الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
غلاموں کی آزادی اور مکاتب کا بیان
حدیث نمبر: 478
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا النضر، نا شعبة، عن قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الرجل يجد ماله عند مفلس بعينه فهو احق به من غيره، والعمرى جائزة، والعبد إذا كان بين اثنين فاعتق احدهما نصيبه ضمن لصاحبه.أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّجُلِ يَجِدُ مَالَهُ عِنْدَ مُفْلِسٍ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ، وَالْعُمْرَى جَائِزَةٌ، وَالْعَبْدُ إِذَا كَانَ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ ضُمِنَ لِصَاحِبِهِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق روایت کیا جو کسی مفلس شخص کے ہاں اپنا مال بالکل اسی طرح پا لیتا ہے تو وہ کسی اور سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور عمریٰ جائز ہے، اور جب غلام دو آدمیوں کا مشترک مملوک ہو تو ان میں سے ایک اپنا حصہ اپنے ساتھی (شراکت دار) کے لیے آزاد کر دے۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب المساقاة، باب من ادرك ما باعه الخ، رقم: 1559. مسند احمد، رقم: 9309. صحيح ابن حبان، رقم: 5036. سنن ترمذي، رقم: 1262.»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 478  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق روایت کیا جو کسی مفلس شخص کے ہاں اپنا مال بالکل اسی طرح پا لیتا ہے تو وہ کسی اور سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور عمریٰ جائز ہے، اور جب غلام دو آدمیوں کا مشترک مملوک ہو تو ان میں سے ایک اپنا حصہ اپنے ساتھی (شراکت دار) کے لیے آزاد کر دے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:478]
فوائد:
مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی کو ادھار چیز فروخت کی ہو اور پھر خریدار کنگال ہو جائے اور اس کے پاس اس چیز کی قیمت ادا کرنے کی طاقت نہ ہو بائع اگر اپنی چیز خریدار کے پاس بعینہٖ پا لیتا ہے تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی چیز اس سے وصول کرے۔ جمہور علماء اسی کے قائل ہیں۔ جبکہ احناف کا کہنا ہے کہ وہ اپنی چیز کا حقدار نہیں، بلکہ اسے بھی دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہی حصہ ملے گا۔ (کتاب الام: 3؍ 229۔ المغنی: 6؍ 538)
جمہور کا موقف راجح ہے۔ اگر خریدار قیمت کی ادائیگی سے پہلے فوت ہوجائے تو پھر بعینہٖ اپنی چیز پانے والا اس کا زیادہ حقدار ہوگا یا نہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اس صورت میں بائع اپنی چیز کا زیادہ حقدار ہوگا۔ (فتح الباري: 5؍ 346)
لیکن اگر خریدنے والے نے اس چیز کی ساری قیمت یا کچھ قیمت ادا کر دی تو پھر وہ چیز مقروض کی ملکیت میں ہے اور پھر وہ چیز تمام قرض خواہوں میں تقسیم ہوگی، بائع اس کا زیادہ حق نہیں رکھتا۔
جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنی کوئی چیز بیچی، وہ چیز اسے دیوالیہ قرار دیے ہوئے شخص کے پاس بعینہٖ مل گئی، جب کہ اس نے ابھی اس کی قیمت میں سے کچھ بھی وصول نہیں کیا تھا۔ تو وہ اس (بیچنے والے) کی ہے اور اگر اس نے قیمت کا کچھ حصہ وصول کر لیا ہو، تو وہ بھی دوسرے قرض خواہوں کے حکم میں ہے۔ (سنن ابن ماجة، رقم: 2359)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 478   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.