الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
The Book on Government
2. باب الاِسْتِخْلاَفِ وَتَرْكِهِ:
2. باب: خلیفہ بنانے اور اس کو چھوڑنے کا بیان۔
Chapter: Appointing a successor or not doing so
حدیث نمبر: 4714
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وابن ابي عمر ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد والفاظهم متقاربة، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، اخبرني سالم ، عن ابن عمر ، قال: " دخلت على حفصة، فقالت: اعلمت ان اباك غير مستخلف، قال: قلت: ما كان ليفعل، قالت: إنه فاعل، قال: فحلفت اني اكلمه في ذلك، فسكت حتى غدوت ولم اكلمه، قال: فكنت كانما احمل بيميني جبلا حتى رجعت، فدخلت عليه، فسالني عن وانا اخبره حال الناس، قال: ثم قلت له: إني سمعت الناس، يقولون مقالة، فآليت ان اقولها لك زعموا انك غير مستخلف، وإنه لو كان لك راعي إبل او راعي غنم ثم جاءك وتركها رايت ان قد ضيع، فرعاية الناس اشد، قال: فوافقه قولي، فوضع راسه ساعة ثم رفعه إلي، فقال " إن الله عز وجل يحفظ دينه، وإني لئن لا استخلف، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف، وإن استخلف فإن ابا بكر قد استخلف، قال: فوالله ما هو إلا ان ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، فعلمت انه لم يكن ليعدل برسول الله صلى الله عليه وسلم، احدا وانه غير مستخلف ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد وألفاظهم متقاربة، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقَالَتْ: أَعَلِمْتَ أَنَّ أَبَاكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ، قَالَ: قُلْتُ: مَا كَانَ لِيَفْعَلَ، قَالَتْ: إِنَّهُ فَاعِلٌ، قَالَ: فَحَلَفْتُ أَنِّي أُكَلِّمُهُ فِي ذَلِكَ، فَسَكَتُّ حَتَّى غَدَوْتُ وَلَمْ أُكَلِّمْهُ، قَالَ: فَكُنْتُ كَأَنَّمَا أَحْمِلُ بِيَمِينِي جَبَلًا حَتَّى رَجَعْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَسَأَلَنِي عَنْ وَأَنَا أُخْبِرُهُ حَالِ النَّاسِ، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ لَهُ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّاسَ، يَقُولُونَ مَقَالَةً، فَآلَيْتُ أَنْ أَقُولَهَا لَكَ زَعَمُوا أَنَّكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ، وَإِنَّهُ لَوْ كَانَ لَكَ رَاعِي إِبِلٍ أَوْ رَاعِي غَنَمٍ ثُمَّ جَاءَكَ وَتَرَكَهَا رَأَيْتَ أَنْ قَدْ ضَيَّعَ، فَرِعَايَةُ النَّاسِ أَشَدُّ، قَالَ: فَوَافَقَهُ قَوْلِي، فَوَضَعَ رَأْسَهُ سَاعَةً ثُمَّ رَفَعَهُ إِلَيَّ، فَقَالَ " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْفَظُ دِينَهُ، وَإِنِّي لَئِنْ لَا أَسْتَخْلِفْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَخْلِفْ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَدِ اسْتَخْلَفَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَعْدِلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدًا وَأَنَّهُ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ ".
سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، کہا: میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، انہوں نے کہا: کیا تم کو علم ہے کہ تمہارے والد کسی کو (اپنا) جانشیں مقرر نہیں کر رہے؟ میں نے کہا: وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ کہنے لگیں: وہ یہی کرنے والے ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے قسم کھائی کہ میں اس معاملے میں ان سے بات کروں گا، پھر میں خاموش ہو گیا حتی کہ صبح ہو گئی اور میں نے ان سے اس معاملے میں بات نہیں کی تھی، اور مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں نے اپنے دائیں ہاتھ میں پہاڑ اٹھایا ہوا ہے (مجھ پر اپنی قسم کا بہت زیادہ بوجھ تھا) آخر کار میں واپس آیا اور ان کے پاس گیا، انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دریافت کیا، میں آپ کو حالات سے باخبر کرنے لگا، پھر میں نے ان سے کہا: میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی اور وہ سن کر میں نے قسم کھائی کہ وہ میں آپ سے ضرور بیان کروں گا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کسی کو اپنا جانشیں نہیں بنائیں گے اور بات یہ ہے کہ اگر آپ کا کوئی اونٹوں یا بکریوں کا چرواہا ہو اور وہ آپ کے پاس چلا آئے اور ان کو ایسے ہی چھوڑ دے تو آپ یہی کہیں گے کہ اس نے ان کو ضائع کر دیا ہے۔ سو لوگوں کی نگہبانی تو اس سے زیادہ ضروری ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو میری رائے ٹھیک معلوم ہوئی، انہوں نے گھڑی بھر سر جھکائے رکھا، پھر میری طرف سر اٹھا کر فرمایا: بلاشبہ اللہ عزوجل اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں کسی کو جانشیں نہ بناؤں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو جانشیں مقرر نہیں کیا تھا اور اگر میں کسی کو جانشیں بناؤں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جانشیں بنایا تھا۔ (دونوں میں سے کسی بھی مثال پر عمل کیا جا سکتا ہے۔) انہوں (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: اللہ کی قسم! جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں نے جان لیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کبھی نہیں ہٹیں گے اور وہ کسی کو جانشیں بنانے والے نہیں
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا، تو انہوں نے کہا، کیا تمہیں معلوم ہے، تمہارے باپ کسی کو جانشین مقرر نہیں کر رہے؟ میں نے کہا، وہ ایسا نہیں کریں گے، انہوں نے کہا، وہ ایسا ہی کریں گے، تو میں نے قسم اٹھائی، کہ میں اس مسئلہ میں ان سے گفتگو کروں گا، لیکن میں خاموش رہا، حتیٰ کہ صبح ہو گئی اور میں نے ان سے گفتگو نہ کی اور قسم اٹھانے کے باعث مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا، گویا کہ میں پہاڑ اٹھائے ہوئے ہوں، حتیٰ کہ میں واپس آ کر ان کے پاس حاضر ہوا، تو انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دریافت کیا اور میں نے انہیں آگاہ کیا، میں نے ان سے پوچھا، میں نے لوگوں سے ایک بات سنی ہے اور میں نے قسم اٹھائی ہے، کہ وہ میں آپ کو بتاؤں گا، لوگوں کا خیال ہے، آپ خلیفہ مقرر نہیں کر رہے اور صورت حال یہ ہے، اگر آپ کے اونٹوں کا کوئی چرواہا ہو یا آپ کی بکریوں کا چرواہا ہو، پھر وہ انہیں چھوڑ کے آپ کے پاس آ جائے اور آپ کی رائے میں اس نے ان کو ضائع کر دیا ہو گا، تو لوگوں کی نگرانی کا معاملہ تو بڑا سنگین ہے اور انہوں نے میری موافقت کی اور کچھ دیر کے لیے اپنا سر جھکا لیا، پھر اسے اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا، اللہ عزوجل اپنے دین کا محافظ ہے، وہ حفاظت کرے گا اور اگر میں خلیفہ نہ بناؤں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ نہیں بنایا تھا اور اگر خلیفہ مقرر کروں تو ابوبکر خلیفہ بنا چکے ہیں، اللہ کی قسم! جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر کا ذکر کیا، تو مجھے یقین ہو گیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو قرار نہیں دیں گے اور وہ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1823

