صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ: {وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”اور اس ہی کے پاس ہیں غیب کے خزانے، انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔
(1) Chapter. “And With Him are the keys of the Ghaib, (all that is hidden), none knows them but He...” (V.6:59)
حدیث نمبر: Q4627
Save to word اعراب English
قال ابن عباس:" ثم لم تكن فتنتهم: معذرته، معروشات: ما يعرش من الكرم وغير ذلك، حمولة: ما يحمل عليها، وللبسنا: لشبهنا لانذركم به اهل مكة، يناون: يتباعدون تبسل تفضح، ابسلوا: افضحوا، باسطو ايديهم: البسط الضرب، وقوله استكثرتم: من الإنس اضللتم كثيرا مما، ذرا من الحرث: جعلوا لله من ثمراتهم ومالهم نصيبا وللشيطان والاوثان نصيبا اكنة واحدها كنان، اما اشتملت: يعني هل تشتمل إلا على ذكر او انثى، فلم تحرمون بعضا وتحلون بعضا، مسفوحا: مهراقا، صدف: اعرض، ابلسوا: اويسوا، وابسلوا: اسلموا، سرمدا: دائما، استهوته: اضلته، تمترون: تشكون، وقر: صمم واما الوقر فإنه الحمل، اساطير: واحدها اسطورة وإسطارة وهي الترهات الباساء من الباس ويكون من البؤس، جهرة: معاينة الصور جماعة صورة كقوله سورة وسور ملكوت ملك مثل رهبوت خير من رحموت، ويقول ترهب خير من ان ترحم وإن تعدل تقسط لا يقبل منها في ذلك اليوم، جن: اظلم تعالى علا يقال على الله حسبانه اي حسابه، ويقال حسبانا مرامي ورجوما للشياطين مستقر في الصلب ومستودع: في الرحم القنو العذق والاثنان قنوان والجماعة ايضا قنوان مثل صنو وصنوان.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ: مَعْذِرَتُه، مَعْرُوشَاتٍ: مَا يُعْرَشُ مِنَ الْكَرْمِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، حَمُولَةً: مَا يُحْمَلُ عَلَيْهَا، وَلَلَبَسْنَا: لَشَبَّهْنَا لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ أَهْلَ مَكَّةَ، يَنْأَوْنَ: يَتَبَاعَدُونَ تُبْسَلُ تُفْضَحُ، أُبْسِلُوا: أُفْضِحُوا، بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ: الْبَسْطُ الضَّرْبُ، وَقَوْلُهُ اسْتَكْثَرْتُمْ: مِنَ الْإِنْسِ أَضْلَلْتُمْ كَثِيرًا مِمَّا، ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ: جَعَلُوا لِلَّهِ مِنْ ثَمَرَاتِهِمْ وَمَالِهِمْ نَصِيبًا وَلِلشَّيْطَانِ وَالْأَوْثَانِ نَصِيبًا أَكِنَّةً وَاحِدُهَا كِنَانٌ، أَمَّا اشْتَمَلَتْ: يَعْنِي هَلْ تَشْتَمِلُ إِلَّا عَلَى ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، فَلِمَ تُحَرِّمُونَ بَعْضًا وَتُحِلُّونَ بَعْضًا، مَسْفُوحًا: مُهْرَاقًا، صَدَفَ: أَعْرَضَ، أُبْلِسُوا: أُويِسُوا، وَأُبْسِلُوا: أُسْلِمُوا، سَرْمَدًا: دَائِمًا، اسْتَهْوَتْهُ: أَضَلَّتْهُ، تَمْتَرُونَ: تَشُكُّونَ، وَقْرٌ: صَمَمٌ وَأَمَّا الْوِقْرُ فَإِنَّهُ الْحِمْلُ، أَسَاطِيرُ: وَاحِدُهَا أُسْطُورَةٌ وَإِسْطَارَةٌ وَهْيَ التُّرَّهَاتُ الْبَأْسَاءُ مِنَ الْبَأْسِ وَيَكُونُ مِنَ الْبُؤْسِ، جَهْرَةً: مُعَايَنَةً الصُّوَرُ جَمَاعَةُ صُورَةٍ كَقَوْلِهِ سُورَةٌ وَسُوَرٌ مَلَكُوتٌ مُلْكٌ مِثْلُ رَهَبُوتٍ خَيْرٌ مِنْ رَحَمُوتٍ، وَيَقُولُ تُرْهَبُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُرْحَمَ وَإِنْ تَعْدِلْ تُقْسِطْ لَا يُقْبَلْ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، جَنَّ: أَظْلَمَ تَعَالَى عَلَا يُقَالُ عَلَى اللَّهِ حُسْبَانُهُ أَيْ حِسَابُهُ، وَيُقَالُ حُسْبَانًا مَرَامِيَ وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ مُسْتَقِرٌّ فِي الصُّلْبِ وَمُسْتَوْدَعٌ: فِي الرَّحِمِ الْقِنْوُ الْعِذْقُ وَالِاثْنَانِ قِنْوَانِ وَالْجَمَاعَةُ أَيْضًا قِنْوَانٌ مِثْلُ صِنْوٍ وَصِنْوَانٍ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ثم لم تكن فتنتهم‏» کا معنی پھر ان کا اور کوئی عذر نہ ہو گا۔ «معروشات‏» کا معنی ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور وغیرہ (جن کی بیل ہوتی ہے)۔ «حمولة‏» کا معنی «لدو» یعنی بوجھ لادنے کے جانور۔ «وللبسنا‏» کا معنی ہم شبہ ڈال دیں گے۔ «ينأون‏» کا معنی دور ہو جاتے ہیں۔ «تبسل» کا معنی رسوا کیا جائے۔ «أبسلوا‏» رسوا کئے گئے۔ «باسطو أيديهم‏» میں «بسط» کے معنی مارنا۔ «استكثرتم‏» یعنی تم نے بہتوں کو گمراہ کیا۔ «وجعلوا لله من ثمراتهم ومالهم نصيبا» یعنی انہوں نے اپنے پھلوں اور مالوں میں اللہ کا ایک حصہ اور شیطان اور بتوں کا ایک حصہ ٹھہرایا۔ «اكنة»، «كنان» کی جمع ہے یعنی پردہ۔ «أما اشتملت‏» یعنی کیا مادوں کی پیٹ میں نر مادہ نہیں ہوتے پھر تم ایک کو حرام ایک کو حلال کیوں بناتے ہو۔ اور «وما مسفوحا‏» یعنی بہایا گیا خون۔ «صدف‏» کا معنی منہ پھیرا۔ «أبلسوا‏» کا معنی ناامید ہوئے۔ «فاذاهم مبلسون» میں اور «أبسلوا‏ بما كسبوا» میں یہ معنی ہے کہ ہلاکت کے لیے سپرد کئے گئے۔ «سرمدا‏» کا معنی ہمیشہ۔ «استهوته‏» کا معنی گمراہ کیا۔ «يمترون‏» کا معنی شک کرتے ہو۔ «وقر‏» کا معنی بوجھ (جس سے کان بہرا ہو)۔ اور «وقر‏» بکسرہ واؤ معنی بوجھ جو جانور پر لادا جائے۔ «أساطير‏»، «أسطورة» اور «إسطارة» کی جمع ہے یعنی واہیات اور لغو باتیں۔ «البأساء»، «بأس» سے نکلا ہے یعنی سخت مایوس سے یعنی تکلیف اور محتاجی نیز «بؤس‏.‏» سے بھی آتا ہے اور محتاج۔ «جهرة‏» کھلم کھلا۔ «صور» ( «يوم ينقخ فى الصور») میں «صورت» کی جمع جیسے «سور»، «سورة» کی جمع۔ «ملكوت» سے «ملك» یعنی سلطنت مراد ہے۔ جیسے «رهبوت» اور «رحموت» مثل ہے «رهبوت» یعنی ڈر۔ «رحموت» (مہربانی) سے بہتر ہے اور کہتے ہیں تیرا ڈرایا جانا بچہ پر مہربانی کرنے سے بہتر ہے۔ «جن‏ عليه اليل» رات کی اندھیری اس پر چھا گئی۔ «حسبان» کا معنی «حساب» ۔ کہتے ہیں اللہ پر اس کا «حسبان» یعنی «حساب» ہے اور بعضوں نے کہا «حسبان» سے مراد تیر اور شیطان پر پھینکنے کے حربے۔ «مستقر» باپ کی پشت۔ «مستودع‏» ماں کا پیٹ۔ «قنو» (خوشہ) گچھہ اس کا تثنیہ «قنوان» اور جمع بھی «قنوان» جیسے «صنو» اور «صنوان‏.» (یعنی جڑ ملے ہوئے درخت)۔

حدیث نمبر: 4627
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" مفاتح الغيب خمس: إن الله عنده علم الساعة، وينزل الغيث، ويعلم ما في الارحام، وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَفَاتِحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ، وَيُنْزِلُ الْغَيْثَ، وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ، وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کے خزانے پانچ ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ بیشک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور نہ کوئی یہ جان سکتا ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا، بیشک اللہ ہی علم والا ہے، خبر رکھنے والا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah: Allah's Messenger said, "The key of the Unseen are five: Verily with Allah (Alone) is the knowledge of the Hour He sends down the rain and knows what is in the wombs. No soul knows what it will earn tomorrow, and no soul knows in what land it will die. Verily, Allah is All-Knower, All-Aware." (31.34)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 151


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري1039عبد الله بن عمرمفتاح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم أحد ما يكون في غد ولا يعلم أحد ما يكون في الأرحام ولا تعلم نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت وما يدري أحد متى يجيء المطر
   صحيح البخاري7379عبد الله بن عمرمفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله
   صحيح البخاري4778عبد الله بن عمرمفاتيح الغيب خمس ثم قرأ إن الله عنده علم الساعة
   صحيح البخاري4697عبد الله بن عمرمفاتح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله
   صحيح البخاري4627عبد الله بن عمرمفاتح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4627 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4627  
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی علامات تو بیان فرمائی ہیں لیکن قیامت کے واقع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ماں کے پیٹ میں مشینی ذرائع سے بچے کے نر مادہ ہونے کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہو لیکن وہ بچہ نیک ہے یا بد، ناقص ہے یا کامل، خوبصورت ہے یا بد صورت کالا ہے یا گورا ان باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و قرآئن سے اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ اندازے کبھی غلط نکلتے اور کبھی صحیح بھی ہو جاتے ہیں حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔

انسان کل کیا کرے گا؟ کسی کو آنے والے کل کے متعلق کوئی علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟ موت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔
وہ گھر میں آئے گی یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں، اپنی خواہشات کی تکمیل کے بعد آئےگی یا تمنائیں دھری کی دھری رہ جائیں گی، اس کے متعلق اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں ہے۔
