الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب
229. بَابُ هَلْ يَكُونُ قَوْلُ الْمَرِيضِ : إِنِّي وَجِعٌ ، شِكَايَةً؟
229. کیا مریض کا یہ کہنا کہ ”مجھے تکلیف ہے“ شکوہ ہے؟
حدیث نمبر: 509
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زكريا، قال: حدثنا ابواسامة، عن هشام، عن ابيه، قال: دخلت انا وعبد الله بن الزبير على اسماء، قبل قتل عبد الله بعشر ليال، واسماء وجعة، فقال لها عبد الله: كيف تجدينك؟ قالت: وجعة، قال: إني في الموت، فقالت: لعلك تشتهي موتي، فلذلك تتمناه؟ فلا تفعل، فوالله ما اشتهي ان اموت حتى ياتي علي احد طرفيك، او تقتل فاحتسبك، وإما ان تظفر فتقر عيني، فإياك ان تعرض عليك خطة، فلا توافقك، فتقبلها كراهية الموت، وإنما عنى ابن الزبير ليقتل فيحزنها ذلك.حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنَا أبوأُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَلَى أَسْمَاءَ، قَبْلَ قَتْلِ عَبْدِ اللَّهِ بِعَشْرِ لَيَالٍ، وَأَسْمَاءُ وَجِعَةٌ، فَقَالَ لَهَا عَبْدُ اللَّهِ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: وَجِعَةٌ، قَالَ: إِنِّي فِي الْمَوْتِ، فَقَالَتْ: لَعَلَّكَ تَشْتَهِي مَوْتِي، فَلِذَلِكَ تَتَمَنَّاهُ؟ فَلا تَفْعَلْ، فَوَاللَّهِ مَا أَشْتَهِي أَنْ أَمُوتَ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ أَحَدُ طَرَفَيْكَ، أَوْ تُقْتَلَ فَأَحْتَسِبَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَظْفُرَ فَتَقَرَّ عَيْنِي، فَإِيَّاكَ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْكَ خُطَّةٌ، فَلا تُوَافِقُكَ، فَتَقْبَلُهَا كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ، وَإِنَّمَا عَنَى ابْنُ الزُّبَيْرِ لِيُقْتَلَ فَيُحْزِنُهَا ذَلِكَ.
سیدنا عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے سے دس دن پہلے کی بات ہے، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے پوچھا: آپ کی صحت کیسی ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے تکلیف ہے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بھی موت کی حالت میں ہوں۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: شاید تم میری موت چاہتے ہو اس لیے اس کی تمنا کرتے ہو، تم ایسا نہ کرو۔ اللہ کی قسم میں اس وقت تک موت نہیں چاہتی جب تک معاملہ ایک طرف نہ ہو جائے، یا تم قتل کر دیے جاؤ اور میں اس پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ سے ثواب لے لوں، یا تم کامیاب ہو جاؤ اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ تم اس بات سے بچنا کہ تم پر کوئی ایسا معاملہ پیش کیا جائے جس کی تم موافقت نہ کرتے ہو اور موت کے ڈر سے اسے قبول کر لو۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ والدہ کی وفات پہلے ہو جائے تاکہ اگر میں قتل ہو جاؤں تو اس کا انہیں غم نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 37326 و أبونعيم فى الحلية: 56/2 و ابن عبدالبر فى الاستيعاب: 907/3 و ابن عساكر فى تاريخه: 22/69»

قال الشيخ الألباني: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 509  
1
فوائد ومسائل:
(۱)سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت تقریباً سو سال تھی۔ وہ بیمار تھیں لیکن ان کا حوصلہ جوان تھا۔ عمر کے اس حصے میں بھی اپنے بیٹے کو جرأت و بہادری کا درس دے رہی تھیں کہ موت کے ڈر سے کسی ایسی بات پر کمپرو مائز نہ کرنا جس کو تم غلط سمجھتے ہو۔
(۲) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ مجھے تکلیف ہے شکوہ نہیں بلکہ انہوں نے حقیقت سے آگاہ کیا۔ ایسا کہنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
(۳) یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب حجاج بن یوسف سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف جنگ کرنے والا تھا۔ بالآخر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو شہید کر دیا گیا اور ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے نہایت صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 509   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.