   صحيح مسلم4714عبد الله بن عمررسول الله لم يستخلف
   صحيح مسلم4713عبد الله بن عمرذكر رسول الله غير مستخلف
   جامع الترمذي2225عبد الله بن عمرلم يستخلف رسول الله
   سنن أبي داود2939عبد الله بن عمرما هو إلا أن ذكر رسول الله وأبا بكر فعلمت أنه لا يعدل برسول الله أحدا وأنه غير مستخلف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2225  
´خلافت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے کہا گیا: کاش! آپ کسی کو خلیفہ نامزد کر دیتے، انہوں نے کہا: اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کروں تو ابوبکر رضی الله عنہ نے خلیفہ مقرر کیا ہے اور اگر کسی کو خلیفہ نہ مقرر کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ نہیں مقرر کیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2225]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اگرمیں کسی کو خلافت کے لیے نامزد کردوں تواپنے پیش رو کی اقتداء میں ایسا ہوسکتا ہے،
اور اگر نہ مقرر کروں تو یہ رسول اکرمﷺ کی اقتداء ہے کہ آپﷺ نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔

2؎:
یہ قصہ صحیح مسلم میں کتاب الإمارہ کے شروع میں مذکور ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2225   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2939  
´خلیفہ (اپنے بعد) خلیفہ نامزد کر سکتا ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں (تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا ۱؎ اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دوں (تو بھی کوئی حرج نہیں) کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر کیا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قسم اللہ کی! انہوں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں نے سمجھ لیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو درجہ نہیں دے سکتے اور یہ کہ وہ کسی کو خلیف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2939]
فوائد ومسائل:
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے برابر اور ہم پلہ بنوآدم میں سے کوئی نہیں۔
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلیل القدر چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین مقرر فرما دیئے۔
کہ انھیں میں سے کسی کو خلفیہ بنا دیا جائے۔
اور وہ تھے۔
عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد ازاں مذید وضاحت بھی فرمائی۔
کہ انہوں نے اپنے بعد کسی کا نام تجویز کیوں نہیں کیا؟ جب لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے جانشین کا نام تجویز کریں۔
تو آپ ﷺنے جواب دیا۔
میں اس کام کےلئے ان لوگوں سے زیادہ مستحق کسی کونہیں سمجھتا۔
کہ رسول اللہ ﷺ جب رخصت ہوئے تو ان سے راضی تھے۔
پھر امارت کا فیصلہ کرنے کےلئے ان حضرات کے نام گنوائے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
اور یہ بھی کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔
لیکن وہ امارت کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔
(صحیح البخاري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البعیة، حدیث:3700) اس موقع پر ایک شخص نے کہا آپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کرادیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اس بات پر تیرا مقصود اللہ کی رضا نہیں، ایک اور صحیح روایت کے مطابق آپ نے اس کو جواب دیا اللہ تجھے ہلاک کرے تو نے اللہ کی رضا کےلئے ایسا نہیں کہا۔
کیا میں ایسے آدمی کو خلیفہ بنا دوں جو صحیح طریق سے بیوی کو طلاق بھی نہیں دے سکتا؟ آپ کو اندازہ تھا کہ شوریٰ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کرے گی۔
اس لئے آپ نے دونوں کو بلاکر وصیت کی پھر حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر کہا۔
آپ تین دن تک لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
اور یہ لوگ اپنے گھر میں اپنا اجتماع کریں۔
جب سب ایک شخص پر اتفاق کرلیں۔
تو جو کوئی مخالفت کرے اسے قتل کر دیں۔
یہ بات سن کر یہ حضرات باہر آئے۔
تو آپ نے فرمایا۔
اگر یہ لوگ اجلح (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ولی الامر بنا دیں تو وہ انہیں لے کر جادہ مستقیم پر گامزن رہیں گے۔
بیٹے نے کہا۔
آپ ان (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو نامزد کیوں نہیں کردیتے (کیونکہ جس طرح اوپر بیان ہوا کہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض کرنے کی پیش کش کرچکے تھے) فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میں زندگی میں بھی یہ بوجھ اٹھائوں اور مرنے کے بعد بھی (فتح الباري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البیعة: 87/7) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
کہ ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
یہ لوگ (جن پر مشتمل کمیشن آپ نے بنایا تھا۔
)
آپکی طرف آئے تو آپ نے متوجہ ہوکر ان کی طرف فرمایا میں نے لوگوں کے معاملے کا مشاہدہ کیا ہے۔
ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر کوئی اختلاف ہوسکتا ہے تو تم لوگوں میں ہی ہوگا۔
یہ معاملہ اب تمہارے سپرد ہے۔
(حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مویشیوں کے پاس (مدینہ) سے باہر تھے۔
اس کے بعد فرمایا جب تمہاری قوم تین اشخاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو امیر نہیں بنائے گی۔
تو جو تم میں سے امیر بنے وہ اپنے اقرباء کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کرے۔
اٹھو اور مشورہ کرو۔
پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔
ابھی توقف کرو۔
اگرمیرا وقت آجائے تو تین دن تک حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کروایئں۔
اور تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر امارت پر مسلط ہو اس کی گردن اڑادو۔
(فتح الباری حوالہ سابقہ) اس تمام واقع سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ درج زیل ہیں۔


حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کیا۔
اور اپنی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تلقین کردہ جانشین کے تعین کاحق استعمال کرنے کی بجائے مکمل طور پر آذاد شوریٰ کے ذریعے سے امیر کاتعین کاراستہ دیکھایا۔


آپ نے شوریٰ کےلئے جو کمیشن تجویز کیا۔
وہ ان لوگوں پر مشتمل تھا۔
جن کا کردار ایسا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان سے راضی تھے۔


یہ لوگ ایسے تھے کہ ان لوگوں کے متفقہ فیصلے پر پوری امت کا اتفاق تھا۔
اور ان کے اختلاف سے امت میں تفرقہ پڑ سکتا تھا۔
یعنی یہی پوری امت کے معتمد ترین نمایئندے تھے۔


آپ نے اپنے بیٹے کو خلافت دیئے جانے کے امکان کو بھی ختم کردیا۔


آپ کوجس نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیتے کو جانشین بنادیں۔
آپ ان پر سخت ناراض ہوئے۔
اسے اللہ کے غضب سے ہلاک ہونے کی بدعا دی۔
اور اس بات کو اللہ کی ناراضگی کا سبب گردانا۔


آپ کو لوگوں کے انتخاب کا صحیح اندازہ تھا۔
اس لئے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعد ازاں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امارت پر فائز ہوجانے کے بعد معاملات چلانے کے معاملے میں ضروری نصیحت فرمائی۔
اور وہ یہ تھی کہ جس طرح میں نے اپنے بیٹے کو خلافت سے دور رکھا ہے۔
اسی طرح امور خلافت چلانے میں بھی اقرباء کو شامل نہ کیا جائے۔


آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ امت میں اختلاف کا ایک اہم سبب قیادت کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔
گویا آپ نے ان زعماء کو بھی اتفاق واختلاف کا ذمہ دار قرار دیا۔


آپ نے وسیع تر دائرے تک مشاورت کی غرض سے اس کمیشن کو کافی وقت دیا۔
اور یہ کہا کہ جائو اور فورا مشاورت کرو۔
اس کمیشن کو واضح طور پر امیر کے تعین کا طریق کار یاد کرا دیا۔


یہ بھی واضح ہدایت دی کہ معتمد نمایندے فیصلہ کرلیں۔
تو انتشار پھیلانے والا باغی متصور ہوگا۔
اور اس کی سزا موت ہوگی۔

10۔
یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں کی مشاورت کے بغیر حکومت پر قبضہ کرنے والا بھی باغی ہوتا ہے۔
اور اس کی سزا بھی موت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2939   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4714  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا،
حضرت ابوبکر کی خلافت کی صورتحال ان کے فضائل میں آئے گی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اس کو امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا،
اس لیے امت کے اہل حل وعقد،
اپنے حالات اور ظروف کے مطابق اس کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں،
کسی ایک طریقہ کی پابندی لازم نہیں ہے۔
اور اس لیے فقہائے امت نے اس کے لیے کسی طریقہ کی تعیین نہیں کی ہے اور نہ کسی ایک طریقہ پر خیرالقرون میں عمل رہا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4714   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.