ان تمام باتوں کے متعلق وہ تفصیلی علم رکھتا ہے گویا کتاب مبین یا لوح محفوظ ایک ایسا نورانی تختہ ہے جس میں ازل سے کائنات کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے، پھر اسی کے مطابق اس جہان میں واقعات ظاہر ہو رہے ہیں اسی کے مطابق اس جہان کا خاتمہ ہو گا پھر روز آخرت قائم ہو گا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4627   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4778  
4778. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی کنجیاں پانچ ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: بےشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4778]
حدیث حاشیہ:
ان پانچ باتوں کو خزانہ غیب کی کنجیاں کہا گیا ہے جس کا علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے جو کوئی ان میں سے کسی کے جاننے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے اور جو کسی غیر اللہ کے لئے ایسا عقیدہ رکھے وہ اشراک فی العلم کے شرک کا مرتکب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4778   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1039  
1039. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا؟ کسی کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا؟ کسی کو خبر نہیں کہ بارش کب برسے گی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1039]
حدیث حاشیہ:
جب اللہ تعالی نے صاف قرآن میں اور پیغمبر صاحب نے فرما دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ برسات کب پڑے گی تو جس شخص میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ ان دھوتی بند پنڈتوں کی بات کیوں مانے گا اور جو مانے اور ان پر اعتقاد رکھے معلوم ہوا وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے اور کافر ہے۔
لطف یہ ہے کہ رات دن پنڈتوں کا جھوٹ اور بے تکا پن دیکھتے جاتے ہیں اور پھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر کافر لوگ ایسا کریں تو چنداں تعجب نہیں۔
حیرت ہوتی ہے باوجود دعویٰ اسلام مسلمان بادشاہ اور امیر نجومیوں کی باتیں سنتے ہیں اور آئندہ واقعات پوچھتے ہیں۔
معلوم نہیں کہ ان نام کے مسلمانوں کی عقل کہا ں تشریف لے گئی ہے۔
صدہا مسلمان بادشاہتیں انہیں نجومیوں پہ اعتقاد رکھنے سے تباہ اور برباد ہو چکی ہیں اور اب بھی مسلمان بادشاہ اس حرکت سے باز نہیں آتے جو کفر صریح ہے:
لاحول ولا قوة إلا باللہ العظیم (مولانا وحید الزماں)
آیت کریمہ میں غیب کی پانچ کنجیوں کو بیان کیا گیا ہے جو خاص اللہ ہی کے علم میں ہیں اور علم غیب خاص اللہ ہی کو حاصل ہے۔
جو لوگ انبیاءاولیاء کے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی روسے صریح کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
پوری آیت شریفہ یہ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ ) (لقمان: 34)
یعنیبے شک قیامت کب قائم ہوگی یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو ہے اور وہی بارش اتارتا ہے (کسی کو صحیح علم نہیں کہ بالضرورفلاں وقت بارش ہو جائے گی)
اور صرف وہی جانتا ہے کہ مادہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ، اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گااور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سی زمین پر انتقال کرے گا بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
یہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جن کا علم سوائے اللہ پاک کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔
قیامت کی علامات تو احادیث اور قرآن میں بہت کچھ بتلائی گئی ہیں اور ان میں سے اکثر نشانیاں ظاہر بھی ہو رہی ہیں مگر خاص دن تاریخ وقت یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے، اسی طرح بارش کے لیے بہت سی علامات ہیں جن کے ظہور کے بعد اکثر بارش ہو جاتی ہے پھر بھی خاص وقت نہیں بتلایا جا سکتا۔
اس لیے کہ بعض دفعہ بہت سی علامتوں کے باوجود بارش ٹل جایا کرتی ہے اور ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ اس کا صحیح علم بھی کسی حکیم ڈاکٹر کو حاصل ہے نہ کسی کاہن نجومی پنڈت ملا کو یہ خاص اللہ پاک ہی جانتا ہے، اسی طرح ہم کل کیا کام کریں گے یہ بھی خاص اللہ ہی کو معلوم ہے جب کہ ہم روزانہ اپنے کاموں کا نقشہ بناتے ہیں مگر بیشتر اوقات وہ جملہ نقشے فیل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قبر کہاں بننے والی ہے۔
الغرض علم غیب جزوی اور کلی طورپر صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے ہاں وہ جس قدر چاہتا ہے کبھی کبھار اپنے محبوب بندوں کو کچھ چیزیں بتلادیا کرتا ہے مگر اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا یہ تو اللہ کا عطیہ ہے وہ جس قدر چاہے اور جب چاہے اور جسے چاہے اس کو بخش دے۔
