الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مشروبات کا بیان
The Book of Drinks
9. باب إِبَاحَةِ النَّبِيذِ الَّذِي لَمْ يَشْتَدَّ وَلَمْ يَصِرْ مُسْكِرًا:
9. باب: جس نبیذ میں تیزی نہ آئی ہو اور نہ اس میں نشہ ہو وہ حلال ہے۔
حدیث نمبر: 5236
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن سهل التميمي ، وابو بكر بن إسحاق ، قال ابو بكر اخبرنا، وقال ابن سهل: حدثنا ابن ابي مريم ، اخبرنا محمد وهو ابن مطرف ابو غسان ، اخبرني ابو حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم امراة من العرب، فامر ابا اسيد ان يرسل إليها، فارسل إليها فقدمت فنزلت في اجم بني ساعدة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جاءها، فدخل عليها فإذا امراة منكسة راسها، فلما كلمها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: اعوذ بالله منك، قال: " قد اعذتك مني "، فقالوا لها: اتدرين من هذا؟، فقالت: لا، فقالوا: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءك ليخطبك، قالت: انا كنت اشقى من ذلك، قال سهل: فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ حتى جلس في سقيفة بني ساعدة هو واصحابه، ثم قال: " اسقنا لسهل "، قال: فاخرجت لهم هذا القدح فاسقيتهم فيه، قال ابو حازم: فاخرج لنا سهل ذلك القدح، فشربنا فيه، قال: ثم استوهبه بعد ذلك عمر بن عبد العزيز، فوهبه له وفي رواية ابي بكر بن إسحاق، قال: اسقنا يا سهل.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ سَهْلٍ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ مُطَرِّفٍ أَبُو غَسَّانَ ، أَخْبَرَنِي أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَاءَهَا، فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَإِذَا امْرَأَةٌ مُنَكِّسَةٌ رَأْسَهَا، فَلَمَّا كَلَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، قَالَ: " قَدْ أَعَذْتُكِ مِنِّي "، فَقَالُوا لَهَا: أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا؟، فَقَالَتْ: لَا، فَقَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَكِ لِيَخْطُبَكِ، قَالَتْ: أَنَا كُنْتُ أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ سَهْلٌ: فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ حَتَّى جَلَسَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ، ثُمَّ قَالَ: " اسْقِنَا لِسَهْلٍ "، قَالَ: فَأَخْرَجْتُ لَهُمْ هَذَا الْقَدَحَ فَأَسْقَيْتُهُمْ فِيهِ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: فَأَخْرَجَ لَنَا سَهْلٌ ذَلِكَ الْقَدَحَ، فَشَرِبْنَا فِيهِ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَوْهَبَهُ بَعْدَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَوَهَبَهُ لَهُ وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ إِسْحاَقَ، قَالَ: اسْقِنَا يَا سَهْلُ.
محمد بن سہل تیمی اور ابو بکر بن اسحٰق نے کہا: ہمیں ابن ابی مریم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو غسان محمد بن مطرف نے بتا یا کہ مجھے ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرب کی ایک عورت کا ذکر کیا گیا۔ (اس کے والد نعمان بن ابی الجون کندی نے پیش کش کی) آپ نے ابو اسید رضی اللہ عنہ سے کہا: کہ اس (عورت کولا نے کے لیے اس) کی طرف سواری وغیرہ بھیجیں۔تو انھوں (حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ) نے بھیج دی وہ عورت آئی بنو ساعدہ کے قلعہ نما مکانات میں ٹھہری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے روانہ ہو کر اس کے پاس تشریف لے گئے جب آپ اس کے پاس گئے تو وہ عورت سر جھکا ئے ہو ئے تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس سے بات کی تو وہ کہنے لگی: میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "میں نے تمھیں خود سے پناہ دے دی۔"لوگوں نے اس سے کہا: کیا تم جا نتی ہو یہ کو ن ہیں؟ اس نے کہا: نہیں انھوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور تمھیں نکا ح کا پیغا م دینے تمھا رے پاس آئے تھے۔اس نے کہا: میں اس سے کم تر نصیب والی تھی۔سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا ئے آپ خود اور آپ کے ساتھ بنو ساعدہ کے چھت والے چبوترے پر تشریف فرما ہو ئے پھر سہل پانی پلا ؤ "کہا: میں نے ان کے لیے وہی پیا لہ (نما برتن) نکا لا اور اس میں آپ کو پلا یا۔ابو حازم نے کہا: سہل رضی اللہ عنہ نے ہمارے لیے بھی وہی پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں سے پیا، پھر عمر بن عبد العزیز نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے وہ پیا لہ بطور ہبہ مانگ لیا۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہ پیا لہ ان کو ہبہ کر دیا۔ابو بکر بن اسحاق کی روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " سہل!ہمیں (کچھ) پلا ؤ۔"
