الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
104. بَابُ دُخُولِ الرَّجُلِ عَلَى نِسَائِهِ فِي الْيَوْمِ:
104. باب: مرد کا اپنی بیوی کے پاس دن میں جانا بھی جائز ہے۔
(104) Chapter. If a man goes to all his wives (have sexual relations with them) in one day.
حدیث نمبر: 5216
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا فروة، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها،" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا انصرف من العصر دخل على نسائه، فيدنو من إحداهن، فدخل على حفصة فاحتبس اكثر مما كان يحتبس".(مرفوع) حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" كَان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنَ الْعَصْرِ دَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ، فَيَدْنُو مِنْ إِحْدَاهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ فَاحْتَبَسَ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ".
ہم سے فروہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے کسی ایک کے قریب بھی بیٹھتے۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئے اور معمول سے زیادہ کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔

Narrated `Aisha: Whenever Allah's Apostle finished his `Asr prayer, he would enter upon his wives and stay with one of them. One day he went to Hafsa and stayed with her longer than usual.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 143


   صحيح البخاري5599عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   صحيح البخاري5614عائشة بنت عبد اللهيعجبه الحلواء والعسل
   صحيح البخاري5431عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   صحيح البخاري6972عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء ويحب العسل إذا صلى العصر أجاز على نسائه فيدنو منهن كان رسول الله يشتد عليه أن يوجد منه الريح جرست نحله العرفط فلما دخل علي قلت له مثل ذلك ودخل على صفية فقالت له مثل ذلك فلما دخل على حفصة قالت له يا رسول الله ألا أسقيك منه قال لا حاجة لي به قال
   صحيح البخاري5216عائشة بنت عبد اللهإذا انصرف من العصر دخل على نسائه فيدنو من إحداهن دخل على حفصة فاحتبس أكثر مما كان يحتبس
   صحيح البخاري5682عائشة بنت عبد اللهيعجبه الحلواء والعسل
   صحيح مسلم3679عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل إذا صلى العصر دار على نسائه فيدنو منهن كان رسول الله يشتد عليه أن يوجد منه الريح جرست نحله العرفط وسأقول ذلك له وقوليه أنت يا صفية فلما دخل على سودة قالت تقول سودة والذي لا إله إلا هو لقد كدت أن أبادئه بالذي قلت لي وإنه لعلى الباب فرقا
   جامع الترمذي1831عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   سنن ابن ماجه3323عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   بلوغ المرام910عائشة بنت عبد اللهغير مسيس حتى يبلغ التي هو يومها،‏‏‏‏ فيبيت عندها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5599  
´ باذق (انگور کے شیرہ کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب) کے بارے میں`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ، وَالْعَسَلَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوا اور شہد کو دوست رکھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ: 5599]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5599 کا باب: «بَابُ الْبَاذَقِ، وَمَنْ نَهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ مِنَ الأَشْرِبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «الباذق» کا ذکر فرمایا ہے، جس کے معنی انگور کے شیرے کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب ہے، جبکہ تحت الباب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کا باب سے مناسبت واضح ہے جبکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا تعلق باب سے مشکل ہے کیونکہ باب میں «الباذق» کے الفاظ ہیں اور حدیث میں حلوا اور شہد کے۔

غور کرنے سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے، وہ اس جہت سے کہ انگور کا شیرہ جب اتنا پکایا جائے کہ وہ حلوا ہو جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ کو پسند فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اس میں مطلق نشہ نہ ہو۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ووجه إيراده فى هذا الباب أن الذى يحل من المطبوخ هو ما كان فى معنى الحلواء، والذي يجوز شربه من عصير العنب بغير طبخ هو ما كان فى معنى العسل، فانهم كانوا يمزجونه بالماء ويشربونه من ساعته. والله اعلم» [فتح الباري لابن حجر: 57/11]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پکانے سے وہی حلال ہو گا جو حلوہ کے معنی میں ہو اور وہ عصیر عنب سے جس کا شرب بغیر پکانے کے حلال ہے وہ شہد کے معنی میں ہے، کیونکہ وہ اس سے پانی ملا کر اسی وقت (یعنی تازہ تازہ) پی لیا کرتے تھے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح ہے کہ عصیر المطبوخ جبکہ اس میں نشہ نہ ہو، وہ حلال ہے۔ [ارشاد الساري: 500/9]
یعنی جس طرح حلوہ شہد میں ڈال کر پکایا جاتا ہے پانی کے ساتھ ملا کر جو کہ بڑا لذید اور پاکیزہ ہوتا ہے، بعین اسی طرح اگر انگور کا شیرہ پکایا جائے اور وہ حلوہ بن جائے (شراب کی صفات، اس میں نہ پائی جائیں جیسا کہ نشہ وغیرہ) تو وہ حلوہ حلال ہو گا، یعنی سکر بننے سے قبل اس کو حلوہ بنا کر کھانا درست ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں مناسبت ہوگی۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 140   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3323  
´حلوا (مٹھائی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوا (شیرینی) اور شہد پسند فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3323]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حلواء اور حلویٰ سے بعض علماء نے انسان کی بنائی میٹھی چیز (مٹھائی)
اور بعض نے ہر میٹھی چیز مراد لی ہے پھل ہو یا دوسری چیز۔