اس کو غیب دانی کہنا بالکل جھوٹ ہے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں باب کی مناسبت سے اس حدیث کو نقل فرما کر ثابت فرمایا کہ بارش ہونے کا صحیح علم صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے اور کوئی نہیں بتلا سکتا کہ یقینی طور پر فلاں دن فلاں وقت بارش ہو جائے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1039   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4697  
4697. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خزانہ غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ عورتوں کے رحم میں کیا کمی بیشی ہوتی ہے۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب برسے گی۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں واقع ہو گی۔ اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4697]
حدیث حاشیہ:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ علم غیب خاص اللہ کے لئے ہے جو کسی غیر کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھے وہ جھوٹا ہے۔
پیغمبروں کو بھی علم غیب حاصل نہیں ان کو جو کچھ اللہ چاہتا ہے وحی کے ذریعہ معلوم کرا دیتا ہے۔
اسے غیب دانی نہیں کہا جاسکتا۔
حمل کی کمی بیشی کا مطلب یہ ہے کہ پیٹ میں ایک بچہ ہے یا دو بچے یا تین یا چار۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4697   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7379  
7379. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: رحم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں۔ اللہ کے سوا کسی کو پتا نہیں کہ کل کیا ہوگا؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی۔ اللہ کے سوا کسی شخص کو علم نہیں کہ وہ کس زمین میں فوت ہوگا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7379]
حدیث حاشیہ:
اس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ غیب کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہ تھا مگر جو بات اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلا دیتا وہ معلوم ہو جاتی۔
ابن اسحاق نے مغازیت میں نقل کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی تو ابن صلیت کہنے لگا۔
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
اپنے تئیں پیغمبر کہتے ہیں اور آسمان کے حالات تم سے بیان کرتے ہیں لیکن ان کو اپنی اونٹنی کی خبر نہیں وہ کہاں ہے؟ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو فرمایا کہ ایک شخص ایسا ایسا کہتا ہے اور تو قسم خدا کی وہی بات جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتلائی اور اب اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتلا دیا وہ اونٹنی فلاں گھاٹی میں ہے‘ ایک درخت پر اٹکی ہوئی ہے‘ آخر صحابہ گئے اور اس کو لے کر آئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7379   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1039  
1039. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا؟ کسی کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا؟ کسی کو خبر نہیں کہ بارش کب برسے گی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1039]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس مرکزی عنوان کے اختتام پر امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک نظریاتی اصلاح کو ضروری خیال کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بارش ہونے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ فلاں دن یا فلاں وقت یقینی طور پر بارش ہو جائے گی۔
محکمۂ موسمیات بھی اپنے ظن و تخمین سے پیش گوئی کرتا ہے جو غلط بھی ہو جاتی ہے۔
مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ )
بےشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔
وہی بارش برساتا ہے۔
وہی جانتا ہے کہ شکم مادر میں کیا ہے۔
نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ کل کیا کام کرے گا اور نہ یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں مرے گا۔
یقینا اللہ یہ سب کچھ خوب جاننے والا بڑا باخبر ہے۔
(لقمان34: 31) (2)
آج کل رحم مادر کے متعلق بہت بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ جدید آلات کے ذریعے سے بچے کے نر اور مادہ ہونے کا پتہ لگا لیا جاتا ہے، حالانکہ ماں کے پیٹ میں صرف نر مادہ نہیں بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب فرشتہ جنین میں روح ڈالتا ہے تو اس کی عمر، اس کی روزی، وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت، الغرض یہ تمام باتیں بھی رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں، نیز جدید آلات سے جو کچھ پتہ لگایا جاتا ہے وہ بھی یقینی اور حتمی نہیں ہوتا۔
