیں۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے وحی کے ساتھ مراتب ذکر کیے ہیں: (1) سچے خواب آنا۔ ان سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری کی صورت میں ویسے ہی ہو جاتا تھا۔ (2) فرشتے کا نظر آئے بغیر ہی کوئی چیز دل میں ڈال دینا جیسا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اراشاد ہے: «إنَّ روحَ القدسِ نفثَ في رَوعي………» بے شک روح القدس (جبریل امین) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی۔ [سلسلة الأحادیث الصحیحة: 865/6، حدیث: 2866]
➌ فرشتے کا انسانی شکل میں آپ پر وحی لانا جس کا مذکورہ حدیث میں بھی ذکر ہے۔ ایسے مواقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام عموما مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آتے تھے۔ بعض دفعہ کسی دوسرے انسان کی شکل میں بھی آجاتے تھے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک اجنبی کی صورت میں آئے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 8]
➍ کبھی گھنٹی کی طرح آواز آتی اور وحی کا نزول شروع ہو جاتا تھا۔ اس کا بیان بھی مذکورہ حدیث میں ہوا ہے۔ (5) فرشتے کا اصلی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لانا۔ اس طرح آپ پر دو مرتبہ وحی ہوئی۔ (6) آسمانوں پر اللہ تعالیٰ سے براہِ راست پس پردہ ہم کلام ہونا جیسے معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے اور آپ کو پچاس نمازوں کا ہدیہ ملا جو کم ہوتے ہوتے پانچ نمازیں مقرر ہوئیں۔ (7) فرشتے کے واسطے کے بغیر براہِ راست اللہ تعالیٰ کا پس پردہ ہم کلام ہونا جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا: « ﴿وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا﴾ » [النساء: 164: 4]
کوئی بشر اللہ تعالیٰ سے روبرو ہو کر کلام نہیں کر سکتا۔ ارشاد باری ہے: « ﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ » [الشوری: 51: 42]
کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے (روبرو ہو کر) بات کرے مگر دل میں القا کر کے یا پردے کے پیچھے سے۔ [زاد المعاد: 80-78/1]
گھنٹی جیسی آواز یہ وحی کی آواز ہوتی تھی جسے سمجھنا کافی مشکل تھا کیونکہ گھنٹی جیسی آواز سے الفاظ کو سمجھنا کافی توجہ کا متقاضی ہوتا ہے اور ان کے سمجھنے میں بڑی دقت ہوتی ہے، لہٰذا انہیں سمجھنے کے لیے کافی زیادہ مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ فرشتہ وحی لاتے وقت اپنے پروں کو پھڑپھڑاتا تھا، اس سے یہ آواز پیدا ہوتی تھی۔ اور بعض اہل علم نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہاں تشبیہ آواز کے ترنم میں نہیں بلکہ اس کے تسلسل اور قوت میں ہے کہ جس طرح گھنٹی کی آواز مسلسل اور شدت سے ظاہر ہوتی ہے اور کسی جگہ ٹوٹتی نہیں، اسی طرح وحی کی آواز بھی مسلسل شدید ہوتی تھی۔ مزید دیکھیے: [ذخیرہ العقبیٰ شرح سنن النسائي: 55/12]
اس صورت میں چونکہ فرشتہ آپ کو نظر نہیں آتا تھا بلکہ براہ راست دل پر القا ہوتا تھا، اس لیے یہ آپ کے لیے شدت اور ثقل کا سبب تھا۔ واللہ أعلم۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ پر سخت سردی کے دن میں وحی نازل ہوتی۔ جب وحی کا سلسلہ ختم ہو جاتا تو آپ کی پیشانی پسینے سے شرابور ہو چکی ہوتی تھی۔ [صحیح البخاري، بدء الوحي، حدیث: 2]
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے مطابق وحی کے وقت آپ کے کان اور آنکھیں خارج سے بند ہو جاتے تھے۔ نہ آپ کو کچھ نظر آتا تھا، نہ کوئی اور آواز سنائی دیتی تھی تاکہ وحی میں دخل اندازی نہ ہو، توجہ ادھر ادھر منعطف نہ ہو۔ یہ آواز دراصل کان بند ہونے کی وجہ سے ہوتی تھی، اس لیے یہ آواز ساری وحی کے دوران میں قائم رہتی ہو گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 934   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 935  
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی میرے پاس گھنٹی کی آواز کی شکل میں آتی ہے، اور یہ قسم میرے اوپر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، پھر وہ بند ہو جاتی ہے اور جو وہ کہتا ہے میں اسے یاد کر لیتا ہوں، اور کبھی میرے پاس فرشتہ آدمی کی شکل میں آتا ہے ۱؎ اور مجھ سے باتیں کرتا ہے، اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اسے یاد کر لیتا ہوں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کڑکڑاتے جاڑے میں آپ پر وحی اترتے دیکھا، پھر وہ بند ہوتی اور حال یہ ہوتا کہ آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 935]
935 ۔ اردو حاشیہ:
➊ فرشتے کا انسانی صورت اختیار کرنا احادیث صحیحہ سے بکثرت ثابت ہے۔ اس میں کوئی عقلی اشکال بھی نہیں۔ روشنی کتنے رنگ اختیار کرتی ہے، کبھی کسی رنگ میں نظر آتی ہے کبھی کسی میں، ویسے روشنی سفید ہے۔ سورج غروب و طلوع کے وقت سرخ نظر آتا ہے اور دوپہر کے وقت سخت سفید، حالانکہ وہ اس وقت کسی اور جگہ طلوع یا غروب ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز بے شمار ہیں، اس لیے حقیقتاً واضع ہونے والی چیز سے انکار کرنااہل عقل و خرد کا شیوہ نہیں۔
➋ سردیوں کے موسم میں بھی پسینہ بہہ نکلنا، وحی کے ثقل کی بنا پر تھا کیونکہ وحی کو اخذ کرتے وقت آپ کو بے انتہا جسمانی قوت صرف کرنی پڑتی تھی۔
➌ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرتے تھے اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اکتاہٹ وغیرہ کے محسوس کیے بغیر انہیں جواب دیتے اور انہیں دین کی باتیں سکھاتے تھے، پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے جو کچھ آپ سے سیکھا اور یاد کیا اسے کوئی بات چھپائے بغیر ہم تک پہنچایا۔ واللہ الحمد علی ذلك۔ (4) اطمینان قلب کے لیے دین کی کسی چیز کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا یقین کے منافی نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 935   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3634  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر وحی کیسے اترتی تھی؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ کے پاس وحی کیسے آتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی کبھی وہ میرے پاس گھنٹی کی آواز ۱؎ کی طرح آتی ہے اور یہ میرے لیے زیادہ سخت ہوتی ہے ۲؎ اور کبھی کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے، تو وہ جو کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت جاڑے کے دن میں آپ پر وحی اترتے دیکھی جب وہ وحی ختم ہوتی تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3634]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہتے ہیں: یہ آواز جبرئیل کی آواز ہوتی تھی جو ابتداء میں غیر مفہوم ہوتی تھی،
پھرسمجھ میں آ جاتی مگر بہت مشکل سے،
اسی لیے یہ شکل آپﷺ پر وحی کی تمام قسموں سے سخت ہوتی تھی کہ آپﷺ پسینہ پسینہ ہو جایا کرتے تھے،

بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ جبرئیل کے پروں کی آواز ہوتی تھی،
جو اس لیے ہوتی کہ آپﷺ وحی کے لیے چوکنا ہو جائیں،
جیسے فی زمانہ فون کی گھنٹی ہوتی ہے۔

2؎:
سب سے سخت ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3634   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.