(2)
پسند ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب پیش کی جاتی تو رغبت سےتناول فرماتے۔
یہ مطلب نہیں کہ اسے طلب فرماتے۔

(3)
شہد ایک قدرتی غذا ہے جو بے شمار فوائد کی حامل ہے۔
اور اس میں دوسری مٹھاس (چینی وغیرہ)
کےمضر اثرات نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3323   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 910  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا عروہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میری بہن کے لخت جگر (بھانجے)! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کی باری کی تقسیم میں کسی کو کسی پر فوقیت و فضیلت نہیں دیتے تھے۔ ہمارے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اور کم ہی ایسا کوئی دن ہو گا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے جاتے نہ ہوں اور ہر بیوی کے پاس جاتے ضرور مگر کسی کو چھوتے تک نہ تھے۔ پھر اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور رات اس کے پاس بسر فرماتے۔ احمد و ابوداؤد اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر ادا فرما کر اپنی ساری بیویوں کے ہاں تشریف لے جاتے پھر ان سے قرب بھی حاصل کرتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 910»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2135، وأحمد:6 /107، والحاكم:2 /186، وصححه، ووافقه الذهبي، وحديث عائشة: كان إذا صلي العصر....، أخرجه مسلم، الطلاق، حديث:1474، والبخاري، النكاح، حديث:5216.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز اپنی ازواج مطہرات کی قیام گاہوں میں حالات معلوم کرنے کی غرض سے چکر ضرور لگاتے اور باہمی محبت و پیار کا اظہار کرتے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر بیوی کی قیام گاہ الگ ہونی چاہیے‘ اس سے پردہ داری رہتی ہے۔
3.کم عمر بچوں کو پیار سے بلانا بھی ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے کو یَاابْنَ أُخْتِي کہہ کر بلایا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 910   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5216  
5216. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز عصر سے فارغ ہوتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے کسی ایک کے قریب ہوتے۔ آپ ﷺ ایک روز سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے پاس تشریف لے گئے تو پہلے جتنا وقت ٹھہرا کرتے تھے اس سے زیادہ وقت ان کے پاس ٹھہرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5216]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کی کئی بیویاں ہوں تو ہر ایک کی خیریت اور حال چال معلوم کرنے کے لئے جب چاہے جا سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5216   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5216  
5216. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز عصر سے فارغ ہوتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے کسی ایک کے قریب ہوتے۔ آپ ﷺ ایک روز سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے پاس تشریف لے گئے تو پہلے جتنا وقت ٹھہرا کرتے تھے اس سے زیادہ وقت ان کے پاس ٹھہرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5216]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ جب عصر کے بعد دوسری بیویوں کے پاس ٹھہرتے تو ان سے کسی کے ساتھ ہم بستر نہیں ہوتے تھے۔
(فتح الباري: 393/9)
کیونکہ باری مقرر کرنے کے بعد صحبت کا حق صرف اس بیوی کا ہے جس کی اس دن باری ہو۔
کسی ضرورت کے تحت دوسری بیوی کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہاں زیادہ دیر تک قیام نہ کرے۔
(2)
بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ باری کا تعلق صرف اوقاتِ شب کے لیے ہے، دن میں چونکہ دیگر مصروفیات ہوتی ہیں، اس لیے دن کے اوقات میں باری وغیرہ کا اہتمام ضروری نہیں۔
والله اعلم (عمدة القاري: 191/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5216   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.