الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
42. بَابُ لاَ يُنْكِحُ الأَبُ وَغَيْرُهُ الْبِكْرَ وَالثَّيِّبَ إِلاَّ بِرِضَاهَا:
42. باب: باپ یا کوئی دوسرا ولیٰ کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر نہ کرے۔
(42) Chapter. The father or the guardian cannot give a virgin or matron in marriage without her consent.
حدیث نمبر: 5136
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى، عن ابي سلمة، ان ابا هريرة حدثهم، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تنكح الايم حتى تستامر، ولا تنكح البكر حتى تستاذن، قالوا: يا رسول الله، وكيف إذنها؟ قال: ان تسكت".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُمْ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَسْكُتَ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "A matron should not be given in marriage except after consulting her; and a virgin should not be given in marriage except after her permission." The people asked, "O Allah's Apostle! How can we know her permission?" He said, "Her silence (indicates her permission).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 67


   صحيح البخاري5136عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال أن تسكت
   صحيح البخاري6970عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا كيف إذنها قال أن تسكت
   صحيح البخاري6968عبد الرحمن بن صخرلا تنكح البكر حتى تستأذن لا الثيب حتى تستأمر فقيل يا رسول الله كيف إذنها قال إذا سكتت
   صحيح مسلم3473عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال أن تسكت
   جامع الترمذي1107عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن وإذنها الصموت
   سنن أبي داود2092عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر البكر إلا بإذنها قالوا يا رسول الله وما إذنها قال أن تسكت
   سنن النسائى الصغرى3267عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأذن لا تنكح البكر حتى تستأمر قالوا يا رسول الله كيف إذنها قال إذنها أن تسكت
   سنن النسائى الصغرى3269عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله كيف إذنها قال أن تسكت
   سنن ابن ماجه1871عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر البكر حتى تستأذن وإذنها الصموت
   بلوغ المرام837عبد الرحمن بن صخر لا تنكح الأيم حتى تستأمر ،‏‏‏‏ ولا تنكح البكر حتى تستأذن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 837  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیوہ عورت کا نکاح اس سے مشورہ لئے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس سے اجازت لئے بغیر نہ کیا جائے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی اجازت کیسے ہے؟ فرمایا اس کا خاموش رہنا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 837»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاهما، حديث:5136، ومسلم، النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق.....، حديث:1419.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ شریعت کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے۔
وہ عورت جسے اسلام سے پہلے معاشرے میں کوئی خاص مقام نہیں دیا جاتا تھا‘ اسلام نے اسے پستی سے اٹھا کر بلند مقام پر پہنچایا ہے اور اس کی اہمیت کو دوبالا کیا ہے۔
شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو کجا اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت تک نہ تھی۔
سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے نکاح کر دیتے تھے۔
2.شریعت محمدیہ نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیدہ سے مشورہ ضرور کیا جائے اور کنواری سے اس کی اجازت حاصل کی جائے۔
3. شوہر دیدہ کی رضا ومشورے کے بغیر اس کا نکاح نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ولی اپنی سرپرستی میں اس کے مشورے اور اس کی رضامندی کے ساتھ اس کا نکاح کرے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 837   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1107  
´کنواری اور ثیبہ (شوہر دیدہ) سے اجازت لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثیبہ» (شوہر دیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضا مندی ۱؎ حاصل نہ کر لی جائے، اور کنواری ۲؎ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1107]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رضامندی کا مطلب اذن صریح ہے۔

2؎:
کنواری سے مراد بالغہ کنواری ہے۔

3؎:
اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے،
عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے۔ 4؎:
ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت «أن جارية بكراً أتت النبي ﷺ فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي ﷺ»  ہے۔

5؎:
ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جوآگے آرہی ہے «الأیم أحق بنفسہامن ولیہا»  کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے،
اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ (کنواری) کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1107   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5136  
5136. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے پوچھ نہ لیا جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے۔ صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کنواری کی اجازت کس طرح ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (پیغام نکاح سن کر) اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5136]
حدیث حاشیہ:
خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور بعض اہلحدیث کا یہی قول معلوم ہو تا ہے۔
لیکن اکثر علماء نے یہ کہا ہے بلکہ اس پر اجماع ہو گیا ہے کہ کنواری چھوٹی (یعنی نابالغ لڑکی)
کا نکاح اس کا باپ کر سکتا ہے، اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے اور ثیبہ بالغہ کا نکاح اس کے پوچھے بغیر جائز نہیں اتفاقاً نہ باپ کو نہ اور کسی ولی کو۔
اب رہ گئی کنواری نابالغہ اور ثیبہ نابالغہ ان میں اختلاف ہے۔
کنواری نابالغہ سے بھی حنفیہ کے نزدیک اذن لینا چاہئے اور امام مالک اور امام شافعی اورہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک باپ کو اس سے اذن لینے کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح دادا کو بھی اگر باپ حاضر نہ ہو۔
حدیث سے اذن لینے کی تائید ہوتی ہے اور حضرت امام شوکانی نے اہلحدیث کا یہی مذہب قرار دیا ہے لیکن ثیبہ نابالغہ تو امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ باپ اس کا نکاح کر سکتا ہے اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اور امام شافعی اور امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ ثیبہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ شرم نہیں کرتی بہر حال نابالغ عورت کا نکاح اگر کیا جائے اور اس میں اجازت بھی لی جائے تو بعد بلوغ اس کو اختیار باقی رہتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5136   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.