روز مرہ کے سینکڑوں واقعات و مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں۔
ویسے بھی اس طرح کی معلومات کے متعلق دلچسپی رکھنا بے سود ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کی پیش گوئی کی بنا پر گھر میں تقریبات کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں کہ اچانک لڑکے کے بجائے لڑکی کی پیدائش ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے، اس لیے الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے سے معلومات لینا فضول شوق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1039   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4697  
4697. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خزانہ غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ عورتوں کے رحم میں کیا کمی بیشی ہوتی ہے۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب برسے گی۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں واقع ہو گی۔ اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4697]
حدیث حاشیہ:

درج ذیل آیت میں بھی حدیث کا مضمون بیان ہوا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔
بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔
(لقمان: 31۔
34)


اس حدیث میں جن پانچ چیزوں کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان کا علم کسی مخلوق کو نہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی انھیں جانتا ہے یہ کوئی تخصیص نہیں ہے بصورت دیگر درج آیل آیت سے تعارض ہو جائے گا۔
کہہ دیجیے! آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔
(النمل27۔
65)

یعنی اللہ تعالیٰ علم غیب کے متعلق یکتا و تنہا ہے۔
اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4697   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4778  
4778. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی کنجیاں پانچ ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: بےشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4778]
حدیث حاشیہ:
ان پانچ باتوں کو غیب کی چابیاں کہا گیا ہے، جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس کے سوا کسی نبی، فرشتے، ولی یا نیک بندے کو کوئی علم نہیں۔
اگر کوئی ان کے جاننے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا، مکار اور دغاباز ہے۔
جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں اس قسم کا عقیدہ رکھے تو وہ شرک فی العلم کا مرتکب ہے۔
اللہ تعالیٰ اس سے اہل اسلام کو محفوظ رکھے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4778   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7379  
7379. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: رحم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں۔ اللہ کے سوا کسی کو پتا نہیں کہ کل کیا ہوگا؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی۔ اللہ کے سوا کسی شخص کو علم نہیں کہ وہ کس زمین میں فوت ہوگا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7379]
حدیث حاشیہ:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں انھیں اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔
" (الأنعام: 59)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر بیان فرمائی ہے آیت کریمہ سےمعلوم ہوا کہ غیب کے سب علوم ایک مخصوص مقام پر خزانوں کی صورت میں سربمہر بند ہیں، پھر انھیں مقفل کر دیا گیا ہے۔
ان تالوں کی چابیاں صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، ان خزانوں پر مطلع ہونا تو درکنار ان چابیوں کا علم بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔
جہاں یہ خزانے سربمہر ہیں وہاں ہرچیز کی مقادیراللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ دی ہیں۔
اسی مقام کوقرآن مجید میں لوح محفوظ، ام الکتاب، امام مبین، کتاب مکنون اور کتاب مبین کہا گیا ہے۔
یہی مقادیر تمام مخلوقات کا مبدا یا نقطہ آغاز ہیں۔
ان خزانوں تک ان خزانوں کے مالک کے علاوہ اور کسی کی رسائی ممکن نہیں۔
ان خزانوں کی وسعت کو عام لوگوں کے ذہن نشین کرانے کےلیے اللہ تعالیٰ نے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بحروبر(خشکی اور تری)
میں جو کچھ ہے اسے وہی جانتا ہے کوئی پتا (بھی)
