الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
67. بَابُ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ:
67. باب: جب شوہر اپنی بیوی کے پاس آئے تو اسے کون سی دعا پڑھنی چاہئے۔
(67) Chapter. What a man should say on having a sexual intercourse with his wife.
حدیث نمبر: 5165
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعد بن حفص، حدثنا شيبان، عن منصور، عن سالم بن ابي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اما لو ان احدهم يقول حين ياتي اهله: باسم الله اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا، ثم قدر بينهما في ذلك او قضي ولد لم يضره شيطان ابدا".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ يَقُولُ حِينَ يَأْتِي أَهْلَهُ: بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنِي الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، ثُمَّ قُدِّرَ بَيْنَهُمَا فِي ذَلِكَ أَوْ قُضِيَ وَلَدٌ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا".
ہم سے سعد بن حفص طلحی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے سالم بن ابی الجعد نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس ہمبستری کے لیے جب آئے تو یہ دعا پڑھے «باسم الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم جنبني الشيطان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا» یعنی میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اے اللہ! شیطان کو مجھ سے دور رکھ اور شیطان کو اس چیز سے بھی دور رکھ جو (اولاد) ہمیں تو عطا کرے۔ پھر اس عرصہ میں ان کے لیے کوئی اولاد نصیب ہو تو اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet said, "If anyone of you, when having sexual intercourse with his wife, says: Bismillah, Allahumma jannibni-Sh-Shaitan wa jannib-ish-Shaitan ma razaqtana, and if it is destined that they should have a child, then Satan will never be able to harm him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 94


   صحيح البخاري5165عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا ثم قدر بينهما في ذلك أو قضي ولد لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري7396عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله فقال باسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري6388عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري3271عبد الله بن عباسإذا أتى أهله وقال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فرزقا ولدا لم يضره الشيطان
   صحيح البخاري3283عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني فإن كان بينهما ولد لم يضره الشيطان ولم يسلط عليه
   صحيح البخاري141عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال باسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فقضي بينهما ولد لم يضره
   صحيح مسلم3533عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   جامع الترمذي1092عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قضى الله بينهما ولدا لم يضره الشيطان
   سنن أبي داود2161عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا ثم قدر أن يكون بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   سنن ابن ماجه1919عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى امرأته قال اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني ثم كان بينهما ولد لم يسلط الله عليه الشيطان
   بلوغ المرام874عبد الله بن عباس لو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله قال : بسم الله ،‏‏‏‏ اللهم جنبنا الشيطان ،‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا ،‏‏‏‏ فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك ،‏‏‏‏ لم يضره الشيطان أبدا
   مسندالحميدي526عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قدر بينهما ولد لم يضره الشيطان شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 141  
´ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا`
«. . . قَالَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرُّهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے: اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 141]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ بیوی سے صحبت کرنا ایک جسمانی فعل ہے اور وضو کرنا ایک عبادت اور روحانی فعل ہے جب جسمانی فعل میں بسم اللہ کہنا ضروری ہے تو کیوں کر وضو جو عبادت ہے اس میں بسم اللہ کہنا ضروری نہ ہو۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس العموم ظاهرا من الحديث الذى اورده، لكن يستفاد من باب الاوليٰ لانه اذا شرع فى حالة الجماع وهى مما امر فيه بالصمت فغيره الاوليٰ . . . .» [فتح الباري ج1ص 322]
اور عموم ظاہر یہ ہے حدیث سے جس کو باب میں (امام بخاری رحمہ اللہ) نے وارد کیا ہے لیکن مستفاد ہوتا ہے، بطریق اولیٰ اس واسطے کہ جب (تسمیہ) جماع کی حالت میں مشروع ہے حالانکہ اس حالت میں چپ رہنے کا حکم ہے تو پھر اس کے علاوہ تو (تسمیہ پڑھنا) اولیٰ ہو گا۔
↰ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس عبارت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جماع کے وقت جب چپ رہنے کا حکم ہے تو اس وقت بھی تسمیہ پڑھنا مسنون ٹھہرا تو کیوں کر دوسرے نیک کاموں میں تسمیہ مشروع نہ ہوگا؟

