الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
94. بَابُ السُّتْرَةِ بِمَكَّةَ وَغَيْرِهَا:
94. باب: مکہ اور اس کے علاوہ دوسرے مقامات میں سترہ کا حکم۔
(94) Chapter. Sutra (for the prayer) in Makkah and elsewhere.
حدیث نمبر: 501
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا شعبة، عن الحكم، عن ابي جحيفة، قال:" خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم بالهاجرة فصلى بالبطحاء الظهر والعصر ركعتين، ونصب بين يديه عنزة وتوضا، فجعل الناس يتمسحون بوضوئه".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ:" خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْهَاجِرَةِ فَصَلَّى بِالْبَطْحَاءِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَنَصَبَ بَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةً وَتَوَضَّأَ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَتَمَسَّحُونَ بِوَضُوئِهِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے حکم بن عیینہ سے، انہوں نے ابوحجیفہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عنزہ گاڑ دیا گیا تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کو اپنے بدن پر لگا رہے تھے۔

Narrated Abu Juhaifa: Allah's Apostle came out at midday and offered a two-rak`at Zuhr and `Asr prayers at Al-Batha and a short spear (or stick) was planted in front of him (as a Sutra). He performed ablution and the people took the remaining water left after his ablution and rubbed their bodies with it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 9, Number 480


   صحيح البخاري495وهب بن عبد اللهصلى بهم بالبطحاء وبين يديه عنزة الظهر ركعتين والعصر ركعتين تمر بين يديه المرأة والحمار
   صحيح البخاري5786وهب بن عبد اللهخرج في حلة مشمرا فصلى ركعتين إلى العنزة ورأيت الناس والدواب يمرون بين يديه من وراء العنزة
   صحيح البخاري633وهب بن عبد اللهخرج بلال بالعنزة حتى ركزها بين يدي رسول الله بالأبطح وأقام الصلاة
   صحيح البخاري499وهب بن عبد اللهصلى بنا الظهر والعصر وبين يديه عنزة والمرأة والحمار يمرون من ورائها
   صحيح البخاري501وهب بن عبد اللهصلى بالبطحاء الظهر والعصر ركعتين ونصب بين يديه عنزة وتوضأ فجعل الناس يتمسحون بوضوئه
   جامع الترمذي197وهب بن عبد اللهخرج بلال بين يديه بالعنزة فركزها بالبطحاء فصلى إليها رسول الله يمر بين يديه الكلب والحمار وعليه حلة حمراء كأني أنظر إلى بريق ساقيه
   سنن أبي داود688وهب بن عبد اللهصلى بهم بالبطحاء وبين يديه عنزة الظهر ركعتين والعصر ركعتين يمر خلف العنزة المرأة والحمار
   سنن النسائى الصغرى137وهب بن عبد اللهصلى بالناس والحمر والكلاب والمرأة يمرون بين يديه
   سنن النسائى الصغرى773وهب بن عبد اللهخرج في حلة حمراء فركز عنزة فصلى إليها يمر من ورائها الكلب والمرأة والحمار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 137  
´وضو کے بچے ہوئے پانی کو کام میں لانے کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کے وضو کا پانی (جو برتن میں بچا تھا) نکالا، تو لوگ اسے لینے کے لیے جھپٹے، میں نے بھی اس میں سے کچھ لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکڑی نصب کی، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ کے سامنے سے گدھے، کتے اور عورتیں گزر رہی تھیں۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 137]
137۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب مذکورہ روایت اس باب کے تحت لا کر یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ماء مستعمل پاک ہے اور اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماء مستعمل کی بابت مزید تفصیل کے لیے کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے۔
➋ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی جس کا اظہار اس حدیث سے بھی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے جسم وغیرہ پر بطور تبرک ملتے تھے۔ یہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کیونکہ آپ کے بعد قرون اولیٰ میں سے کسی سے بھی یہ نہیں ملتاکہ کسی نے کسی صحابی یا تابعی سے بطور تبرک یہ عمل کیا ہو۔
➌ سترے کے آگے سے کسی چیز کا گزرنا نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، سترے کے بغیر مذکورہ چیزوں کا گزرنا نقصان دہ ہے، اس لیے سترے کا اہتمام کرنا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور مذکورہ چیزوں سے بچاؤ کا ایک عمدہ تحفظ بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 773  
´سرخ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ جوڑے میں نکلے، اور آپ نے اپنے سامنے ایک برچھی گاڑی، پھر اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، اور اس کے پیچھے سے کتے، عورتیں اور گدھے گزرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 773]
773 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق وہ حلہ خالص سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں، سطح سفید تھی۔ دیکھیے: [زاد المعاد: 137/1]
لہٰذا اس روایت کا ان روایات سے تعارض نہ ہو گا جن میں سرخ کپڑا پہننے سے روکا گیا ہے۔
➋ حلے سے مراد ہے، دو چادریں ایک رنگ کی اور ایک جیسی۔ ایک ازار اور دوسری ردا۔
➌ برچھایا چھوٹا نیزہ بطور سترہ گاڑا گیا تھا۔ اس کی بحث حدیث 748 میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 688  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھائیں اور آپ کے سامنے برچھی (بطور سترہ) تھی، اور برچھی کے پیچھے سے عورتیں اور گدھے گزرتے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 688]
688۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔
➋ سترے کے آگے سے کوئی بھی گزرے تو اس میں نمازی کا نقصان نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 688   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 197  
´اذان کے وقت شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرنے کا بیان۔`
ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ۱؎ اپنا چہرہ ادھر اور ادھر پھیر رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرخ خیمے میں تھے، وہ چمڑے کا تھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ۲؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔ آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 197]
اردو حاشہ:
1؎:
قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے ((فَلَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ،
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ لَوَى عُنُقَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا وَلَمْ يَسْتَدِرْ)
)
 یعنی:
بلال جب حي الصلاة حي على الفلاح پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور خود نہیں گھومے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مراد سر کا گھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔

2؎:
یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیز ے کے درمیان سے کیونکہ عمر بن ابی زائدہ کی روایت میں  ((وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيْ الْعَنَزَةِ)) ہے،
میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانور نیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے۔

3؎:
اس پر سنت سے کوئی دلیل نہیں،
رہا اسے اذان پر قیاس کرنا تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 197   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:501  
501. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو رکعات پڑھائیں اور آپ نے دوران نماز میں اپنے سامنے ایک چھوٹا نیزہ کھڑا کر لیا۔ جب آپ نے وضو کیا تو لوگ آپ کے وضو کے پانی کو اپنے منہ پر ملنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:501]
حدیث حاشیہ:

ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے بطور خاص مکے کا ذکر ایک مغالطے کو دور کرنے کے لیے کیا ہے کہ سترہ بمنزلہ قبلہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی طرف منہ کرتے ہیں اور یہ مناسب نہیں کہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز قبلے کا مقام حاصل کرے، لہٰذا مکے میں سترے کی ضرورت نہیں، گویا وہ کہناچاہتے ہیں کہ ایک مقام پر دو قبلے نہیں ہوسکتے کہ ایک قبلہ تو سترہ ہو اور دوسرا قبلہ خانہ کعبہ، حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔
امام بخاری ؒ اس وہم کو دور کرنا چاہتے ہیں کہ مکے میں بھی سترے کی ضرورت ہے۔
حافظ ابن حجرؒ مزید لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک تو امام بخاری ؒ نے محدث عبدالرزاق کے ایک باب کی تردید کی ہے۔
جو انھوں نے اپنی مصنف میں قائم کیا ہے کہ مکے میں کوئی چیز نماز کو توڑ نہیں سکتی، لہٰذا وہاں سترے کی ضرورت نہیں۔
پھر انھوں نے حدیث ابن جریج ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے کوئی سترہ نہیں تھا۔
لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے۔
اس روایت کو اصحاب السنن نے بھی بیان کیا ہے۔
اس کے راوی بھی ثقہ ہیں، لیکن یہ روایت معلول ہے، کیونکہ اس روایت کو کثیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے نہیں سنا، بلکہ اپنے کسی گھر والے سے سنی ہے، وہ میرے دادا سے بیان کرتے ہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کےذریعے سے مذکورہ روایت کے ضعف پرتنبیہ کی ہے اوربتایا ہے کہ مشروعیت سترہ کے متعلق مکہ اور غیر مکہ میں کوئی فرق نہیں اور اپنے استدلال میں حدیث ابی جحیفہ ؓ پیش کی ہے۔
شوافع کا بھی یہی مشہور مسلک ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا مکہ اور غیر مکہ سب جگہ ممنوع ہے، البتہ بعض فقہاء نے طواف کرنے والوں کے لیے ضرورت کے پیش نظر گنجائش نکالی ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرسکتے ہیں، دوسروں کے لیے اس کی اجازت نہیں ہے۔
بعض حنابلہ نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو تمام مکہ میں جائز قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 745/1)
اس سلسلے میں ہمار ا مؤقف یہ ہے کہ مسجد حرام میں بھی نمازی کے آگے سے گزرنا صحیح نہیں اور وہاں بھی سترے کی پابندی ضروری ہے۔
امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو پیش کیا ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ مؤلف نے یہ باب اس خیال کی تردید کے لیے قائم کیا ہے کہ اگر مسجد حرام میں سترے کی پابندی کرنی ہو تو اس سے لوگوں کو تنگی ہوگی، کیونکہ وہاں سب لوگ عبادات میں مصروف ہوتے ہیں، کوئی نماز پڑھتا ہے تو کوئی طواف کرتا ہے، اس لیے وہاں سترے کی چنداں ضرورت نہیں۔
لیکن مؤلف نے اس عنوان سے اس خیال کی تردید فرمائی اور مکہ مکرمکہ میں بھی سترے کی ضرورت کو بیان فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 501   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.