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عرب عورت کا ذکر کیا گیا، (کہ آپ اس سے شادی کر لیں) تو آپ نے ابواسید کو حکم دیا، اس کو پیغام بھیجیں، تو انہوں نے اسے پیغام بھیجا، وہ آ گئی اور بنوساعدہ کی گڑھی میں ٹھہری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر اس کے پاس پہنچ گئے، تو وہ ایک عورت تھی جو سر جھکائے ہوئے بیٹھی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے گفتگو کا آغاز فرمایا، وہ کہنے لگی: میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے اپنے سے پناہ دی۔ لوگوں نے پوچھا، تجھے معلوم ہے یہ کون ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، لوگوں نے بتایا، یہ اللہ کے رسول ہیں، تجھے منگنی کا پیغام دینا چاہتے ہیں، اس نے کہا: میں یہ مقام حاصل کرنے میں انتہائی بدبخت رہی۔ حضرت سہل کہتے ہیں: اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بنوساعدہ کے سقیفہ (چھت) میں بیٹھ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل سے فرمایا: ہمیں پانی پلاؤ۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں تو میں نے ان کے لیے یہ پیالہ نکالا اور انہیں اس میں پانی پلایا، ابو حازم بیان کرتے ہیں: حضرت سہل وہ پیالہ ہمارے پاس لائے اور ہم نے اس میں پانی پیا، پھر اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان سے کہا: یہ پیالہ مجھے ہبہ کر دو، تو انہوں نے اسے انہیں ہبہ کر دیا۔ ابوبکر بن اسحاق کی روایت میں ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیں پلائیے، اے سہل!
ترقیم فوادعبدالباقی: 2007

   صحيح البخاري5637سهل بن سعدأعذتك مني فقالوا لها أتدرين من هذا قالت لا قالوا هذا رسول الله جاء ليخطبك قالت كنت أنا أشقى من ذلك
   صحيح مسلم5236سهل بن سعدأعذتك مني فقالوا لها أتدرين من هذا فقالت لا فقالوا هذا رسول الله جاءك ليخطبك قالت أنا كنت أشقى من ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5236  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ عورت امیمہ بنت نعمان بن شراحیل تھی،
جو انتہائی خوبرو تھی اور اپنے چچا زاد خاوند کی موت دیکھ چکی تھی،
اس کے باپ نعمان بن شراحیل نے خود پیشکش کی تھی کہ آپ میری بیٹی سے جو أجمل أيم فی العرب" عرب کی سب سے زیادہ خوبصورت بیوہ ہے،
شادی کر لیں،
کیونکہ وہ خود بھی اس کی خواہشمند ہے،
آپ نے اس کی پیشکش قبول کر لی اور اس کے کہنے پر حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ کو اس کے لانے کا انتظام کرنے کا حکم دیا،
وہ خود ہی اس کے لیے تیار ہوگئے اور اسے لے آئے،
چونکہ وہ انتہائی خوبصورت تھی،
اس لیے ناز و نخرے کی بنا پر اس کا دماغ بہت اونچا تھا۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق جب آپ نے اسے اپنے پاس آنے کے لیے کہا تو اس نے اپنی بددماغی سے کہا،
کیا کبھی رانی بھی عام آدمی کے پاس آئی ہے تو آپ نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ فرماتے ہوئے اس کو تسلی و تشفی دینے کے لیے،
اس پر شفقت کا ہاتھ رکھنا چاہا تو اس نے یہ کلمات کہہ ڈالے اور اس حدیث میں جو یہ الفاظ ہیں،
وہ آپ کو منگنی کا پیغام دینے آئے تھے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کا باپ آپ سے شادی کی خواہش کا اظہار کر چکا تھا،
وہی اسے بتانا چاہتے تھے،
کیونکہ دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے،
آپ اس کے باپ کے کہنے پر اس سے شادی کر چکے تھے،
اس لیے آپﷺ نے اس سے خلوت کی اور اس پر شفقت کا ہاتھ رکھنا چاہا،
لیکن جب اس نے آپ سے اللہ کی پناہ چاہی تو آپ نے اسے طلاق دے دی اور حضرت اسید رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
اسے رازقی کپڑوں کو جوڑا دے کر اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال شدہ اشیاء سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے،
جس چیز کو آپ نے چھوا ہو،
جس کپڑے کو آپ نے پہنا ہو،
جس برتن سے آپ نے پانی پیا ہو،
اس پر اجماع ہے،
لیکن اس پر دوسرے حقیقی یا فرضی اولیاء اور صلحاء کو قیاس کرنا درست نہیں ہے،
اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام کم از کم شیخین کی متروکہ اشیاء سے تبرک حاصل کرتے یا تابعین صحابہ کرام کے آثار سے تبرک حاصل کرتے،
اس قیاس نے شرک و بدعت کا دروازہ کھولا ہے اور لوگ اشیاء کے مزارات پر طرح طرح کے شرکیہ اور بدعی کام کرتے نظر آتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5236   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.