◈ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمہ اللہ بھی اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:
«التسمية الوضؤ بالحديث الذى اور ده فى هذا الباب لد لالته على استحباب تسمية الله عند الوقاع الذى هو ابعد الاحوال عن ذكر الله ففي الوضوء بالطريق الاولي» [شرح تراجمه من ابواب البخاري ص 65]
یعنی وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنے والی حدیث کو ترجمۃ الباب میں لایا گیا ہے جو اس بات پر دلالت ہے کہ صحبت کے وقت بھی تسمیہ پڑھنا مستحب ہے جو کہ (یہ فعل) دوسرے احوال سے بعید ہے کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے (لیکن جب اس میں تسمیہ ثابت ہو گیا تو) باقی اعمال میں بطریق اولیٰ جائز ہے۔
↰ یہی تطبیق علامہ قسطلانی نے بھی دی ہے۔ [ديكهيے ارشاد الساري، ج1، ص 325]

(قلت) مزید اگر ترجمۃ الباب میں غور کیا جائے تو مناسبت کچھ اس طرح سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے:
➊ جزء عام یعنی «على كل حال»
➋ جزء خاص یعنی «عندالوقاع» ہے۔
اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت یہ ہے کہ پہلے جزء میں ہر نیک کام کی ابتداء تسمیہ سے ثابت ہوئی اور دوسرے جزء میں الفاظ «اذاتي اهله» سے مراد بیوی کے پاس آنا یعنی «عندالوقاع» ثابت ہوا۔ مزید اگر غور کیا جائے تو آدمی جب اپنی بیوی کے پاس صحبت کی غرض سے جاتا ہے تو فارغ ہونے کے بعد اسے وضو کرنا چاہئیے جب وہ وضو کرے گا تو اس کی ابتدا میں تسمیہ پڑھنا مشروع ہے، کیونکہ بغیر تسمیہ کے وضو نہیں۔ پس یہاں سے بھی ترجمۃ الباب میں مناسبت ہو گی۔

لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یہی ہے کہ جماع ایک جسمانی فعل ہے جب اس میں تسمیہ ہے تو پھر وضو ایک روحانی اور جسمانی فعل ہے تو اس میں بھی تسمیہ بطریق اولی ہوگا۔ «الله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 120   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1919  
´بیوی سے پہلی ملاقات پر کون سی دعا پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو یہ دعا پڑھے «اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني» اے اللہ! تو مجھے شیطان سے بچا، اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھ پھر اس ملاپ سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا، یا شیطان اسے نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1919]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خلوت کا وقت صنفی جذبات کی تسکین کا وقت ہوتا ہے۔
مومن اس وقت بھی اپنے رب کو فراموش نہیں کرتا۔

(2)
خاوند بیوی کے تعلقات کا مقصد محض صنفی لذت کا حصول نہیں بلکہ نیک اولاد کا حصول بھی ایک اہم مقصد ہے۔