نہیں گرتا مگروہ اسے جانتا ہے نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہی ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو۔
تر اور خشک جو کچھ بھی ہے سب کتاب مبین میں موجود ہے۔
(الأنعام 59)

کائنات میں جو کچھ ہو چکا ہے اور جو آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے ان تمام باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ تفصیلی علم رکھتا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر پانچ چیزوں کے متعلق اس طرح وضاحت کی ہے:
بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔
وہی بارش برساتا ہے اور وہی (یقینی طور پر)
جانتا ہے جو کچھ رحموں(ماؤں کے پیٹوں)
میں ہے۔
اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا ہے ہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔
بے شک اللہ ہی ہے جو سب کچھ جاننے والا پوری خبررکھنے والا ہے۔
(لقمان 31/34)
مذکورہ امور غیب ایسے ہیں جن کا علم کسی انسان کو نہیں ہو سکتا۔
ان پانچ چیزوں میں گویا سارے جہاں سمٹ آئے ہیں۔
قیامت سے مراد امور آخرت ہیں۔
ان میں سے صرف قیامت کا ذکر کیا ہے جو دنیا کے زیادہ قریب ہے۔
اس قیامت کے متعلق کسی کو علم نہیں کہ وہ کب آئے گی، چہ جائیکہ اس کے بعد واقع ہونے والے واقعات کا کسی کو علم ہو۔
نفع والی بارش کے متعلق بھی کسی کو علم نہیں، اس سے عالم بالا کی طرف اشارہ کیا ہے، ان میں سے بارش کا ذکر کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں لیکن اس کے باوجود قطعی علم کسی کو نہیں ہے۔
محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں بھی ظن وتخمین اور اندازوں پر مبنی ہوتی ہیں۔
ماں کے پیٹ میں کیا کچھ ہے؟ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب جنین میں روح ڈالی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ اس کی عمر، اس کی روزی، خوشحال ہوگا یا تنگ دست، نیز یہ کہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت، یہ تمام باتیں رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں۔
اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ہرمادہ جو کچھ اپنے پیٹ میں اٹھائے ہوئے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے اور جو کچھ ان کے پیٹوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے وہ اسے بھی جانتاہے۔
(الرعد 8)
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں کہ رحم مادہ میں نطفے پر کیا کچھ تغیرات واقع ہوتے ہیں اور اس سے شکل وصورت کیسے بنتی ہے۔
چوتھی بات کہ وہ کل کیا کرے گا، اس زمانے کے انواع اور اس میں ہونے والے حوادث کی طرف اشارہ ہے۔
ان میں آئندہ کل کا ذکر کیا ہے جو انسان کے بہت قریب ہے۔
جو مستقبل قریب میں ہونے والے حادثات کو نہیں جانتا وہ مستقبل بعید کے واقعات کو کیسے معلوم کر سکتا ہے، یعنی انسان کو کوئی پتا نہیں ہے کہ اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی یا نہیں بلکہ اسے کل تک جینا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔
آخری بات یہ کہ اس نے کب اور کہاں مرنا ہے؟ اس سے عالم زیریں کی طرف اشارہ ہے ان میں سے صرف کسی سرزمین میں مرنے کا ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں موت آتی ہے لیکن اس کے باوجود موت کے وقت قدرت اسے کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
موت آنے کے بعد بھی پتا نہیں ہوتا کہ اس نے دفن ہونا ہے یا نہیں، اگر ہوتا ہے تو کفن میں یا اس کے بغیر اور کسی جگہ پر یا بے گوروکفن درندوں اور پرندوں کی خوراک بننا ہے۔
یہ سب معاملات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
یہ پانچ امور ایسے ہیں جن سے ہر انسان کو دلچپسی ہوتی ہے، اس لیے خاص طور پران کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ بہت سے ایسے امور ہیں جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تک کسی انسان کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

واضح رہے کہ غیب کی دو قسمیں ہیں:
۔
ایک قسم کا تعلق ذات باری تعالیٰ اور اس کی صفات کے حقائق سے ہے۔
۔
دوسری قسم کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہے۔
ان تمام حقائق کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ جس قدر چاہتا ہے اپنے انبیاء علیہم السلام کو اس پر مطلع کر دیتا ہے اور جس کی اطلاع کر دے وہ غیب نہیں رہتا کیونکہ وہ وحی کے ذریعے سے معلوم ہو جاتا ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 112/1، 113)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7379   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.