(3)
بہتر ہے کہ مذکورہ دعا بے لباس ہونے سے پہلے پڑھ لی جائے۔

(5)
اس دعا کا یہ فائدہ ہے کہ اس کی برکت سے خلوت کا وقت شیطان دور رہتا ہے، لہذا اولاد میں شیطان سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور بعض خاص بیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1919   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 874  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جاتے وقت یہ دعا پڑھے «بسم الله، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم جنبنا الشيطان، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام کے ساتھ، الٰہی ہمیں شیطان سے کنارہ کش رکھ اور شیطان کو بھی اس سے دور رکھ جو تو ہمیں اولاد عطا فرمائے۔ تحقیق شان یہ ہے کہ اگر اس مجامعت سے ان کے مقدر و قسمت میں اولاد ہو گی تو شیطان اسے کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 874»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب مايقول الرجل إذا أتي أهله، حديث:5165، 7396، ومسلم، النكاح، باب ما يستحب أن يقوله عند الجماع، حديث:1434.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مباشرت کے وقت انسان کے ازلی و ابدی دشمن سے بچنے اور محفوظ رہنے کی دعا کا ذکر ہے۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ شیطان صرف ذکر الٰہی کے وقت انسان سے جدا اور الگ ہوتا ہے‘ بصورت دیگر وہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور کسی حالت میں بھی آدمی سے جدا اور الگ نہیں ہوتا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 874   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2161  
´نکاح کے مختلف مسائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے: «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اے اللہ ہم کو شیطان سے بچا اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے گزند سے محفوظ رکھ پھر اگر اس مباشرت سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا یا شیطان اسے کبھی نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2161]
فوائد ومسائل:
علامہ داودی نے کہا ہے کہ اس سے بچے کی کلی عصمت مراد نہیں بلکہ یہ ہے کہ شیطان اس کو دین کے معاملے میں فتنے میں نہیں ڈال سکے گا کہ کفر تک پہنچا دے۔
(عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2161   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5165  
5165. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب کوئی انسان اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتو یہ دعا پڑھے۔ بسم اللہ، اے اللہ! مجھے شیطان سے دور رکھ اور شیطان کو اس سے دور رکھ جو تو ہمیں عطا کرے پھر اگر اس موقع پر ان کے لیے بچہ مقدر ہو یا اس کا فیصلہ ہو جائے تو شیطان اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5165]
حدیث حاشیہ:
قال الکرماني فإن قلت ما الفرق بین القضاء و القدر قلت لا فرق بینھما لغة و أما في الاصطلاح فالقضاء و ھو الأمر الکلي الإجمالی الذي في الأزل و القدر ھو الجزئیات ذالك الکلي (فتح)
یعنی کرمانی نے کہا کہ لفظ قضا اور قدر میں لغت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے مگر اصطلاح میں قضا وہ ہے جو اجمالی طور پر روز ازل میں ہو چکا ہے اور اس کلی کی جزئیات کا نام قدر ہے۔
حدیث مذکور میں لفظ ثم قدر بینھما سے متعلق یہ تشریح ہے۔
آج کل انسان اپنے جذبات میں ڈوب کر اس دعا سے غافل ہو کر خواہش نفس کی پیروی کر رہا ہے اور بے بہا نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5165   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5165  
5165. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب کوئی انسان اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتو یہ دعا پڑھے۔ بسم اللہ، اے اللہ! مجھے شیطان سے دور رکھ اور شیطان کو اس سے دور رکھ جو تو ہمیں عطا کرے پھر اگر اس موقع پر ان کے لیے بچہ مقدر ہو یا اس کا فیصلہ ہو جائے تو شیطان اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5165]
حدیث حاشیہ:
(1)
شیطان کے تکلیف نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے باپ کے ساتھ اس کی ماں سے جماع میں وہ شریک نہ ہو سکے گا جیسا کہ امام مجاہد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آئے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان جماع میں شریک ہو جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس معنی کو"أقرب" قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 296/9) (2)
بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کچھ بچوں کی شکل و صورت تو ماں باپ جیسی ہوتی ہے لیکن عادات و خصائل شیطان جیسے ہوتے ہیں، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جب کائنات کے چودھری کی بنیاد رکھی جا رہی ہوتی ہے تو حضرت انسان نفسا نفسی کے عالم میں اپنی شہوت کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اللہ کے نام کو فراموش کر دیتا ہے۔
اس نحوست کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اولاد شیطانی اثرات سے محفوظ نہیں رہتی۔
والله اعلم (3)
اس حدیث میں قضا و قدر کا ذکر ہے۔
قضا اجمالی طور پر امر کلی کا نام ہے جو ازل میں ثابت ہے جبکہ قدر اس کی تفصیلات کا نام ہے جو مستقبل میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔
قرآن کریم میں اس کے متعلق اشارہ ہے:
ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم انھیں ایک معلوم اندازے کے مطابق اتارتے ہیں۔
(الحجر: 21، و عمدة القاري: 123/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5165   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.